دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ آج بہت دنوں بعد آسمان پر کوئی ابر پارہ نہیں دکھائی دے رہا۔ میں باہر صحن میں چارپائی بچھاتا ہوں۔ سرہانے تکیہ رکھتا ہوں اور دراز ہو جاتا ہوں۔ سورج کی کرنیں آنکھوں پر پڑتی ہیں تو آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ سونے اور جاگنے کی اس درمیانی کیفیت میں یوٹیوب پر ضمیر جعفری کو تلاش کرتا ہوں اور ان کی شہرہ آفاق نظم ''مسز ولیم‘‘ اُنہی کی آواز میں سنتا ہوں۔ یہ وہ شاعری ہے جس میں ادبِ عالیہ اور مزاح کی ناقابلِ فراموش چاشنی ہے۔ ایسی شاعری آج نایاب نہیں تو انتہائی کمیاب ضرور ہے! ضمیر جعفری مرحوم کی دلکش مترنم آواز تو پڑھنے والوں تک نہیں پہنچائی جا سکتی مگر نظم دیکھیے اور قدرتِ کلام پر سر دُھنیے:
مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو ؍ وہ اپنے عہد میں افیون کی پرچون تھی یارو ؍ فرانسیسی ملی انگریزیوں میں بات کرتی تھی ؍ وہ دن گلیوں میں رہتی تھی کلب میں رات کرتی تھی ؍ تکلم میں پرانی بلبلوں کو مات کرتی تھی ؍ گئی گزری سہی لیکن گزر اوقات کرتی تھی ؍ وہ آنکھیں بحرِ اطلانتک کے نیلے پانیوں جیسی ؍ بدن یونانیوں جیسا نظر مصرانیوں جیسی ؍ جوانی میں بکھنگم کی حسیں ملکانیوں جیسی ؍ طبیعت ناملائم مستقل استانیوں جیسی ؍ کبھی لندن‘ کبھی دلّی‘ کبھی رنگون تھی یارو ؍ مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو ؍ زباں زدِ عام تھیں لندن میں خوش اندامیاں اس کی ؍ لباس و لفظ میں گُلبرگیاں‘ بادامیاں اس کی ؍ انوکھی تھیں ہر اک مادام سے مادامیاں اس کی ؍ کئی تھانوں کے اندر مشتہر تھیں خامیاں اس کی ؍ کہ شہزادوں سے بھی منسوب تھیں بدنامیاں اس کی ؍ شبِ ہفتہ کو جب سر جان ینگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ کئی سمتوں سے اُڑ اُڑ کر پتنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ بڑے نامی گرامی شیر جنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ ملنگ آتے تھے اور پی پی کے بھنگ آتے تھے گھر اس کے ؍ گریجوایٹ‘ ایل ایل بی‘ لفنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ سیاست کے کئی تیمور لنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ صحافت کے دبیرانِ دبنگ آتے تھے گھر اُس کے؍ سول سروس کے مُرغان و کلنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ پہاڑی توپخانے کے خدنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ امیر البحر نیوی کے نہنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ کئی جرنیل اپنے گھر سے تنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ سیاسی پارلیمانی پلنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ ولایت کے کماندارانِ جنگ آتے تھے گھر اُس کے ؍ محلّے بھر کی افواہوں کا ٹیلی فون تھی یارو ؍ مسز ولیم عجب انداز کی خاتون تھی یارو!!
یہ نظم اصلاً انگریزی سے ماخوذ ہے مگر ضمیر جعفری صاحب نے ترجمہ ہی نہیں کیا‘ اپنی قادر الکلامی سے اسے طبعزاد کے مرتبے تک پہنچا دیا ہے!
بات دھوپ سے چلی تھی ! سرما میں دھوپ کا لطف تب آتا ہے جب گھر جنوب کے رخ ہو! ہماری بستیوں اور قریوں میں گھر ہمیشہ جنوب کے رخ پر بنائے جاتے تھے! شہروں میں بھی گھر بناتے وقت یا خریدتے وقت‘ دور اندیش لوگ اِس پہلو کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں! جنوب کے رخ بنے ہوئے مکانوں میں دھوپ ٹنوں کے حساب سے آتی ہے اور دیر تک رہتی ہے! سچ یہ ہے کہ ہم‘ جنوبی ایشیا کے لوگ‘ اس معاملے میں خوش قسمت ہیں! ہمیں قدرت نے دھوپ اور روشنی دل کھول کر عطا کی ہیں! ذرا تصور کیجیے‘ برطانیہ‘ سکینڈے نیویا اور مغرب کے دیگر شمالی ملکوں کا! سردیاں طویل! دن تاریک اور گیلے‘ راتیں لمبی! گرمیوں میں بھی دھوپ ہزار نخروں کے ساتھ آتی ہے! اس کے مقابلے میں قسّام ازل نے جنوبی ایشیا کو اس قدرتی نعمت سے مالا مال کیا ہے! ہمارے موسموں پر سفید فام مخلوق رشک کرتی ہے۔ اب تو دہشت گردی نے اہلِ مغرب کی حوصلہ شکنی کر دی ہے ورنہ غسلِ آفتابی کے لیے کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں سیاحوں کا ہجوم رہتا تھا۔
ہمارے بزرگ کڑکتی چلچلاتی دھوپ ہی میں گندم کاٹتے تھے۔ تب مشینیں نہیں تھیں! بچے‘ بوڑھے‘ اور عورتیں بھی اس مشقت میں شامل ہوتی تھیں! بے پناہ گرمی‘ تیزی سے چلتے ہاتھ اور ماہیا کی اُڑتی تان! گندم کا ایک ایک دانہ موتی جیسا تھا۔ اسی دھوپ اور گرمی میں ہمارے آم میٹھے اور خوشبودار ہوتے ہیں! اور ہمارے خربوزے بے مثال! ہمارے بزرگوں کے پاس برقی پنکھے تھے نہ برقی چراغ! دستی پنکھے تھے جن کے استعمال سے بازو مضبوط ہوتے تھے۔ مکھیوں کو اُڑانا ایک الگ ورزش تھی! یہ کیسے لوگ تھے! چشمِ فلک انہیں دیکھتی تھی اور رشک کرتی تھی! تاروں کی چھاؤں ابھی باقی ہوتی تھی کہ اُٹھ پڑ تے تھے! اندھیرے میں‘ پتھریلی‘ کیچڑ بھری گلیوں میں چلتے‘ مسجد جاتے تھے۔ ان کا ناشتہ کیا ہوتا تھا؟ چائے کی پیالی یا چھاچھ کا پیالہ! آج نو بجے بیدار ہونا عام بات ہے مگر یہ لوگ نو بجے تک کئی کھیتوں میں ہل چلا چکے ہوتے تھے۔ ہل کی ہتھی پر ہاتھ رکھ کر‘ چلتے چلتے‘ اسے اتنا دبانا کہ دھرتی کا سینہ چیر دیا جائے‘ کوئی معمولی کام نہیں تھا! پھر گھر سے کھانا آتا تھا تو کسی پگڈنڈی پر‘ بیر یا کیکر کے کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر‘ کھا لیتے تھے۔ روٹی‘ کبھی آم کے ساتھ‘ کبھی خربوزے کے ساتھ‘ کبھی ککڑی کے ساتھ! کبھی دال کے ساتھ اور کبھی صرف پیاز‘ چٹنی اور لسی کے ساتھ! شام کو واپس جاتے تھے تو سروں پر ایندھن کے اور چارے کے گٹھڑ اٹھائے ہوتے تھے! سونے کے لیے چارپائیاں چھتوں پر چڑھائی جاتی تھیں! راتوں کو مچھر ہوتے تھے اور سانپ بھی! مچھر بھگانے کے لیے اُپلے دہکائے جاتے تھے جن کے دھویں سے آنکھیں اشکبار ہو جاتی تھی! یا مچھر دانیاں لگائی جاتی تھی!
آج کی نسل کو کیا معلوم کہ آج وہ جہاں کھڑی ہے‘ انہی بزرگوں کی محنت‘ مشقت اور قربانیوں کے طفیل کھڑی ہے! ان کوٹھیوں اور جدید فیشن کے گھروں کی بنیادوں میں گارے اور پتھروں سے بنے ہوئے وہ کچے گھر ہیں جن میں ہمارے اجداد نے اپنی مشکل زندگیاں بسر کیں! آج گاؤں گاؤں تیز رفتار گاڑیاں چل رہی ہیں۔ اس کا کریڈٹ ان انتھک لوگوں کو جاتا ہے جو راتوں کو اور دوپہروں کو‘ کوسوں پیدل چلتے تھے اور اونٹوں‘ گھوڑوں‘ گدھوں اور خچروں پر سوار‘ سفر کرتے تھے! جیٹھ کی لُو اور ماگھ کی رگوں میں خون منجمد کرتی سردی ان کے حوصلوں کو نہیں توڑ سکتی تھی! اُن میں سے جو علم کے شائق تھے‘ ان کی زندگی اور بھی زیادہ سخت تھی! گھروں سے دور! مدرسوں اور مکتبوں میں چٹائیوں پر بیٹھ کر پڑھنا‘ اُنہی پر سونا‘ روکھی سوکھی کھانا اور ہر وقت اللہ کا شکر بجا لانا!! انسان نہیں‘ وہ فرشتے تھے! ہم آج جو بھی ہیں‘ جن منصبوں پر ہیں‘ جس آرام و استراحت میں ہیں‘ سب کچھ اُن تہمد پوشوں کی وجہ سے ہے جو ہمارے بزرگ تھے!!
ہم گرم ملکوں کے رہنے والے ہمیشہ اُن دیاروں کو حسرت سے دیکھتے ہیں جہاں برف گرتی ہے! ہم میں سے کچھ ان خطوط پر بھی سوچتے ہیں کہ اُن کی رنگت برف کی وجہ سے سفید ہے اور ہم اس لیے کالے یا گندمی ہیں کہ یہاں سورج آگ برساتا ہے! ایسی سوچ‘ احساسِ کمتری کے سوا کچھ نہیں! جب ٹیکسلا کی گرمی میں دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی علم کا نور پھیلا رہی تھی اُس وقت مغرب کے برف زار علم سے محروم تھے! چہرے کی رنگت ترقی کی گارنٹی ہے نہ پسماندگی کا سبب! احمد ندیم قاسمی نے کس خوبصورتی سے اس گتھی کو سلجھایا ہے :
رنگ اور رُت نہیں مدارِ حیات
رنگ سورج کا ایک زاویہ ہے
رُت فقط ایک رخ ہے دھرتی کا
میرے چہرے کا رنگ میری دھوپ
تیرے چہرے کا رنگ برف تری
تو مری دھوپ کو ترستا ہے
میں تری برف کے لیے بے چین
دو مسافر ہیں ایک رستہ ہے!!