روز روز کی چخ چخ!! لڑائی جھگڑا! گالی گلوچ! جوتم پیزار! محلے کا یہ گھر عجیب تھا۔ ذات برادری پتا نہیں کیا تھی مگر شہرت یہی تھی کہ سفلے اور نیچ ہیں! عزت ان کا مسئلہ ہی نہیں تھا! اڑوس پڑوس والے مفت میں آئے دن تماشا دیکھتے تھے۔
یہی شہرت ہے قوموں کی برادری میں ہماری! باہر ہمارا کیا امیج ہے؟ بہت بُرا! حکومتیں کہتی رہتی ہیں کہ سافٹ امیج بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر قتل و غارت کو روکنے کی کوئی پالیسی ہے نہ پروگرام نہ ارادہ! ہر کچھ دن کے بعد ایک بے قابو ہجوم کسی نہ کسی پر چڑھ دوڑتا ہے۔ کبھی سیالکوٹ میں فیکٹری کا غیرملکی منیجر مارا جاتا ہے‘ کبھی جڑانوالہ میں آتش زنی ہوتی ہے اور اب یہی تماشا سرگودھا میں دہرایا گیا ہے! وہ جنہوں نے سیالکوٹ میں سری لنکن کو بدترین تشدد کے بعد قتل کیا تھا‘ کیا آپ نے کچھ سنا کہ اُن کا کیا ہوا؟ جڑانوالہ کے مجرموں کو کیا سزا ملی؟ اب کہا جا رہا ہے کہ سرگودھا میں 24 فسادیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ لکھ لیجیے کہ ان کا کچھ نہیں بتایا جائے گا۔ گمان غالب یہی ہے کہ سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سزا ملتی اور سزا کی تشہیر کی جاتی تو لوگ ڈرتے اور فساد سے رُک جاتے! اگر یہ کہا جائے کہ متعلقہ حلقے اس سلسلے کی بیخ کَنی کرنا ہی نہیں چاہتے تو کیا غلط ہے! ایک ریاست پولیس اور فوج رکھنے کے باوجود اندرونی قتل و غارت نہ روک سکے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ نیت کا مسئلہ ہے۔ قانون سازی اس حوالے سے کیوں نہیں کی جاتی؟ جہاں ہجوم دوسروں کو قتل کرنے پر‘ آگ لگانے پر‘ تباہی پھیلانے پر تلا ہو وہاں پاؤں پر گولی کیوں نہیں چلائی جاتی؟ ایسے ہجوم کے ہاتھوں لوگ کب تک مارے جاتے رہیں گے؟ مؤقر انگریزی معاصر کی خبر کے مطابق ایک مذہبی تنظیم کے رکن کی کچھ دن پہلے اس شخص کے رشتہ داروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس پر ہجوم نے حملہ کیا۔ لوگوں نے ساتھ کے گھروں کی چھتوں سے گھر کے اندر جانے کی کوشش کی۔ گھر میں جوتوں کی چھوٹی سی فیکٹری تھی۔ اسے آگ لگا دی گئی۔ بجلی کے میٹر اور ایئر کنڈیشنر کو بھی جلا دیا گیا۔ قرآن پاک کی توہین ہم پاکستانیوں سمیت‘ کوئی مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ تاہم خدانخواستہ کوئی شخص اس کا مرتکب ہو بھی جائے‘ تو نمٹنے کے لیے ریاست موجود ہے‘ ادارے بھی اور قوانین بھی۔ قانون کو ہاتھ میں لے کر ہجوم گردی اور قتل و غارت کسی مہذب معاشرے کو زیب نہیں دیتا۔اگست 2016ء میں کراچی میں ایک عورت پر ہجوم نے اس لیے حملہ کر دیا کہ کسی نے کہہ دیا کہ وہ بچے اغوا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ جو بچہ اس کے ساتھ تھا اس کی شکل اس سے نہیں ملتی۔ بعد میں ثابت ہو گیا کہ وہ اسی کا بچہ تھا۔ اس سے پہلے نومبر 2014ء میں ہجوم نے چار افراد پر حملہ کر دیا اور وجہ یہ بتائی کہ وہ ڈاکو تھے حالانکہ وہ چاروں کراچی الیکٹرک کمپنی کے ملازم تھے۔ دونوں معاملات میں پولیس نے کسی کو پکڑا‘ نہ سزا دلوائی۔
سافٹ امیج کے لیے ہم اور بھی بہت کچھ کر رہے ہیں۔ بھارتی پنجاب کا ایک (مسلمان) شہری فیصل آباد میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملنے پاکستان آیا۔ واہگہ بارڈر پر مامور کسٹم اہلکاروں نے اس سے مبینہ طور پر رشوت بھی لی اور وہ تحائف بھی چھین لیے جو وہ اپنے عزیزوں کے لیے لایا تھا۔ مظلوم انڈین شہری نے چیف کلکٹر کسٹم کو تحریری درخواست دی۔ فیصل آباد پولیس کو بھی بتایا اور وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے بھی اپیل کی۔ اندازہ لگائیے یہ انڈین مسلمان کیا تاثر لے کر جائے گا‘ مگر یقین کیجئے کہ مجرموں کو سزا ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا! یہ خرانٹ اہلکار کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ اگر سزا کا خفیف امکان بھی ہوتا تو ایسا جرم کبھی نہ کرتے!
کبھی کبھی اس حماقستان میں عقل کی نحیف سی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ بقول منیر نیازی:
کتھے کتھے کوئی دیوا بلدا گورستاناں ورگا
ایک سابق وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ مشرف کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو پیپلز پارٹی‘ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی نے ختم کیا حالانکہ لوکل گورنمنٹ عوامی خدمات کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ محترم سابق وزیر سے کوئی پوچھے کہ جب آپ پارٹی میں تھے اور حکمران بھی تھے تو اس وقت یہ سچ کیوں نہ کہا؟ بہر طور بات انہوں نے درست کی ہے۔ یہ ایک درد ناک حقیقت ہے کہ نام نہاد سیاسی حکومتیں مشرف دور کا لایا ہوا ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کر کے پاکستان کو پیچھے‘ بہت پیچھے لے گئیں۔ اصل جمہوریت وہی ہے جو گراس روٹ لیول پر ہو۔ خدا خدا کر کے مشرف دور میں انگریز کے پیدا کردہ ڈپٹی کمشنر سسٹم کو ختم کر کے ضلعی حکومتوں کی تشکیل کی گئی جو سیاستدانوں کو سونپی گئیں! سوال یہ ہے کہ اگر ڈی سی‘ اے سی اور کمشنر سسٹم اتنا ہی اچھا ہے تو خود برطانیہ میں کیوں رائج نہیں؟ وہاں ہر سطح پر الیکشن کیوں ہوتے ہیں؟ آخر امریکہ‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی تو برطانوی راج رہا ہے! وہاں ضلع کا حاکم ڈپٹی کمشنر کیوں نہیں؟ پاکستان میں تحصیل کی سطح پر جمہوریت ہے نہ ضلع کی سطح پر اور نہ ڈویژن کی سطح پر! انگریز عہد میں ڈپٹی کمشنر اس لیے ہوتا تھا کہ سامراج کے اقتدار کی حفاظت کرے اور اپنے دائرۂ اثر میں کسی فرد یا جماعت کو سامراجی حکومت کے خلاف اٹھنے نہ دے۔ 1947ء میں انگریز چلے گئے۔ انہیں گئے ہوئے آٹھ دہائیاں ہونے کو ہیں۔ آج اس سامراجی نظام کا کیا جواز ہے؟ ڈپٹی کمشنر بنیادی طور پر حاکمانہ پوسٹ ہے۔ اس کا فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ اس نے ووٹ لینے ہیں نہ وہاں دوبارہ اس کی تعیناتی ہونی ہے۔ ضلعی ناظم عوام میں سے تھا۔ وہ حکمرانی نہیں کرتا تھا‘ لوگوں کے کام کرتا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور اپوزیشن کی ناقدانہ نگاہ کے سامنے بچ کر بھی چلنا تھا۔ اس نے وہیں جینا تھا اور وہیں مرنا تھا۔
یہ نظام کیوں ختم کیا گیا؟ تاکہ طاقت اور بجٹ صوبے کے صدر مقام ہی میں رہے۔ وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے اختیارات تقسیم نہ ہوں۔ ڈپٹی کمشنر سرکاری ملازم ہے۔ اس کی ترجیحات میں اس کی نوکری‘ تبادلہ‘ترقی اولین درجہ رکھتی ہیں۔ وہ وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی ناخوشی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کے مقابلے میں ضلع ناظم ماتحت کا کردار نہیں ادا کر سکتا۔ وہ سوال جواب کرتا ہے۔ عوامی جذبات کو سمجھتا ہے اور ان کا احترام کرتا ہے۔ چنانچہ تخت لاہور کا ہو یا پشاور اور کراچی کے تخت‘ ضلعی حکومتیں کسی کو بھی راس نہیں آتیں۔ نئے صوبے نہ بننے کی بھی یہی وجہ ہے۔ ڈی آئی خان‘ بنوں‘ چترال اور ٹانک والوں کو اپنے کاموں کے لیے پشاور جانا پڑتا ہے۔ بہاولپور‘ ملتان‘ اٹک اور میانوالی والوں کو لمبے سفر کے بعد لاہور کا طواف کرنا پڑتا ہے۔ کشمور‘ گھوٹکی‘ شکارپور اور جیکب آباد والوں کو کراچی تک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ اگر نیا صوبہ بنا کر سکھر کو ہیڈ کوارٹر بنا دیا جائے تو شمالی سندھ کو آرام میسر آئے گا مگر ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ چیف منسٹر کراچی کی سلطنت کا رقبہ کم ہو جائے گا جو کسی صورت منظور نہیں!! اس لیے مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں کہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے تشکیل پائیں یا نئے صوبے بنیں! عوام کی آسانی یہاں کبھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی! پی ٹی آئی والوں نے جنوبی پنجاب کے صوبے کے حوالے سے سب سے زیادہ وعدے کیے اور پروگرام بنائے مگر حکومت میں آنے کے بعد کچھ بھی نہ کر سکے۔ دوسری پارٹیوں کا بھی اس حوالے سے کوئی پروگرام نہیں!! دلاور فگار کہہ گئے ہیں:
حالاتِ حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے