بلدیاتی ادارے‘ اسلام آباد اور میئر

''اس وقت سب شہروں کے بلدیاتی ادارے ڈی ایم جی افسران کے پاس ہیں۔ آپ کسی شہر میں چلے جائیں وہاں گندگی کی حالت دیکھ لیں‘‘ یہ ماتمی مگر مبنی بر صداقت فقرہ دوستِ عزیز جناب رؤف کلاسرا کا ہے!
دو تین ہفتے پہلے جب خبر چلی کہ اسلام آباد کے دو سرکاری ہسپتالوں کے سربراہ فوج سے لیے جائیں گے تو مجھے یہ خبر بالکل نہ بھائی۔ سول محکمے سول افراد ہی کے چارج میں رہنے چاہئیں۔ یہ ایشو کچھ صحافی دوستوں اور کچھ دیگر اصحاب سے شیئر کیا۔ ان میں سے کچھ دوست ثقہ ہیں اور سچ بولنے کے لیے مشہور!
امید یہ تھی کہ میرے نقطۂ نظر کی تائید ہو گی اور وہ اس فیصلے کی مخالفت کریں گے‘ مگر تعجب ہوا کہ زیادہ تر کی رائے اس فیصلے کے حق میں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ان دونوں شفا خانوں میں مریض رُل رہے ہیں‘ انتظارگاہوں میں بیٹھ بیٹھ کر گل سڑ رہے ہیں اور بدنظمی نے ان ہسپتالوں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ اس کے پیش نظر فوجی افسر ہی آکر کچھ کریں تو کریں۔ اس پر اپنا ذاتی تجربہ یاد آگیا۔ چند سال پہلے ایک نیفرالوجسٹ سے ملنا تھا جو بظاہر اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال سے وابستہ تھا۔ کئی دن جاتا رہا۔ مالیات کا سربراہ پروٹوکول بھی دیتا اور چائے بھی پلاتا مگر ڈاکٹر دستیاب نہ ہوا۔ پانچویں دن شام کو اس کے نجی مطب میں گیا‘ نذرانہ پیش کیا تب حضرت کی ''زیارت‘‘ ہوئی۔
برادرم کلاسرا صاحب کا قول سب سے زیادہ خود وفاقی دارالحکومت پر صادق آتا ہے۔ یہ شہر جو کبھی شہرِ دلبراں تھا‘ یوں لگتا ہے اب زاغ و زغن کا مسکن ہے اور Slums کی آماجگاہ! شہر کا دل میلوڈی مارکیٹ ہے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ کسی تھرڈ کلاس قصبے سے بھی زیادہ کثیف ہے۔ لاری اڈے ٹائپ کے ڈھابوں سے اٹا ہوا یہ مقام پیر ودھائی کا بھائی لگتا ہے۔ نیشنل بینک والی سائیڈ ہے یا فوڈ پارک‘ یا اندر والا حصہ‘ گندگی سے بھرا ہے۔ نالیوں سے تعفن زدہ پانی باہر نکل رہا ہے اور ساتھ بیٹھ کر لوگ کھانے کھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سی ڈی اے کے کسی سربراہ نے آخری بار اس غلاظت کدے کا دورہ کب کیا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام شہری کیوں چاہتا ہے کہ کسی ادارے کا سربراہ فوجی افسر ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فوجی افسر سے رابطہ کیا جائے تو وہ Respondکرتا ہے۔ جواب دیتا ہے۔ فون کریں گے تو واپس فون کرے گا۔ خط لکھیں گے تو جواب دے گا۔ ملنے کے لیے جائیں گے تو خواہ چند منٹ ہی دے‘ ملے گا ضرور! میرا تجربہ ہے اور کسی مصلحت اور خوف کے بغیر اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ 95 فیصد آج کے سول افسر فون کال کا جواب دیتے ہیں نہ چٹھی کا۔ اور 95 فیصد فوجی افسروں کا ردِ عمل اس کے بر عکس ہے۔ دو سال پہلے ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ کے محکمے میں ایک کام پڑا۔ اس محکمے کے افسر سی ایس ایس سے آتے ہیں۔ محکمے کا سربراہ ڈی جی کہلاتا ہے۔ پہلے سربراہ اسی محکمے سے ہوتا تھا یعنی سی ایس ایس کا افسر! کچھ عرصے سے سربراہ جرنیل ہونے لگا ہے۔ بظاہر یہ نا انصافی ہے‘ مگر ان سی ایس ایس کے افسروں کا برتاؤ دیکھیے تو انسان مجبوراً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سربراہ کے علاوہ نیچے بھی فوجی افسر آجائیں تو لوگوں کا بھلا ہو۔ کام پڑا تو سوچا کہ سربراہ تو جرنیل ہے۔ اس کا نائب (ڈپٹی ڈی جی) اپنا سی ایس ایس کا پیٹی بند بھائی ہے‘ اسی سے بات کی جائے۔ فون کیا تو معلوم ہوا کہ صاحب لنچ کر رہے ہیں‘ فارغ ہو کر فون کرتے ہیں۔ یہ فون کبھی نہ آیا۔ پھر سوچا کہ نائب سربراہ کے نیچے ڈائریکٹر ہے‘ وہ بھی سی ایس ایس سے ہے‘ اس سے بات کر تے ہیں۔ یہ ایک خاتون تھیں‘ انہوں نے بھی بات کرنا گوارا نہ کیا۔ پانچویں دن ڈی جی کو یعنی جرنیل کو فون کیا۔ پی اے نے نام نمبر نوٹ کر لیا۔ اسی دن شام کو جرنیل کا جوابی فون آ گیا۔ (اب ان کا نام یاد نہیں) حال احوال بھی پوچھا‘ کام بھی کرایا۔ قومی نوعیت کے ایک مسئلے پر پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کے سربراہ سے بات کرنا تھی۔ یہ بھی جرنیل تھے۔ فوراً بات ہو گئی۔ تجویز کو بھی انہوں نے سراہا۔ جن دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ تھری سٹار جنرل کی حیثیت سے جی ایچ کیو میں IGT (انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیو ایشن ) تھے‘ غالباً یہ 2015 ء یا 2016ء کی بات ہے۔بیرون ملک سے آئے ہوئے چند مہمانوں کے لیے شمالی علاقوں میں اُس گیسٹ ہاؤس کی ضرورت پڑی جو آرمی کے زیر انتظام تھا۔ جنرل باجوہ صاحب کے سٹاف سے بات کی۔ جواب میں انہوں نے خود فون کیا۔ گیسٹ ہاؤس چند حساس وجوہ کی بنا پر فنکشنل نہیں تھا۔ انہوں نے پیشکش کی کہ اس کے علاوہ جہاں بھی چاہیں‘انتظام ہو جائے گا۔ جس زمانے میں میں دفاع کے حسابات اور مالیات کے شعبے میں کام کر رہا تھا‘ تھری سٹار جرنیل خود فون کر کے کہتے تھے کہ فلاں سپاہی ان کی یونٹ کا ہے اور اس کا یہ مسئلہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کوئی وفاقی یا صوبائی سیکرٹری اپنے کسی نائب قاصد یا کلرک کے لیے ایسا کرے گا؟
اب دوسری انتہا دیکھیے۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں ‘ جی سکس فور کی سٹریٹ 63 میں مسجد قطب شہید ہے۔ مسجد کی بغل میں کوڑے کرکٹ کاڈپو ہے جہاں ایک چھکڑا نما چیز غلاظت سے اٹی رہتی ہے۔ مسجد جانے والوں کا سابقہ بدبو کے بھبکوں سے پڑتا ہے۔ اس پر کالم لکھا اور سی ڈی اے کے سربراہ کی توجہ مبذول کی۔ کوئی ایکشن نہ ہوا۔ پھر کالم ‘ چیئرمین سی ڈی اے کے نام کوریئر کے ذریعے بھیجا۔ کچھ نہیں ہوا۔ سیکرٹری داخلہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ بات نہ ہوئی۔ اب اس مسئلے کو وزیر داخلہ جناب سرفراز بگتی کے گوش گزار کرنا ہے۔ ان سے یقینا بات ہو جائے گی کیونکہ وہ سیاستدان ہیں ‘ افسر نہیں! بات تو وزیراعظم صاحب سے بھی ہو جائے گی مگر کسی سول افسر سے بات نہیں ہو سکتی کیونکہ جو لاٹ اب آرہی ہے وہ اُس اخلاقیات اور آداب سے محروم ہے جو کسی زمانے میں سول سروس کا طرۂ امتیاز تھا۔ طارق عزیز مرحوم جب جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری تھے تب بھی‘ شدید مصروفیت کے باوجود‘ فون کال کا جواب دیتے تھے۔ اب امتیازی صفت ایک ہی رہ گئی ہے اور وہ ہے شدید احساس کمتری۔ الّا ماشاء اللہ !
بلدیاتی اداروں کی بہتری کا ایک ہی حل ہے۔ مقامی حکومتیں یعنی لوکل گورنمنٹس! گندگی ہے یا کچھ اور ‘ ان افسروں کی بلا سے! انہوں نے کون سا اس شہر میں ہمیشہ رہنا ہے۔ کچھ اس کوشش میں ہیں کہ کوئی بہتر سٹیشن مل جائے۔ کچھ ترقی کی امید میں ہیں! بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔ کام کریں گے تو ووٹ مانگنے کی حالت میں ہوں گے! سیاسی مخالف الگ کیمرے لگائے بیٹھے ہیں! یہ صوبائی حکومتوں کی آمرانہ روش ہے جو مقامی حکومتوں کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ وزرائے اعلیٰ کو مقامی حکومتیں نہ ہونے کے دو بہت بڑے فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ مقامی حکومتوں کو فنڈز نہیں دینے پڑتے۔ منتخب مقامی حکومتیں مالی خود مختاری مانگتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ بلدیاتی ادارے بیورو کریسی کی تحویل میں ہوں گے تو ہر حکم کے جواب میں یس سر‘ یس سر کی گردان موصول ہو گی۔ سیاستدان تو سوال جواب کرے گا!! ہمیں یہی جمہوریت راس آتی ہے جس میں ضلع اور تحصیل تو دور کی بات ہے اسلام آباد جیسا مرکزی اور اہم شہر بھی منتخَب میئر سے محروم ہو !!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں