''جب تک افغانستان ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس‘ پناہ گاہیں اور سہولت کاری نہیں چھوڑے گا تب تک سلسلہ چلتا رہے گا۔ افغان حکومت کے روز بروز بدلتے رویے سے ہمارے پاس ان کے لیے آپشن محدود ہو رہے ہیں۔ جس طرح ساری دنیا میں بارڈر ہیں‘ پاک افغان بارڈر کو بھی ویسا ہونا چاہیے۔ لوگ ویزا لے کر پاکستان آئیں اور کاروبار کریں۔ فری کھاتے میں جو لوگ بارڈر کراس کرتے ہیں اس میں دہشت گرد آتے ہیں۔ بارڈر کی جو بین الاقوامی حیثیت ہوتی ہے‘ اس وقت اس کا احترام نہیں کیا جا رہا۔ ہم نے افغانستان کا سامان بھارت بھیجنے کی اجازت دی ہے۔ ہم نے افغانستان کے لیے جنگیں لڑیں۔ قربانیاں دیں۔ افغانستان سے دہشت گردی اور سمگل شدہ چیزیں آتی ہیں‘‘۔
یہ بیان ہمارے محترم وزیر دفاع کا ہے اور کل یا پرسوں کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ وزیر دفاع نے کہا ہے‘ اس میں سے کون سی بات ہے جو نئی ہے اور پہلے سے معلوم نہیں تھی؟ کیا اس میں دو آرا ہو سکتی ہیں کہ افغان بارڈر پر انہی بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے جو ساری دنیا میں نافذ ہیں؟ کیا بچے بچے کو نہیں معلوم کہ یہ جو افغان بارڈر پر کھلا کھاتہ چل رہا ہے‘ یہ دہشت گردوں کے لیے بہترین سہولت کاری ہے؟ بارڈر آپ کا ہے! آپ اس پر ویزے کی پابندی نافذ کیجئے۔ آپ کو روکا کس نے ہے؟ مگر المیہ یہ ہے اختیارات ہمارے وزیروں اور حکومتوں کے پاس تھے کب؟؟ فراق گورکھپوری کی یاد آ گئی؛
دلِ آزاد کا خیال آیا ؍ اپنے ہر اختیار کو دیکھا
میر تقی میر کو بھی ہماری حکومتوں سے کافی ہمدردی ہے۔ حکومتوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یہ درست ہے کہ افغانوں کے لیے ہم نے جنگیں لڑیں اور قربانیاں دیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا افغانوں نے ہماری منت کی تھی؟ سارے فیصلے پاکستان کے اپنے تھے۔ کیا کبھی ہم نے عام افغان کے مؤقف پر بھی غور کیا ہے؟ افغان کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم کرتے رہے‘ امریکی ڈالروں کے لیے کرتے رہے۔ ان کا دوسرا پوائنٹ یہ ہے کہ ہم ان کے اندرونی معاملات میں دخل دیتے ہیں۔ یہ بات بھی عام کہی جاتی ہے کہ پاکستان افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ سمجھتا ہے۔ ہم ان الزامات کو تسلیم کریں یا نہ کریں‘ افغانوں کے مؤقف کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
افغانستان کے مسئلے کی جڑ ضیاء الحق کے عہد میں ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ افغان ایشو پر بات ہو اور اس مردِ مومن مردِ حق کا 'ذکرِ خیر‘ نہ ہو! اب تو اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ یہ امریکی جنگ تھی! اگر امریکی جنگ نہیں تھی تو کیا اربوں ڈالر امریکہ نے اسلام کی اشاعت کے لیے دیے تھے؟ ضیا کی باقیات آج بھی کہے جا رہی ہیں کہ افغانستان کے بعد سوویت یونین نے پاکستان میں آ جانا تھا۔ جیسے پاکستان کوئی ترنوالہ ہو!! جیسے پاکستان کے بعد اس نے بھارت برما اور تھائی لینڈ میں بھی جانا تھا۔ چلیے ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ روس کا مقابلہ افغانستان ہی میں کرنا تھا ورنہ اس کی اگلی منزل پاکستان ہوتی۔ مگر یہ کہاں کا اصول اور کون سی حب الوطنی تھی کہ ہم اپنے ویزا سسٹم کا گلا گھونٹ دیں۔ سرحدوں کو مٹا دیں! دنیا بھر کے جنگجو پاکستان میں لا بسائیں اور افغان مہاجرین کو پورے ملک میں پھیلا کر انہیں پاکستان کا باپ دادا بنا دیں؟ یہ ضیاء الحق اور اس کے ہمنواؤں کا وہ ظلم ہے جس کی قیمت پاکستان آج بھی ادا کر رہا ہے اور بھاری قیمت ادا کر رہا ہے! آپ اندازہ لگائیے کہ یہ غیر ملکی نادرا میں بھی جا گھسے تھے اور وزیر دفاع نے یہ انکشاف تو حال ہی میں کیا ہے کہ ایسے دو غیر ملکی ہماری فوج میں بھی پائے گئے تھے! امریکی جنگ میں شریک ہو کر ضیاء الحق کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ اس کی ناروا آمریت کو مغرب کی اشیرباد حاصل ہو گئی۔
دیگر افغانوں کی طرح طالبان لیڈروں نے بھی پاکستان میں بہت وقت گزارا۔ ان کی شوریٰ کا تو نام ہی کوئٹہ شوریٰ تھا۔ طالبان رہنماؤں نے اپنے خاندانوں کو پاکستان میں رکھا۔ ملا اختر منصور کی کراچی میں پانچ جائدادیں تھیں۔ پاکستان نے طالبان کے حکومت سنبھالنے پر خوشی بھی بہت منائی۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے باقاعدہ بیان دیا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالیں۔ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر طالبان کے لیے بہت کام کیا مگر طالبان کی حکومت‘ ماضی کی افغان حکومتوں کی طرح‘ پاکستان کے ساتھ سرد مہری ہی برت رہی ہے۔ طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کر رہے۔ پاکستان نے کروڑوں روپے خرچ کر کے سرحد پر جو باڑ لگائی تھی‘ اسے جگہ جگہ نوچ کر اکھاڑ پھینکا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیے ہوئے ہے۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے جو کچھ کہا ہے‘ درست کہا ہے۔ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کا بیان پوری حکومت کی طرف سے ہے۔ اب وہ صرف ایک کام کریں کہ اپنے بیان کو عملی جامہ بھی پہنا دیں۔ وہ حکومت اور مقتدرہ کے درمیان اس سلسلے میں پُل کا کردار ادا کر سکتے ہیں اور افغان بارڈر کو مستحکم کرنے میں حکومت اور مقتدرہ کو ایک ہی صفحے پر لا سکتے ہیں۔ افغانوں کو اگر یہ شکوہ ہے کہ پاکستان ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو افغانوں کو تو خود بارڈر پر ویزا اور پاسپورٹ کے سسٹم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پاکستان کے ساتھ مل کر سرحدی قوانین کو نافذ کرنا چاہیے۔
پاکستان کے اور بھی پڑوسی ہیں۔ چین‘ بھارت اور ایران ہے۔ جنوب میں سمندر ہے۔ چین کے ساتھ تو پاکستان کی بے مثال دوستی ہے۔ کیا ان ملکوں سے آنے والے ویزے کے بغیر آتے ہیں؟ کیا ایران کا بارڈر افغان بارڈر کی طرح شاہراہِ عام بنا ہوا ہے؟ یہ کون سا انصاف ہے کہ افغانستان ایک آزاد ملک ہے مگر اس کے باشندے پاکستان میں اس طرح آتے جاتے رہیں جیسے افغانستان‘ پاکستان کا حصہ ہے؟ پھر‘ افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک واپس بھیجنے کی بات ہو تو احتجاج کیوں ہوتا ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ افغان ایک غیرتمند قوم ہے اور عزتِ نفس کے لحاظ سے بہت حساس ہے۔ طالبان حکومت اگر افغانستان کی نمائندہ اور جائز حکومت ہے تو خود طالبان حکومت کو چاہیے تھا کہ پاکستان میں پناہ لینے والے افغانوں کو واپس بلاتے اور کہتے کہ ملک آزاد ہو گیا ہے‘ آؤ! ہم سب مل کر ملک کی ترقی کیلئے مل کر کام کریں!
افغانستان کے ساتھ ہمارا مذہبی‘ ثقافتی اور ادبی رشتہ صدیوں سے ہے۔ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنا ہو گا اور سرحدوں پر بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کرنا ہو گا۔ ساتھ ہی پاکستان پر لازم ہے کہ افغانستان کے جائز شکوؤں کو دور کرے۔ افغان مریضوں اور سٹو ڈنٹس کو ویزا آسانی سے حاصل ہونے کی سہولت مہیا ہونی چاہیے۔ افغان مہاجرین نے پاکستان میں جو کچھ کمایا ہے اسے ساتھ لے جانے کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ افغان حکومت بھی‘ امید ہے‘ پاکستان کی گزارشات پر دھیان دے گی۔ فارسی افغانوں کی اپنی زبان ہے۔ وہ صائب کے اس شعر کو اچھی طرح سمجھتے ہیں:
گر چہ جان ما بہ ظاہر ہست از جانان جدا
موج را نتوان شمرد از بحر بی پایان جدا
پاکستان اور افغانستان کا تعلق وہی ہے جو جان اور جانان کا ہے!! وما علینا الا البلاغ