لاہور کے پر رونق اور مصروف ترین علاقے بادامی باغ میں تقریباً دو سو بے گناہ پاکستانیوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اور یہ سفاکی قانون نا فذ کرنے والے اہل کاروں کی آنکھوں کے سامنے کی گئی۔ دن کے ایک بجے جب دو ہزار کے قریب مشتعل لوگ نُور روڈ بادامی باغ کی جوزف کالونی کی مسیحی آبادی کا گھیرائو کیے ہوئے تھے‘ جب وہ مبینہ طور پر توہین رسالتؐ کے مرتکب ساون عرف بوبی کے گھر پر حملہ آور ہوکر توڑ پھوڑ کر رہے تھے‘ کسی نے آگے بڑھ کر انہیں روکنے کی کوشش نہ کی اور نہ انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پنجاب اور صوبائی دارالحکومت کے حکمرانوں اور افسروں نے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اگر پنجاب حکومت چاہتی تو لاہور میں موجود مسلم فرقوں کے تمام رہنمائوں کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچ جاتے اور اس وقت تک وہاں سے نہ ہٹتے جب تک مسئلہ مکمل طور پر حل نہ ہو جاتا۔ یہ ذمہ داری اس حلقے سے تعلق رکھنے والے تمام منتخب ارکان اسمبلی کی زیادہ تھی کہ وہ اس وقت تک وہاں موجود رہتے جب تک معاملہ خوش اسلوبی سے حل نہ کر لیا جاتا۔ لیکن کچھ نہ کیا گیا‘ بس ایک ساون مسیح کے خلاف ایف آئی آر نمبر 112/13 زیرد فعہ 295 سی درج کرنے کو کافی سمجھ لیا گیا۔ کیا لاہور میں پولیس کی نفری کم تھی؟ کیا پنجاب یا لاہور پولیس کووسائل کی کمی کا سامنا تھا؟ کیا پنجاب کی سپیشل برانچ اس بات سے بے خبر تھی کہ جوزف کالونی کے ارد گرد کی گلیوں میں کیا سازشیں پنپ رہی ہیں؟ کیا وہ اس طوفان سے بے خبر تھے جو جوزف کالونی کی طرف بڑھ رہا تھا؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ آگ ایک کروڑ کی آبادی والے شہر میں نہیں بلکہ کسی جنگل میں لگائی گئی کہ کسی کو خبر بھی نہ ہوئی۔ ایک کروڑ انسانوں، پولیس کے اعلیٰ افسروں، انتظامیہ اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان حکام کی موجودگی میں دو سو خاندانوں کے ارمان جلتے رہے۔ کیا لاہور کی انتظامیہ اس قدر بے خبر تھی کہ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ بستیاں اور آبادیاں جلانے والے کہاں اکٹھے ہو رہے ہیں۔ جب پندرہ سو گھروں کے باسی اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تو کیا یہ سب افراتفری انتظامیہ کی آنکھوں سے اوجھل تھی؟ کیا انتظامیہ کاصرف یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ حکمرانوں کی قصیدہ خوانی کرتے رہیں؟ دوسو کے قریب گھر راکھ میں بدل دیئے گئے۔ ان گھروں کے سینکڑوں لوگوں کی عمر بھر کی کمائی چھین لی گئی۔ چھوٹی چھوٹی مزدوریاں کرنے والے محنت کش اجڑ گئے۔ حکمران اور اعلیٰ افسر شاید نہیں جانتے کہ اگر غریب کا کپڑا ذرا سا پھٹ جائے تو کئی دن اس کے آنسو نہیں رکتے لیکن یہاں تو ان کا پورا اثاثہ لوٹ لیا گیا۔ تنکا تنکا جمع کر کے بنائے گئے آشیانے خاکستر ہو گئے۔ یہ ظلم ہم سب نے کیا‘ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے غریب لٹ گئے‘ فقیر سے فقیر تر ہو گئے۔ اب ان کے پاس سوائے آنسوئوں، آہوں اور چیخوں کے کچھ نہیں۔ گوجرہ کے بعدبادامی باغ کا سانحہ اہلِ دل کو برسوں رلاتا رہے گا۔ دنیا بھر میں ہم تنقید کا نشانہ بنتے رہیں گے۔ یہ ہماری قومی غفلت ہے اور ہم سب اس جرم میں شریک ہیں‘ اسلام آباد کی حکومت بھی اور پنجاب کے حکمران بھی۔سوال یہ ہے کہ جب گلیوں بازاروں میں مشتعل ہجوم نعرے لگاتے جوزف کالونی کی طرف بڑھنے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ جب جہاد اور شہادت کے اعلانات ہو رہے تھے تو کیا لاہور میں موجود افسروں کی فوج ظفر موج بے خبر تھی؟ کیا مقامی اور ضلعی انتظامیہ اپاہج ہو چکی تھی؟ حکومت پنجاب کے شروع کیے گئے منصوبوں کی دیکھ بھال کے لیے افسران دن رات جاگنے اور تصویریں کھچوانے کو اپنا دین ایمان بنائے بیٹھے ہیں لیکن جوزف کالونی میں بھڑکنے والی آگ ان کو نظر نہیں آئی۔ افسوس‘ نوکر شاہی کی غفلت نے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کی شہرت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا۔ قرآن پاک میں تاکید ہے کہ اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس اطلاع پر غلط قدم اٹھا بیٹھو اور بعد میں پچھتاتے رہو۔ ’’دینِ مُلّا فی سبیل اﷲ فساد‘‘… کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں بلکہ پاکستان میں دن بدن حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں عدل و انصاف کے واضح احکامات موجود ہیں اورعدل و انصاف یہ ہے کہ دونوں فریقوں( مدعی اور مدعا علیہ) کو بولنے اور اپنی اپنی پوزیشن واضح کرنے کا برا بر موقع دیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی کے ساتھ بے انصافی ہو جائے۔جن لوگوں نے قرآن اورا سلام کے نام پر غریب پاکستانیوں کے گھر جلائے ہیں‘ انہیں خود ہی فیصلہ کرنے کا اختیار تو نہیں تھا اور نہ ہی قرآن پاک نے یہ سبق دیا کہ اﷲ کا قانون اور شریعت اپنے ہاتھوں میں لے کر لوگوں کی جان اور املاک کو بھسم کر دو۔اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں اور اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو کیا ہم سب اﷲ کے مجرم نہیں؟ کیا ہمارا حکومتی نظام، ہماری سیاست اور معاشرت قرآن پاک کے مطابق ہے؟ چوریاں ڈاکے‘ تاجروں‘ دکانداروں اور سرکاری اہل کاروں کی لوٹ کھسوٹ، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ، ناپ تول میں دھوکہ بازی،جعلی ادویات، یتیم اور لاوارث لوگوں کی جائدادوں پر قبضے کرنا کیا توہین رسالت نہیں؟ جوزف کالونی کے غریب بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر ڈھائی گئی قیامت کے منظر کو تصور میں لانے کے لیے عباس ٹائون کراچی میں بے گھر ہو کر مفلس اور قلاش ہو کر سڑکوں پر دھکے کھانے والی عورتوں اور بچوں کی حالت زار کو سامنے رکھیں۔ 2005ء میں آزاد کشمیر اور مانسہرہ کے گردو نواح میں آنے والے زلزلے کو سامنے رکھیں جب لکھ پتی اور کروڑ پتی کنگال ہو کر خیموں اور سڑکوں پر آ گئے تھے۔ ملک کو قتل و غارت سے نجات دلانے کے لیے پوری قوم کو یکسُو ہونا پڑے گا۔ معاشرے کے تمام باشعور اور دردِ دل رکھنے والے طبقات کو اپنا فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اب ہمارے پاس زیادہ مہلت نہیں۔