ایک حالیہ سروے کے مطابق چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصورت ترین شہر قرار دیا ہے۔ پندرہ فیصد نے یہ اعزاز لاہور کو دیا ہے اور نو فیصد نے کراچی کو! باقی شہروں کا بھی ذکر ہے۔ نہیں معلوم یہ سروے کیوں کیا گیا اور کتنا قابلِ اعتبار ہے مگر‘ بہرطور‘ یہ سروے آواز دے رہا ہے کہ اپنے شہروں کی خبر لو!
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کراچی اس خطے کا مقبول ترین شہر تھا۔ تب دبئی منظرپر تھا نہ سنگاپور! یورپی ملکوں کے سفیر ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں مقیم ہونا پسند کرتے تھے۔ دنیا بھر کے جہاز کراچی اترتے تھے! غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم ہوا کرتے تھے۔ یہ جو علاقہ ہے‘ ریجنٹ پلازا ( پرانا نام تاج محل) سے لے کر میٹرو پول ہوٹل تک‘ اور اس سے آگے میریٹ تک‘ یہ سارا علاقہ سیاحوں کے لیے جنت تھا۔ زینب مارکیٹ غیر ملکی خریداروں سے چھلک رہی ہوتی تھی۔ ریگل کراچی کا مرکز تھا۔ امن و امان اس قدر مثالی تھا کہ رات رات بھر دکانیں کھلی رہتی تھیں! اس کالم نگار نے ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ ستر کی دہائی تھی! ہم چند دوست رات کے دو بجے‘ پیدل چلتے ہوئے‘ بندو خان کے ریستوران میں جایا کرتے تھے۔ واپسی پر ایرانی ریستوران سے‘ جو اس وقت کھلے ہوتے تھے‘ کافی پیا کرتے تھے۔ گورنمنٹ ہوسٹل چڑیا گھر (گاندھی گارڈن) کے بالکل سامنے تھا۔ وہاں سے لے کر صدر تک پیدل جانا پکنک کی طرح لگتا تھا! صدر میں فرزند قلفی والے کی دکان پر کتنے ہی گم شدہ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے والی گلیاں مسیحی اور پارسی آبادیوں سے بھری ہوئی تھیں! کراچی کے حوالے سے محمد خالد اختر کا شہرہ آفاق ناول ''چاکی واڑہ میں وصال‘‘ منظرِ عام پر آ چکا تھا۔ کراچی کے گلی کوچوں سے واقفیت کے بعد‘ اس ناول کو ہم نے بار بار پڑھا اور ہر بار نیا لطف اٹھایا۔ سنا ہے فیضؔ صاحب کا بھی یہ پسندیدہ ناول تھا۔ محمد خالد اختر کا اسلوب خاص ہے اور اسے پسند کرنے کے لیے اس کا ذوق پالنا پڑتا ہے۔ کئی دہائیاں پہلے‘ اسلام آباد میں منعقدہ‘ اہلِ قلم کانفرنس کے دوران مستنصر تارڑ صاحب نے مجھے محمد خالد اختر سے ملایا۔ وہ طویل قامت تھے۔ دھان پان! مجھے فخر ہے کہ میں نے انہیں دیکھا اور ان سے ہاتھ ملایا!
اُس رنگارنگ‘ خوبصورت‘ دل آویز اور شیشے جیسے صاف شفاف کراچی کو کیا ہوا؟ کس کی نظر لگ گئی؟ پہلا مجرم‘ اس ضمن میں‘ علاقائیت پرستی تھی! ہم پاکستانی ہونے کے بجائے پنجابیوں‘ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں‘ سرائیکیوں‘ براہویوں میں بٹ گئے! کراچی یونیورسٹی میں پندرہ کے لگ بھگ طلبہ تنظیمیں تھیں جو لسانی‘ صوبائی اور نسلی بنیادوں پر قائم تھیں! جب ہر طرف یہی کچھ ہو رہا تھا تو الطاف حسین نے بھی مہاجر کی بنیاد پر طلبہ کی تنظیم بنائی۔ ردِعمل ہمیشہ شدید اور غیر منطقی ہوتا ہے۔ اس ردِعمل میں پورس کے ہاتھیوں کی طرح کراچی ہی کو برباد کر دیا گیا۔ اس بربادی کی تفصیل ہم سب جانتے ہیں! دوسرا مجرم نااہلی اور نالائقی تھا۔ لسانی بنیادوں پر کراچی کی آبادی تقسیم ہو گئی۔ حکمران کوتاہ اندیش تھے اور سخت نالائق اور خود غرض! یہاں جدید سنگاپور کے معمار لی کوآن ییو کی فراست اور دور اندیشی یاد آتی ہے۔ سنگاپور میں تین قومیتیں آباد ہیں۔ چینی‘ مَلے اور انڈین۔ کسی بھی بلڈنگ میں ممکن نہیں کہ صرف چینی یا صرف انڈین یا صرف مَلے رہ سکیں۔ سب کو مکس ہو کر رہنا پڑے گا! فلیٹوں کی ہر عمارت میں ان کے کوٹے مقرر ہیں! ہم اہلِ پاکستان کی نالائقی اور نااہلی کی انتہا یہ ہے کہ آج تک متبادل بندرگاہ نہیں بن سکی۔ اگر گوادر آباد ہو جاتا تو اندرونِ ملک سے لوگوں کا رُخ اُس کی طرف ہو جاتا! موجودہ صورتِ حال میں کراچی کی آبادی ہر سال‘ ہر ماہ‘ ہر روز‘ ہر لمحہ بڑھ رہی ہے!
یہی کوتاہ اندیشی اور عقل کا اندھا پن لاہور کو بھی برباد کرنے کے درپے ہے!! لسانی بنیاد پر پاکٹس (Pockets) بن رہی ہیں اور بڑھتی جا رہی ہیں ! اگر ان لسانی جزیروں کو روکا نہ گیا تو کل یہاں سہراب گوٹھ بھی بن جائے گا اور لسانی بنیادوں پر انتخابات بھی شروع ہو جائیں گے! اس کوتاہ اندیشی کی ایک مثال ذہن سے کبھی نہیں اترتی! شہباز شریف جب چیف منسٹر تھے تو کلرکہار کے دورے پر گئے۔ وہاں ایک لسانی تنظیم نے ان سے مطالبہ کیا کہ آبادی کے ایک خاص حصے کو ایمبولنس دی جائے! وزیراعلیٰ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ایمبولنس دی جائے گی مگر کسی خاص تنظیم اور کسی خاص لسانی گروہ کے لیے نہیں بلکہ یہ تمام لوگوں کے لیے ہو گی خواہ وہ کوئی سی زبان بولتے ہوں یا کسی بھی نسل یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں! مگر ہمارے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہی ہوتی ہے۔ ایمبولنس منظور کی گئی مگر صرف ایک خاص کمیونٹی کے لیے! اسے کہتے ہیں اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا!! خدا لاہور کے مستقبل کو محفوظ رکھے اور ایک اور کراچی بننے سے روکے!
چوبیس فیصد لوگوں نے اسلام آباد کو ملک کا خوبصوت ترین شہر قرار دیا! یہ شہر کبھی خوبصورت تھا مگر اب نہیں! عرصہ ہوا ایک دوست جو بھارت سے ہو کر آیا تھا‘ اسلام آباد کا موازنہ چندی گڑھ سے کر رہا تھا! دونوں شہر نئے ہیں اور منصوبہ بندی سے بنے ہیں! اُس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد‘ چندی گڑھ کی نسبت زیادہ صاف ستھرا ہے! تب ایسا ہی تھا! آج کا اسلام آباد Slums کا مجموعہ ہے! اگر آپ نے ملک کا سب سے زیادہ غلیظ بازار دیکھنا ہو تو میلوڈی مارکیٹ جا کر دیکھیے! یہ شہر کا دل ہے! نام نہاد دل! نالیوں سے سیوریج کا پانی باہر چھلک رہا ہے‘ گٹر ابل رہے ہیں اور اس سب کے درمیان لوگ بیٹھے کھانے کھا رہے ہیں اور چائے پی رہے ہیں! شہر کے حاکم کو پروا ہے نہ ریستورانوں کے مالکوں کو! پارکنگ کا برا حال ہے۔ نیشنل بینک کی بڑی عمارت کھوکھوں کی کثرت اور پارکنگ کی ہڑبونگ کا شکار ہے! اسی طرح سپر مارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ بھی کھو کھوں سے اَٹی پڑی ہیں! صفائی عنقا ہے!
اسلام آباد کا زوال جنرل ضیاء الحق کے تاریک دور میں شروع ہوا۔ ماسٹر پلان کی دھجیاں اُڑائی گئیں! پلاٹوں کی بندر بانٹ ہوئی۔ جنرل صاحب نے نرسریاں اور فارم اپنی ذاتی پسند‘ ناپسند کی بنیاد پر بانٹے۔ گرین ایریاز میں خوب خوب نقب لگائی گئی! بعد میں آنے والے حکمرانوں نے غلط بخشیوں کا یہ کاروبار جاری رکھا! نوازشیں جاری رہیں! شہر گہناتا گیا! پارک اور گرین ایریا کم ہوتے گئے۔ سیمنٹ اور سریا غلبہ پاتا رہا! مخصوس مافیا مکانوں اور پلاٹوں کی قیمتیں بڑھاتا رہا! یہاں تک کہ یہ قیمتیں عام پاکستانیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئیں! ساتھ ساتھ پانی کی قلت ہوتی گئی! کراچی کی طرح ٹینکر مافیا بھی وجود میں آگیا! جولائی2016 ء میں سپریم کورٹ نے ایل ڈی اے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ قرار دیا۔ اس پر اس کالم نگار نے سی ڈی اے کو شرم دلائی کہ یہ اعزاز تو آپ کا تھا۔ جا کر سپریم کورٹ میں فریاد کیجیے کہ کرپٹ ترین ادارہ ہم ہیں! شہروں کی خوبصورتی کو بر قرار رکھنا‘ بڑھانا‘ آبادیوں اور بستیوں کو سائنسی بنیادوں پر کنٹرول کرنا مقامی حکومتوں کا کام ہے! یہاں تو مقامی حکومتیں ہی غائب ہیں! اسلام آباد اپنے میئر سے محروم ہے اور بیورو کریسی کے رحم و کرم پر ہے! یہ طے ہے کہ بیورو کریسی سینے میں دل نہیں رکھتی اور سر میں بھیجا نہیں رکھتی! اس بیورو کریسی کی خوش قسمتی دیکھیے کہ جن حکمرانوں نے اسے کنٹرول کرنا ہے وہ خود نیم تعلیم یافتہ ہیں!!