آپا کشور ناہید سے خود نوشت کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ اب اُن کی طبیعت اچھی نہیں رہتی۔ فراق کا شعر یاد آ گیا:
اب اکثر چپ چپ سے رہیں ہیں‘ یونہی کبھو لب کھولیں ہیں
پہلے فراق کو دیکھا ہوتا‘ اب تو بہت کم بولیں ہیں
ایک زمانہ تھا کہ ''ماہِ نو‘‘ کی ایڈیٹر تھیں‘ اور ہم جیسے طالب علموں کو ڈانٹ ڈپٹ کے خوب کام کرایا کرتی تھیں۔ مجھ سے فارسی نظموں کے تراجم کرائے۔ سرکاری رسالے ''ماہِ نو‘‘ نے صرف دو ادوار ایسے دیکھے ہیں کہ یہ جریدہ کسی بھی ادبی جریدے کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ ایک جب رفیق خاور اس کے ایڈیٹر تھے۔ دوسرے‘ جب آپا کشور ناہید ایڈیٹر تھیں۔ آپا تو خیر سینئر ہیں مگر یہ جو اپنے دوست ہیں جناب حسین مجروح‘ یہ بھی اپنی جریدے ''سائبان‘‘ کیلئے خوب رعب اور تحکیم سے کام لیتے ہیں‘ بلکہ اچھی خاصی کُٹ لگاتے ہیں۔ یہ اور بات کہ عمر میں چند گھنٹے ہی بڑے یا چھوٹے ہوں گے‘ تاہم یہ زور آوری اُن کی صرف اس لیے ہے کہ انہیں ''سائبان‘‘ کی فکر ہوتی ہے اور ہر دم ہوتی ہے۔ سائبان صرف ایک پرچہ نہیں‘ ایک پوری تحریک ہے جس کا مقصد ادب اور ادیب کی نگہداشت ہے۔ جس بے غرضی اور اخلاص سے حسین مجروح یہ کام کر رہے ہیں‘ ان پر رشک بھی آتا ہے اور رحم بھی کہ بقول اس فقیر کے:
اے رے چراغ پہ جھکنے والے! یوں ماتھا نہ جلا اپنا؍یہ وہ عہد ہے جس میں کسی کو دادِ ہنر معلوم نہیں
خود نوشت کے حوالے سے آپا کشور ناہید کی نصیحت ہے کہ جتنی مختصر ہو اتنی بہتر ہے۔ یہ ایک انتہائی قیمتی نصیحت ہے اس لیے کہ ضخیم کتابوں کا زمانہ گزر چکا۔ اب توجہ کا دورانیہ (Span of attention) بہت مختصر ہو چلا ہے۔ سوشل میڈیا نے پرانی دنیا کو تلپٹ کر دیا ہے۔ اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور۔ ایک سوال یہ ہے کہ جب کوئی اپنے آبائی گاؤں یا شہر یا قصبے کا ذکر خود نوشت میں تفصیل سے کرے تو کیا یہ اس کی آپ بیتی کا حصہ ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں یقینا یہ اس کی شخصیت اور اٹھان کا حصہ ہے۔ اسی طرح دادا دادی یا نانا نانی کا تذکرہ بھی خود نوشت ہی کا حصہ ہے اس لیے کہ ہم ان ہستیوں کے وجود کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر آپ بیتی میں اپنے ماحول‘ ماں باپ اور بزرگوں کا ذکر نہ ہو تو کیا لکھنے والا اچانک زمین سے اُگ آیا تھا یا آسمان سے ٹپک پڑا تھا؟ ہاں اگر کوئی کلوننگ کے ذریعے وجود میں آیا ہے تو وہ اپنی خود نوشت بے شک لیبارٹری کے احوال سے شروع کرے۔
آپا کشور ناہید برادرم محمد حمید شاہد کی خود نوشت کا ذکر بہت اچھے انداز سے کر رہی تھیں۔ میں نے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔ یہ اور بات کہ یہ خود نوشت ابھی تک پڑھی نہیں۔ حسنِ اتفاق ہے یا سوئِ اتفاق کہ حمید شاہد صاحب نے اپنی بہت سی کتابیں مرحمت کی ہیں سوائے اپنی آپ بیتی کے۔ ان کے پبلشر بُک کارنر کے مالکان نے بھی یہ کتاب نہیں عنایت کی‘ اگرچہ وہ بھی کتابوں کے لاتعداد تحائف سے نوازتے ہیں۔ یعنی سائیکل کا ہر پرزہ بجا ہے سوائے گھنٹی کے! پڑھنے والا یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اب کالم نگار اتنا قلاش اور مفلوک الحال بھی نہیں کہ ایک کتاب خود نہ خرید کر سکے! یہ اعتراض بجا ہے اور منطقی بھی! مگر اب اس کا کیا کیجئے کہ حمید شاہد صاحب کے چچا گُل محمد‘ سکول میں میرے کلاس فیلو تھے۔ خدا انہیں اپنی رحمت سے نوازے‘ بہت شریر تھے۔ حمید شاہد صاحب کے والد گرامی مرحوم کی دکان پنڈی گھیب بازار میں تھی۔ یہ سکون کا زمانہ تھا۔ ابھی زندگی میں افراتفری‘ بھاگ دوڑ‘ نفسا نفسی شروع نہیں ہوئی تھی۔ والد گرامی چھٹی کرکے سکول سے گھر آتے تو کھانے اور نماز کے بعد باقاعدگی سے قیلولہ کرتے۔ شام کو بازار جاتے اور دوستوں کے ساتھ بیٹھک کرتے۔ جن دکانوں پر وہ اپنے دوستوں کے پاس بیٹھا کرتے ان میں حمید شاہد صاحب کے والد گرامی مرحوم کی دکان بھی شامل تھی۔ پھر جب ہم راولپنڈی اور بعد میں اسلام آباد منتقل ہوئے تو وہ سکون‘ آرام‘ زندگی کا دھیما پن اور قیلولہ‘ سب خواب و خیال ہو کر رہ گئے۔ اب جس مصنف کے چچا میرے ہم جماعت رہے ہوں اور جس کے والد میرے والد کے دوست‘ اس کی کتاب کس دل سے خریدوں! یہ گناہ سرزد ہوا نہ ہو گا! و یسے حمید شاہد نثر کے بادشاہ ہیں۔ یہ قلمرو انہی کی ہے۔ یہ فقیر تو بنیادی طور پر کوچۂ شعر کا رہنے والا ہے۔ بانوئے نثر سے جو قریبی تعلقات حمید شاہد صاحب کے ہیں وہ ہمارے کہاں! ہم نے تو اس حورِ شمائل کو جب بھی دیکھا نقاب ہی میں دیکھا۔ یہ اور بات کہ اس چندے آفتاب چندے ماہتاب کے روئے روشن سے پھوٹنے والی کرنیں نقاب سے چھن چھن کر باہر بھی آتی ہیں۔ ہمارا پھیرا تو نثر کی گلی میں ایسا ہی ہے جیسے صادقین کا شعر کی گلی میں تھا۔
اک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے‘ شاعری بھی کر کے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کر کے دیکھوں
سول سروس کے سفر میں زندگی گزارنے والے کو خود نوشت لکھتے وقت ایک مسئلہ اور بھی درپیش ہوتا ہے۔ اس سفر میں یکسانیت نہیں ہوتی۔ ملازمت کا تمام عرصہ ایک ہی شعبے میں یا کسی ایک ہی موجودیت میں بسر کرنے والے کیلئے آپ بیتی لکھنا نسبتاً سہل ہوتا ہے۔ جیسے کسی نے تمام ملازمت ریلوے میں کی یا ایئر لائن میں‘ یا فرض کیجئے ایل ڈی اے میں یا پی ٹی وی میں! اس نے اپنی ملازمت کے ماحول کو ایک ہی بار بیان کرنا ہے۔ اس کے برعکس سول سروس والے نے ساڑھے تین عشرے سفر میں یوں کاٹے ہوتے ہیں کہ کبھی بے آب و گیاہ دشت میں تھا تو کبھی سمندر میں! کبھی باغ بغیچوں میں تو کبھی ایسے صحر ا میں جہاں ٹوٹی ہوئی طنابیں تھیں اور بکھری ہوئی ہڈیاں! بقول سعدی؛
تمتع ز، ہر گوشۂ یافتم؍ ز، ہر خرمنے خوشۂ یافتم
یعنی گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا اور ہر خرمن کا اناج چکھا! خود نوشت لکھتے وقت اسی قسم کے ماحول کا ذکر کرنا ہوتا ہے جو مختلف اور متحارب ہوتے ہیں۔ ایسے میں بعض تفصیلات تکنیکی بھی بیان کرنا پڑتی ہیں جو پڑھنے والے کیلئے خشک اور بیزار کُن ہو سکتی ہیں۔ اگر اس نے کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے یا اس کے ساتھ کوئی المیہ پیش آیا ہے تو اسے اس کا پسِ منظر بھی بیان کرنا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ سول سرونٹ کو آپ بیتی لکھتے وقت تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑتا ہے۔ اگر وہ بعض دفتری یا سرکاری نوعیت کی تفصیلات حذف کر دے تو ممکن ہے قاری واقعہ ہی نہ سمجھ پائے اور اگر تکنیکی تفصیلات بیان کر دے تو پڑھنے والے کے مزاج پر گراں گزر سکتی ہیں اور کتاب میں اس کی دلچسپی کم ہو سکتی ہے۔ یوں اسے توازن برقرار رکھنا ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل!!
ہمارے کچھ بزرگوں نے تو اپنی خود نوشت کو ''فروختنی‘‘ بنانے کیلئے اس میں خوب مسالے اور مربّے بھی ڈالے ہیں! جیسے ''نائنٹی‘‘ کا ڈرامہ! اور پھر اوراد و وظائف جو بہشتی زیور قسم کی مذہبی کتابوں میں ہوتے ہیں۔ نام نہاد روحانیت اور مافوق الفطرت واقعات والی کتابیں خوب بکتی ہیں۔ میرا تجربہ بھی یہی ہے کہ اگر کوئی کالم تمثیلی انداز میں لکھا اور کسی پہنچے ہوئے کا علامتی یا فرضی ذکر بھی کر دیا تو ای میلز اور پیغامات کا تانتا بندھ جاتا ہے کہ بابے کا یا بی بی کا ایڈریس بتائیے۔ ایک طرف کسی سائنسدان یا سکالر کو بٹھا دیجئے اور دوسری طرف پیر سپاہی کو۔ پھر دیکھیے خلقِ خدا کس طرف جاتی ہے!!