عصر پڑھ کر ‘ روزانہ کی سیر کے بجائے آج میں بازار کا رُخ کر تا ہوں۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ عصر اور مغرب کے درمیان سونا نہیں چاہیے! معلوم نہیں یہ محض نصیحت ہے یا اس مفہوم کی کوئی روایت بھی ہے! لیکن ایک بات اس سے بھی آگے کی ہے اور وہ یہ کہ عصر اور مغرب کے درمیان نہ صرف یہ کہ سونا نہیں چاہیے‘ گھر کے اندر بھی نہیں رہنا چاہیے! یہ وقت باہر نکلنے کا ہے۔ سیر کرنے کا ہے یا ورزش کرنے کا۔ اگر سیر اور ورزش بھی نہیں کرنی‘ تو نزدیک ترین پارک میں جا کر کسی بنچ پر ہی بیٹھ جا ئیے۔ بچوں کو کھیلتے دیکھیے۔ اس سے بھی دماغ کی تھکن دور ہو گی۔ تازگی کا احساس ہو گا۔محبوب خزاں نے کہا تھا
خزاں ! کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
کسی ہرے بھرے باغ میں پھولوں کو دیکھنا‘ پرندوں کی چہچہا ہٹ سننا‘ شام کے وقت ڈار کی صورت سینکڑوں طیور کو واپس آتے دیکھنا‘فضامیں بادلوں کو طرح طرح کی شکلیں بناتے دیکھنا‘ دریا کے کنارے بیٹھ کر بہتے پانی کی روانی سے لطف اندوز ہونا‘یہ سب مناظر اچھے لگتے ہیں مگر جو مزا بچوں کو دوڑتے‘ بھاگتے اور کھیلتے دیکھ کر آتا ہے‘ اس کی بات ہی اور ہے!
کوشش کرتا ہوں کہ عصر اور مغرب کے درمیان گھر میں نہ رہوں۔ آج بھی گھر سے نکل پڑتا ہوں۔ سیرگاہ کی طرف جانے کے بجائے بازار کا رُخ کرتا ہوں۔ کچھ کام بھی ہو جائیں اور پیدل بھی چل لیا جائے تو ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گے۔ یہ وفاقی دارالحکومت کا سب سے پرانا اور مشہور بازار ہے۔ ایک مخصوص قربت کی وجہ سے بھی یہ معروف ہے! ایک جائے نماز درکار ہے جو بہت چھوٹے سائز کی ہو۔ تقریباً دو فٹ لمبی اور پندرہ سولہ فٹ چوڑی! اسے سامنے بچھا کر کہیں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اب تو بہت سے لوگ اس سائز کی جائے نماز مسجدوں میں ساتھ لانے لگے ہیں۔ حیرت ہے لوگوں نے اپنے گھروں میں قالین اٹھا کر ماربل اور ٹائلیں لگا لیں مگر خدا کے گھروں میں وہی قالینی صفیں بچھی ہیں۔مدتوں صفائی نہیں ہوتی۔ گیلے پاؤں رکھنے کی وجہ سے مرطوب رہتی ہیں اور جراثیموں کی فیکٹریاں بن جاتی ہیں۔ ناخوشگوار بُو الگ آتی ہے۔ وہ زمانہ زیادہ صاف ستھرا تھا جب مسجدوں میں کھجور کے پتوں سے بُنی ہوئی چٹائیاں بچھائی جاتی تھیں۔ان کی زندگی مختصر ہوتی تھی۔ جلد نئی آجاتی تھیں۔ تب مسجدوں کے صحن بھی ہوتے تھے۔ گرمیوں میں صبح‘ مغرب اور عشا کی نمازیں اور جاڑوں میں ظہر اور عصر کی نمازیں صحن میں ادا کی جاتی تھیں۔ یوں چٹائیوں کو ہوا بھی لگتی تھی اور دھوپ بھی۔ ترقی کی جتنی منازل زیادہ طے ہو رہی ہیں‘ اِنَّ الانسانَ لفی خْسر کے اسرار بھی ایک ایک کر کے کھلتے چلے جا رہے ہیں! جس آبادی میں فقیر کا ٹھکانا ہے وہاں مسجدوں کے صحن ہی نہیں! بس چھت ہی چھت ہیں!
چند دکانوں سے جائے نماز کا پوچھتا ہوں۔ لوگ رہنمائی کرتے ہیں کہ فلاں گلی میں فلاں دکان ہے جہاں گوہرِ مقصود پایا جائے گا۔وہاں پہنچتا ہوں۔ ایک صاحب وہاں تشریف فرما ہیں۔ دکان کے باہر‘ برآمدے میں جائے نمازوں کے انبار لگے ہیں۔ عرض کرتا ہوں چھوٹی سائز کی جائے نماز درکار ہے۔ شدید بیزاری کے عالم میں صاحب کہتے ہیں: ہمارے پاس چھوٹے سائز کی جائے نماز کوئی نہیں! سُن کر باہر نکلتے نکلتے غیر ارادی طور پر انبار کو دیکھنے لگتا ہوں۔ کچھ جائے نمازوں کو نیچے سے کھینچ کر نکالتا ہوں۔اچانک ہاتھ میں چھوٹے سائز کی جائے نماز آجاتی ہے۔ اُن صاحب کو دکھاتا ہوں۔ وہ خاموش رہتے ہیں۔ اب میری ہمت بڑھ جاتی ہے۔ میں تقریباً ساری ہی جائے نمازیں الٹ پلٹ دیتا ہوں۔ تعجب ہے کہ بظاہر سخت مردم بیزار ہونے کے باوجود وہ میری دست درازی پر معترض نہیں ہوتے! اپنی پسند کی دو جائے نمازیں ان سے خریدتا ہوں۔ ہوں تو نامی گرامی منہ پھٹ! جب وہ بقایا رقم دے چکتے ہیں تو ان سے مخاطب ہوتا ہوں۔''حاجی صاحب! آپ بہت اچھے آدمی ہیں! بس کبھی کبھی مسکرا دیا کیجیے!‘‘ ان کی پیشانی پر شکنوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے مگر بھلا ہو اُن کا ‘ کہتے کچھ نہیں! میں اندازہ لگاتا ہوں کہ شاید اس وقت ان کا ملازم موجود نہیں اور خود وہ براہ راست گاہکوں کو منہ لگانے کے عادی نہیں!
واپس مڑتا ہوں۔ بازار کی گلیاں‘ برآمدے‘ دکانیں خلقِ خدا سے چھلک رہی ہیں۔ بوڑھے‘ بچے‘جوان‘ پتلون پوش‘ شلوار قمیضوں میں ملبوس‘ ہر قسم کے لوگ آجا رہے ہیں۔ برقع پوش خواتین‘ ماڈرن لڑکیاں‘ بے فکرے نوجوان‘ سگرٹ پیتے ہوئے لڑکوں کے گروپ‘ آوازیں لگاتے ریڑھی بان! زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہے! تیز ‘ پھیکے اور مدہم رنگوں کے ساتھ! یہ اور بات کہ کچھ لوگ شیشے کے گھروں میں محصور ہیں اور زندگی کے ان اصل رنگوں سے محروم ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ Colour Blindہیں اور زندگی کے ان اصل رنگوں کو دیکھنے کی ان میں صلاحیت ہی نہیں! چلتا جاتا ہوں۔ اچانک کانوں میں ایک عورت کی اونچی آواز آتی ہے۔ سامنے کچھ لوگ ایک جگہ اکٹھے کھڑے ہیں۔ دکاندار بھی دکانوں سے باہر نکل آئے ہیں۔ ادھیڑ عمر کی یہ گداگر عورت چیخ رہی ہے اور بے تحاشا گالیاں دے رہی ہے۔ اس کی تین لڑکیوں کو‘ جو اسی بازار میں بھیک مانگ رہی تھیں‘ پولیس اٹھا کر لے گئی ہے! اب وہ اس پولیس والے کو اپنے سامنے دیکھنا چاہتی ہے۔ پولیس کو مسلسل بے نقط سنا رہی ہے۔ میں ‘ ساتھ کھڑے ایک دکاندار سے کہتا ہوں کہ اگر بھکاریوں کو پولیس اٹھا لے جا رہی ہے تو یہ تو اچھی بات ہے۔ دکاندار سیانا آدمی ہے۔ کہتا ہے کہ اگر پولیس بھکاریوں کو لے جا کر کسی کام دھندے پر لگا دے تا کہ انہیں بھیک نہ مانگنی پڑے تو اچھی بات ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ بھکاریوں کو پکڑتے ہیں ‘ پھر ان کی '' کمائی‘‘ سے ایک حصہ لے کر انہیں چھوڑ دیتے ہیں! اب اگر وفاقی دار الحکومت کا یہ حال ہے تو دوسرے شہروں اور قصبوں میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہو گا!
اب میں بازار کے آخری کنارے پر پہنچ گیا ہوں۔ یہاں ہر طرف موبائل فونوں کی دکانیں ہیں۔ آب پارہ بازار کے اس سرے پر کبھی کامران ریستوران ہوتا تھا۔ ہم نے کتنی ہی بار یہاں چائے پی ہو گی اور کھانا کھایا ہو گا۔ نام ریستوران کا اب بھی لکھا ہے مگر خود ریستوران کا وجود کوئی نہیں۔ اب یہاں بینک ہیں۔ میری نظر اس عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے پر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر جاتی ہے۔ وہ ستر اور اسّی کے درمیان ہو گا۔ اس نے زمین پر سٹال سا لگایا ہوا ہے۔میں اس کے سامنے بیٹھ جاتا ہوں۔ ڈھیلی عینک اس کی ناک پر ٹھہرتی نہیں۔ سر پر پرانا سا رومال باندھے ہے۔ نام پوچھتا ہوں اور یہ بھی کہ کیا اس کے بیٹے اس کا خیال نہیں رکھتے؟ اس عمر میں کیوں کام کر رہا ہے ؟ وہ بھی زمین پر بیٹھ کر! وہ خالص پوٹھو ہاری زبان میں جواب دیتا ہے۔ ایک ہی بیٹا ہے جو کسی ٹھیکیدار کے ساتھ کام کرتا ہے۔ بیٹے کا اپنا بال بچہ بھی ہے۔ کچھ مہینوں سے بجلی کا بل اتنا زیادہ آرہا ہے کہ کام کرنے کے سوا چارہ نہیں۔ بوڑھے کا سٹال کیا ہے؟ زمین پر چادر بچھی ہے۔ اس پر ٹافیوں اور کینڈی کے کچھ پیکٹ رکھے ہیں۔ چاول کے کچھ مرنڈے پڑے ہیں! میں اس سے کچھ خریداری کرتا ہوں تا کہ اس کی بِکری ہو جائے۔مگر سوچتا ہوں ریاست کہاں ہے؟ یہ بوڑھا اگر کینیڈا یا سویڈن یا کسی اور کافر ملک میں ہوتاتو ریاست اسے گھر بٹھا کر کھلاتی ‘مگر یہ تو ایک اسلامی ملک کا شہری ہے! کٹر اسلامی ملک کا!!