ہم جتنے غریب ہیں اتنے ہی عیاش ہیں اور اتنے ہی احمق!!

ہمارے خاندان کی ایک شاخ نے گاؤں چھوڑ کر قریبی شہر‘ فتح جنگ میں سکونت اختیار کر لی۔ ان میں میرے کزن اقبال ہاشمی بھی تھے۔ ان کی بیگم کو ہم بے بے جی‘ یا بے بے عمر ضیا کہتے تھے۔ نہیں معلوم یہ نام خواتین کا ہو سکتا ہے یا نہیں‘ بہرطور ان کا نام یہی تھا۔ یوں بھی مردوں عورتوں کے نام کلچر کا حصہ ہیں اور کسی ایک جگہ کا مردانہ نام‘ کسی دوسرے خطے یا علاقے میں نسائی بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بار ملائیشیا کی ایک لیڈی ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ اس کا نام ''خیر محمد‘‘ تھا۔ مگر یہ بات ضمناً سامنے آ گئی۔
گاؤں آتے جاتے ہوئے کبھی کبھی ہم بے بے کے ہاں پھیرا ڈالتے تھے۔ اقبال ہاشمی صاحب کے انتقال کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ابا جی کو جب بھی ملتیں‘ پہلے ان کے گھٹنے چھوتیں۔ سکول پڑھاتی تھیں۔ ریٹائر ہوئیں تو ان کے سرکاری واجبات کے لیے میں نے بھی کوشش کی۔ کچھ برس گزرے‘ اپنے خالق کے حضور حاضر ہو گئیں۔ اصل بات جو بتانی ہے‘ اور ہے۔ جب بھی اُن کے ہاں جانا ہوتا تو میں خصوصی طور پر نوٹ کرتا کہ سردیوں میں ان کے گھر چھت والے پنکھے اور پیڈسٹل فین‘ جتنے بھی ہوتے‘ ان پر کپڑے کے غلاف چڑھے ہوتے یہاں تک کہ روم کولر بھی کپڑوں سے ڈھکے ہوتے۔ گرمیوں میں ہیٹر پوری طرح مستور اور ملفوف ہوتے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلا تاثر یہ ہوتا کہ ہر شے قرینے سے رکھی ہے اور بہت زیادہ صاف ہے۔ ہماری عمر کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ ایسی احتیاط اور سگھڑپن پہلے ہر گھر میں ہوتا تھا۔ ریڈیو بڑے سائز کے ہوتے تھے اور خوبصورت‘ کڑھے ہوئے کپڑے سے ڈھکے رہتے تھے۔ اسے احتیاط کہیے یا سگھڑپن‘ اس کی اصل اور بڑی وجہ یہ تھی کہ آمدنیاں محدود تھیں‘ ہر شے کی حفاظت کی جاتی تھی اور قدر بھی!! دستی پنکھیوں پر بھی کپڑے ٹانکے جاتے تھے۔ اچھے برتنوں کا الگ کمرہ ہوتا تھا جہاں برتن دیوار پر لگی کانَس پر رکھے جاتے تھے۔ (نہیں معلوم کانس کو اُردو میں کیا کہتے ہیں) کوئی بھی شے ضائع نہیں کی جاتی تھی۔ لالٹین کا شیشہ ٹوٹتا تو اسے جوڑا جاتا۔ دیاسلائی کی ایک ایک تیلی احتیاط سے خرچ کی جاتی۔ کسان ایک ایک رسی‘ ٹارچ‘ لاٹھی اور دیگر اشیا کی خوب حفاظت کرتے۔ آج کا نہیں معلوم‘ پہلے پشاور اور باڑے میں ٹوٹی ہوئی پیالیاں اور چینکیں دوبارہ جُڑی ہوئی ہوتی تھی۔ پٹھان بھائی پنجاب کی بستیوں اور قصبوں میں چل پھر کر برتن مرمت کیا کرتے تھے۔ فرش مٹی کے تھے مگر صاف ستھرے اور چمکے ہوئے۔ خواتین ان پر گول پتھر کی مالش کرتیں اور مٹی کے فرش یوں ہو جاتے جیسے سیمنٹ کے ہوں۔ بزرگ اس صورت حال میں ''برکت‘‘ کو بھی ایک عامل کے طور پر لیتے تھے۔ کسی شے میں برکت ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ شے دیر تک سلامت رہے گی اور کارآمد!! تب گھروں میں برکت تھی۔
پھر شاید ہمارے گھروں سے برکت اُٹھ گئی اور بے برکتی نے ڈیرے ڈال دیے۔ سب کچھ بدل گیا اور ہر شے بلکہ پورا طرزِ زندگی وہ آ گیا جسے نہ صرف ہمارے کلچر سے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ ہمارے موسموں اور ہماری آب وہوا سے بھی کوئی تعلق نہ تھا۔ بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ ہر شے کی افراط ہو گئی اور شے کی قدر نہ رہی۔ اب پنکھے ہیں یا ہیٹر یا اے سی یا استعمال کی دیگر اشیا‘ جلد خراب ہوتی ہیں اور ان کی جگہ فوراً نئی آ جاتی ہیں۔ پہلے کوئی شے ٹوٹتی تھی تو بزرگ افسوس کرتے تھے اور احتیاط کی نصیحت کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہماری ایک حویلی جو مردانہ بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتی تھی‘ اس میں شام کو میں اور میرا تایا زاد بھائی کھیل رہے تھے۔ ہم بچے نہیں تھے بلکہ دسویں گیارہویں جماعتوں میں پڑھتے تھے۔ مغرب کے وقت ہم بیٹھک سے نکلے تو چارپائی صحن ہی میں چھوڑ آئے۔ برآمدے میں رکھی نہ اندر کمرے میں! رات کو بارش آ گئی۔صبح دادا جان نے دیکھا کہ چارپائی مکمل بھیگی ہوئی تھی۔ انہوں نے جو فقرہ کہا آج تک مجھے یاد ہے۔ ''میری اولاد میری بنائی ہوئی چیزیں سنبھال نہیں سکتی!‘‘۔ آج غور کیجیے‘ ہمارے بچے کمروں سے نکلتے وقت پنکھے‘ لائٹ‘ اے سی‘ کچھ بھی بند نہیں کرتے۔ ہمارے بزرگ جوتوں کے ایک جوڑے اور ایک واسکٹ یا ایک اچکن میں گزارا کرتے تھے اور بہت اچھا گزارا کرتے تھے۔ آج ہر شے کی افراط ہے۔ جوتے‘ ملبوسات‘ پنکھے‘ ہیٹر‘ کراکری‘ کٹلری‘ فرنیچر‘ ہر شے کی بہتات ہے اور قدر کسی شے کی بھی نہیں!
یہ جو ہم رات دن رونا روتے ہیں کہ مہنگائی نے مار دیا۔ گزارا نہیں ہوتا‘ مارے گئے‘ لُٹے گئے‘ تو سچ پوچھئے اس سے بڑا فراڈ کوئی نہیں! ہمارے گھر چیزوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ پہلا ظلم ہم نے یہ کیا کہ طرزِ تعمیر وہ اپنا لیا جو ہمارے موسموں اور آب و ہوا کے الٹ ہے۔ موٹی دیواریں اور اونچی چھتیں غائب ہو گئیں۔ پھر ہم نے رہائشی کمروں کو بیڈ روموں سے بدل دیا۔ ایک کمرے میں چار یا پانچ یا چھ چارپائیاں ہوتی تھیں! اب ڈبل بیڈ کا نخرہ آگیا اور ''بیڈ روم‘‘ صرف دو افراد کا ہو کر رہ گیا۔ بچوں کے الگ الگ کمرے ہو گئے۔ ماں باپ کو معلوم ہی نہیں کہ لڑکا یا لڑکی کمرے میں کیا کر رہی ہے۔ پہلے ہم جس کمرے میں سوتے تھے‘ اسی میں کھانا کھاتے تھے۔ ہمارا کلچر زمینی دسترخوان کا تھا۔ اب دو اڑھائی لاکھ (کم از کم) کا ڈائننگ ٹیبل اور چھ یا آٹھ یا دس یا اس سے بھی زیادہ کرسیاں لازم ہو گئیں۔ ہم قالینوں اور دریوں پر بیٹھتے تھے اور مہمانوں کو بٹھاتے تھے۔ اب خواتین قیمتی سے قیمتی صوفے خریدتی ہیں۔ مہنگائی اور گزارا نہ ہونے کا راگ الاپنے سے پہلے ذرا یہ حساب کر لیجیے کہ آپ کے گھر میں کتنے ملبوسات اور کتنے جوتے ہیں؟ کتنے برتن ہیں؟ کتنے پلنگ پوش ہیں؟ کچن میں کتنی مشینیں (Gadgets) ہیں؟ اور ان چیزوں میں سے کتنی کبھی استعمال ہی میں نہیں آتیں! کتنے صوفے‘ کتنی کرسیاں‘ کتنے قالین اور کتنے سنگھار میز ہیں؟ یہ اثاثے کتنی مالیت کے ہیں؟ آئیے ہم اپنی عقل کا ماتم کریں۔ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ کہیں بھی اٹیچڈ باتھ کا تصور نہیں! ایک اور زیادہ سے زیادہ دو باتھ روم (مع ٹائلٹ) ہوتے ہیں۔ ایک باتھ روم میاں بیوی والے کمرے میں اور ایک بچوں اور مہمانوں کے لیے۔ یہ استطاعت سے بڑھ کر عیاشی‘ یہ اٹیچڈ باتھ‘ ہمارے غریب ملک ہی میں لازم ہیں۔ مکان خریدتے وقت ہم احمقوں کی طرح‘ بڑے سٹائل سے پوچھتے ہیں کہ باتھ روم کتنے ہیں؟ ہم بھول جاتے ہیں کہ صرف ایک بیت الخلا ہوتا تھا چھت پر۔ اور گھر میں ایک چَوبچہ یا باتھ روم ہوتا تھا۔ اور کبھی لائن نہیں لگتی تھی۔ چھ‘ آٹھ چارپائیاں ایک ڈبل بیڈ میں بدل گئیں اور کمرے کا سائز وہی رہا۔ جیسے کبڈی کا میچ یہیں ہونا ہے۔ کولنگ اور ہیٹنگ ان بڑے بڑے کمروں میں بے حد مہنگی!! ذرا ترقی یافتہ ملکوں میں عام گھروں کی خوابگاہوں کے سائز دیکھیے۔ اکثریت کا سائز چودہ ضرب بارہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دن کو سب لاؤنج میں بیٹھتے ہیں اور بیڈ روم صرف سونے کے لیے ہوتا ہے۔ اکثر گھروں میں لاؤنج یا Living Room یا ڈرائنگ روم ایک ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹے سے چھوٹے گھر میں بھی لاؤنج الگ ہے اور ڈرائنگ روم الگ۔ اب تو ہر بیڈ روم میں الگ ٹی وی کی لعنت بھی شروع ہو گئی ہے۔ مزید غور کیجیے‘ گھر کا کھانا کھاتے ہوئے موت پڑتی ہے۔ رات بھر پیزے اور برگر ڈیلیور ہوتے ہیں۔ اپنا پیسہ ان چیزوں پر لٹا رہے ہیں جو مکمل طور پر غیر ضروری ہیں! ہم انفرادی طور پر بھی احمق ہیں۔ ہر گھر چادر سے باہر پاؤں نکالے بیٹھا ہے اور حکومتی سطح پر بھی احمق ہیں کہ غیر ترقیاتی اخراجات منہ کو آ رہے ہیں۔ ہم جتنے غریب ہیں اتنے ہی عیاش ہیں اور اتنے ہی احمق!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں