احساسِ کمتری کے مظاہرے

اب یاد نہیں اپنے قارئین کو کبھی عبد المنعم خان کے بارے میں بتایا ہے کہ نہیں! بتایا ہے تو قندِ مکرر سمجھ لیجیے! عبد المنعم خان ڈھاکہ میں اوسط درجے کے ایک وکیل تھے۔ جنرل ایوب خان سیاست دانوں سے خائف تھے جیسا کہ ہر آمر ہوتا ہے۔ آمروں کو کاسہ لیس‘ ابن الوقت‘ ٹوڈی اور مرغانِ بادنما ہی راس آتے ہیں جن کی لغت میں جی جناب اور یس سر کے سوا کوئی لفظ نہ ہو! عبد المنعم خان میں یہ تمام خصائص موجود تھے؛ چنانچہ جنرل نے انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ ان کے لطیفے‘ کچھ سچے‘ کچھ بناوٹی‘ خوب مشہور ہوئے! ایک ان میں سے یہ تھا کہ جنرل ایوب ڈھاکہ ایئر پورٹ پر جہاز سے نکلے تو استقبال کے لیے گورنر عبدالمنعم خان حاضر تھے۔ جنرل ان سے بغل گیر ہوئے تو کوئی چیز جنرل کو چبھی۔ شک ہوا کہ خنجر یا ریوالور چھپائے ہیں۔ تلاشی کا حکم ہوا مگر عبد المنعم خان کے سینے سے نکلا کیا! ایوب خان کی تصنیف ''فرینڈز‘ ناٹ ماسٹرز‘‘ کا نسخہ! جسے انہوں نے سینے سے لگایا ہوا تھا۔ ایک اور لطیفہ یہ تھا کہ چین گئے اور ماؤزے تنگ سے ملے۔ کہا: ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں! ماؤزے تنگ نے کہا: پوچھئے! پوچھا کہ پاکستان میں بائیں بازو والے دو گروہوں میں منقسم ہیں! ایک بیجنگ نواز! دوسرے ماسکو نواز! آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے! ایک اور لطیفہ بھی ہے۔ آمرانہ حکومت نے مشرقی پاکستان میں ٹیگور کی شاعری پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ ریڈیو‘ ٹی وی پر اس کی شاعری کو گانے‘ پڑھنے یا سنانے کی اجازت نہ تھی۔ ڈھاکہ کے تعلیمی اداروں سے طلبہ کا ایک وفد گورنر صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا کہ عالی جاہ! یہ پابندی ہٹا دی جائے! اس پر عبدالمنعم خان نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے! مشرقی پاکستان کے عوام عبدالمنعم خان سے ان کی کاسہ لیسی کے سبب نفرت کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ کچھ طلبہ نے نفرت کے اظہار کے طور پر ان کا ایک کان کاٹ دیا تھا‘ تاہم مجھے ان کے صاحبزادے کو ملنے یا دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا۔
یہ تمہید تھی۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ اور ہے! وہ یہ کہ عبدالمنعم خان کا کوئی دوست یا ان کے آبائی قصبے سے کوئی جاننے والا ملنے آتا تھا تو وہ اسے گورنر ہاؤس میں اپنی شان و شوکت دکھاتے تھے۔ کبھی پلنگ‘ کبھی پلنگ پوش‘ کبھی فانوس‘ کبھی چائے کے برتن وغیرہ! یہ کیا تھا؟ یہ شدید احساسِ کمتری تھا اور اس بات کی دلیل کہ اچھے بستر‘ پلنگ اور ڈھنگ کے برتن انہیں زندگی میں پہلی بار نصیب ہوئے تھے۔ ہمارے علاقے میں نو دولتیے کے بارے میں یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہ فلاں کا پیٹ عصر کے وقت بھرا ہے! اس مسئلے میں تربیت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ جن لوگوں کو نجابت کا سبق ملا ہو اور یہ سکھایا گیا ہو کہ اصل اہمیت چیزوں کی نہیں‘ انسان اور انسانی رویوں کی ہے ان سے ایسی پست اور مبتذَل حرکتیں سرزد نہیں ہوتیں۔ ایسی حرکتیں کرنے والے افراد معاشرے کے لیے نہ صرف نقصان دہ ہوتے ہیں بلکہ خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
افسوس کہ یہ عامیانہ مائنڈ سیٹ اب سول سروس میں آگیا ہے۔ چند روز پہلے ایک سرکاری ملازم نے جو کسی تحصیل کا والی ہے‘ ٹویٹر پر اپنی اس عالی شان گاڑی کا ذکر مع تصویر کیا جو اسے سرکار نے لے کر دی ہے۔ یہ ایک Hilux Revoگاڑی ہے جو عرفِ عام میں ڈالا کہلاتی ہے اور زمینداروں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور اسی قبیل کی دیگر مخلوقات کی پسندیدہ سواری ہے۔ یہ شان و شوکت اور سٹیٹس کی علامت بھی ہے‘ ایسی شان و شوکت اور ایسا سٹیٹس جس سے سنجیدہ اور متین لوگ دور بھاگتے ہیں اور ہر گز باعثِ عزت نہیں سمجھتے۔ اس سرکاری ملازم نے مبینہ طور پر اس سواری کا ذکر فاخرانہ انداز میں کیا۔ خدا بھلا کرے سوشل میڈیا کا جس کے نقصانات بہت ہیں مگر فوائد بھی کم نہیں‘ آن کی آن میں خلقِ خدا نے اس ناشائستہ ٹویٹ کے ردِ عمل میں وہ مذمت کی کہ افسر کو اپنا ٹویٹ حذف کرنا پڑا۔ عوام بہت زیادہ باشعور اور حساس ہو چکے ہیں۔ بے زبانوں کو زبان مل چکی ہے۔ اب انہیں معلوم ہے کہ دیسی انگریزوں کی یہ شان و شوکت‘ یہ تزک و احتشام‘ یہ تام جھام‘ یہ ہٹو بچو سب عوام ہی کی جیبوں کی کمائی سے چل رہا ہے! سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس مائنڈ سیٹ کے حاکم اور والی سسٹم کے لیے دیمک سے کم نہیں۔ یہ سسٹم پہلے ہی سرطان زدہ ہو چکا ہے۔ اوپر سے اس ذہنیت کی افرادی قوت!! یا وحشت!! بگاڑ کو دس سے نہیں‘ سو سے ضرب دینے والی بات ہے! مقابلے کے امتحان میں امیدواروں کا نفسیاتی جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ یہ کیسا نفسیاتی جائزہ ہے جو شدید احساسِ کمتری رکھنے والے امیدواروں کی نشان دہی نہیں کر سکتا!!
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ چوہدری محمد علی‘ سرتاج عزیز‘ شیخ محمد اکرام‘ قدرت اللہ شہاب‘ مختار مسعود‘ الطاف گوہر ایسی حرکت کرتے؟ ہم نے اپنے زمانۂ ملازمت میں بھی ایسے ایسے درویش صفت افسر دیکھے کہ فقیری ان پر فخر کرتی تھی۔ پشاور والے عبداللہ صاحب تو اپنی زندگی ہی میں لیجنڈ بن گئے تھے۔ ابن الحسن سید‘ سید سرفراز علی شاہ‘ محمود احمد لودھی‘ سید شوکت کاظمی‘ نجم حسین سید‘ سردار اسلم خان مگسی ایسے افسران تھے جو چپڑاسی کو بھی اپنا کولیگ کہتے تھے اور سمجھتے بھی تھے۔ دیانتداری تو تھی ہی‘ طرزِ گفتگو میں شائستگی اور رویوں میں عجز تھا۔ سرکاری گاڑیوں کی موجودگی میں محمود احمد لودھی سائیکل پر اور نجم حسین سید بس پر سوار ہو کر دفتر آتے تھے! اور آج کل کے یہ لڑکے جو اپنے کیریئر کے بالکل ابتدائی دور میں ہیں‘ گاڑیوں کی فخریہ نمائش اور تشہیر کرتے پھرتے ہیں! کوئی ہے جو انہیں اقبال کی یہ نظم ہی پڑھا دے:
مے کدے میں ایک دن اک رندِ زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا والی گدائے بے حیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے‘ مردِ غریب و بے نوا!
پس نوشت۔ سی ڈی اے کہاں ہے؟
وفاقی دارالحکومت کے وسط میں مسجد قطب شہید واقع ہے جو ترقیاتی ادارے کے سربراہ کے دفتر سے بمشکل ایک کلو میٹر دور ہو گی۔ مسجد کی بالکل بغل میں ( سیکٹر جی سکس فور کی سٹریٹ تریسٹھ میں) غلاظت سے بھرا چھکڑا‘ جس کے پہیے نہیں ہیں‘ چوبیس گھنٹے کھڑا رہتا ہے۔ مسجد جانے والے نمازیوں کو اس تعفن سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔ گندگی کے یہ مستقل ڈپو کسی بھی گزرگاہ کے کنارے نہیں ہونے چاہئیں‘ چہ جائیکہ مسجد کے پاس ہوں! مسجد کے حوالے سے تو پیاز اور لہسن کی بُو بھی پسندیدہ نہیں! حیرت ہے کہ اس غلاظت گاہ کے ساتھ والے گھروں میں لوگ رہ کس طرح رہے ہیں! گئے زمانوں میں بادشاہ بھیس بدل کر راتوں کو شہروں میں پھر تے تھے اور مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ آج متعلقہ اداروں کے سربراہ تک شہر کے مسائل کی براہِ راست واقفیت نہیں رکھتے! پروٹوکول اور افسری شہر اور والی ٔ شہر کے درمیان حائل ہے! سعدی کی تنبیہ آج بھی نوشتہ دیوار ہے:
خیری کُن اے فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ بر آید فلان نماند
زندگی کو غنیمت جانیے۔ فلاح کا کوئی کام کر سکتے ہیں تو کر جائیے۔ اس سے پہلے کہ آپ کے کوچ کا اعلان ہو جائے!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں