1997-99 ء کے دوران میاں نواز شریف کی حکومت کے ہندوستان کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کرنے والے نائیک مرحوم کا سفر جہاں پر ختم ہوا تھا‘ اسے اگر آج وہیں سے دوبارہ شروع کیا گیا تو معلوم ہو سکے گا کہ یہ کشمیر کے سات زونز تک محدود رہتا ہے یا اس سے بھی سات قدم آگے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارت کو معلوم تھا کہ جون2013 ء میں پاکستان کا اقتدار کس کے حوالے ہونے جا رہا ہے تو یہ کچھ غلط نہ ہوگا ۔پاک بھارت مذاکرات کے ایک ایک ایجنڈے کے خالقوں کی زیر نگرانی بات چیت کا سلسلہ کئی ماہ سے جاری و ساری تھا۔ اگر بھارتی ہائی کمیشن شرت سبروال کی میاں نواز شریف کی ملاقاتوں کا با ضابطہ ریکارڈ سامنے رکھیں تو صرف گزشتہ ایک سال میں دس کے قریب بنتی ہیں۔ سونیا گاندھی کے خصوصی اور بھارتی حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر ایس کے لامبا کی ملاقاتیں بھی کیا کچھ کہتی ہیں اس کا بھی جلد اندازہ ہو جائے گا‘ لیکن پاکستان کو یہ ذہن میں رکھنا ہو گا کہ بھارتی قیادت کی طرف سے کشمیر ،سیا چن ، سر کریک اور پانی کا مسئلہ اب پاکستان کی گردن تک پہنچ چکا ہے۔ سفارتی زبان میں کہا جائے تو بھارت کی کشمیر ، سیا چن ، پانی اور سر کریک سمیت دیگر معاملات پر مذاکرات کی رفتار کچھوے سے بھی کم ہے۔ ایک طرف پاکستان بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے خرگوش کی رفتار سے دوڑنا شروع کر دیتا ہے تو دوسری طرف بھارت کچھوے کی رفتار سے بھی پیچھے رہنا شروع کر دیتا ہے اور یہ سب کچھ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ہدایات کے زیر اثر کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ نہ کل پاکستان کے ساتھ مخلص تھی‘ نہ آج ہے اور نہ ہی کل ہوگی۔ اس سے مذاکرات دیوار سے سر پھوڑنے کے مترادف ہیں۔ یہ بھارت کی وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے آگرہ میں جنرل مشرف اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی اصل کاپیاں واجپائی کے سامنے پھاڑ دی تھیں۔ یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے بھارتی وزیر اعظم گجرال کی اجا زت کے بغیر پاکستان کی سرحد کے با لکل سامنے جالندھر میں میزائل پہنچا دیئے تھے اور یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوری حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنینڈس کو چین کو بھارت کا دشمن نمبر ایک کہنے پر وزارتِ دفاع سے بھگادیا تھا۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کے ایک بریگیڈئیر اوم پرکاش نے نئی دہلی میں سیا چن پر دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے صحافیوں کو کھل کر کہا تھا کہ’’ہمارا سیا چن کی بارہ اہم چوٹیوں پر قبضہ ہے اس کے علا وہ توبر اور شیوک کی وادیوں میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے اور سالترو رینج پر ہم مضبوط بن کر بیٹھے ہیں۔ اگر ہم نے سیاچن گلیشئر خالی کیا تو اس سے ہندوستان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی‘‘۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان بریگیڈئر اوم پرکاش کہتے ہیں کہ سیاچن پر قبضہ لداخ کے دفاع کیلئے اہم ہے اور اگر ہم نے یہ علاقہ خالی کیا تو پاکستان یہاں سے نئی دہلی کو ڈکٹیٹ کرنے کے قابل ہو جائے گا ۔ بھارتی وزیر دفاع نے 27 نومبر کو کھل کر کہا تھا کہ سیاچن میں جہاں جہاں ہماری پوزیشنیں مضبوط ہیں انہیں خالی نہیں کیا جائے گا اوربھارتی ائرفورس کے چیف نے اکتوبر میں غیرملکی صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سیا چن سے واپسی بھارت کی دفاعی پالیسی سے متصادم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سیاچن بھارتی دہشت گردی کی انتہا ہی نہیںبلکہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے چارٹر کی بے حرمتی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ سیاچن پر جبری قبضے کے آگے اقوام متحدہ بھی بے بس ہے اور ایک طرف اگردولت مشترکہ کی پارلیمانی جمہوریت چپ ہے اور یورپی یونین نے بھی اپنے ہونٹ سیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف انسانی حقوق کی تمام چھوٹی بڑی تنظیمیں گم سم ہیں۔ امن اور بھائی چارہ کسے پسند نہیں‘ لیکن ہندو کی مسلم دشمنی صدیوں پرانی ہے‘ اسے ایک نظر دیکھنے کیلئے پاکستان بننے سے ایک سال پہلے 1946ء میں انگریز لیفٹیننٹ گورنر ’’ٹکر‘‘ کی وائسرائے ہند کو بھیجی گئی ایک رپورٹ ملا حظہ کریں جس میں گورنر ٹکر لکھتے ہیں کہ ’’ گڑھ مکتیشر کے میلے پر ہندوئوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور جنونی ہندوئوں نے حاملہ مسلمان عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا ۔میرٹھ میں ہونے والے فسادات پر نیوز ویک نے 15 جون 1987ء کے شمارے میں لکھا کہ بارہ سال کے ایک مسلمان بچے نے ہندوئوں کے آگے ہاتھ جوڑے کہ اس کے باپ کو نہ ماریں‘ ہندوئوں نے پہلے اس بچے کو قتل کیا پھر اس کے باپ کو۔ پاکستانیوں سے یہ نفرت ہندوئوں کے دلوں میں نہیں بلکہ یہ نفرت انہیں سرکاری حیثیت میں حاصل ہے اور پاکستان کے ساتھ اب تک کے بھارتی تعلقات کی بنیاد اسی نفرت پر مبنی ہے۔ ہمارے حکمران ہندوستان سے دوستی کی جھوٹی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ 2002ء میں جب امریکہ کی طرف سے افغانستان میں عالمی دہشت گر دی کے خلاف جنگ تیز تھی‘ اس وقت اسی ہندو نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ڈرامہ رچایا اور پھر اس حملہ کی آڑ میں اپنے میزائل اور فوجیں ایک سال کے لیے پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا۔ اس وقت کے دفاعی ماہرین نے اسے بھارت کا ایک ممکنہ آپریشن ’’ سلامی سلائس‘‘ کے نام سے موسوم کیا تھا جس کا مطلب آزاد کشمیر کے کسی ایسے علاقے پر قبضہ کر نا تھا جس کی آڑ میں پاکستان سے سودے با زی کی جا سکے۔ پاکستان کی بد قسمتی دیکھیے کہ عین اس مو قع پر جب بھارت اپنے لائو لشکر کے ساتھ پاکستان کو ہڑپ کرنے کیلئے تیار ہو رہا تھا بیرونی خفیہ ہاتھوں نے پاکستان میں کچھ گروپوں کی طرف سے حکومت کے خلاف مظاہرے شروع کروا دیئے تاکہ جونہی افغانستان میں امریکی، نیٹو اور ایساف فوجوں کی مدد سے پاکستان اپنا تھوڑا سا بھی ہاتھ پیچھے کھینچے تو اس کے اندرونی حالات تہس نہس کرنے کے علا وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی مدد کرنے کے جرم میں بھر پور فوجی کارروائی شروع کر دی جائے۔ پاکستان کی موجودہ قیادت کشمیر اور سیاچن پر ہندوستان سے جتنے چاہے مذاکرات کر لے یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہ ہو گا ۔ہندو سے دوستی کی امید رکھنے والے اپنے سے پہلے حکمرانوں کے طرز عمل پر ایک نظر ڈالیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ وہی ہندو ہے جسے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے لیاقت نہرو پیکٹ کے ذریعے دوست بنایا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جسے ایوب خان نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کی پیش کش کرتے ہوئے گلے لگا کر بڑا بھائی کہا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنایا اور پھر اسی جنگ کے نتیجے میں جسے بھٹو نے شملہ میں دوستی کا تاج پہنا یا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جسے جونیجو نے نہائت عمدہ لوگ کہا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جس کے وزیر اعظم کی بیگم کے آگے جنرل ضیاء الحق نے جھک کر آداب کہا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جسے بے نظیر بھٹو نے اپنا خاندانی دوست کہا تھا‘ یہ وہی ہندو ہے جو دوستی بس میں لاہور آیا اور جس نے جناب نواز شریف کے ساتھ اعلانِ لا ہور پر دستخط کیے اور اسی شام واہگہ بارڈر کراس کرتے ہوئے اس نے پوری عالمی برادری کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ’’ کشمیر ان کا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔ یہ اعلان لاہور والا وہی ہندو ہے جس کے متعلق کارگل پر جنگ بندی کے وقت جناب نواز شریف صاحب نے 12 جولائی 1999ء کو ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’بھارت نہ تو مذاکرات کی میز پر آتا ہے نہ کسی کی ثالثی مانتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مانتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کیا کریں؟‘‘