قیام پاکستان کے ایک مرحلے کے دوران بھارت حید آباد دکن کے بدلے میں پاکستان کو کشمیر دینے پر رضا مندہو گیا تھالیکن یہ پیشکش قبول نہیں کی گئی۔ آزادی کے وقت پورے ہندوستان میں نوابوں اور شہزادوں کی 560 چھوٹی بڑی ریاستیں بھی تھیں اور کیبنٹ مشن کے1946ء میں جاری کیے گئے پیراگراف14 میں واضح کر دیا گیا تھا کہ ملکہ برطانیہ کی جانب سے منظور کیے گئے ہندوستان کی آزادی کے آرٹیکل7 کے تحت ان ریاستوں پر اب سلطنت برطانیہ کا معمولی سا اختیار بھی نہیں ہو گا اور یہ ان ریاستوں کا حق ہو گا کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں مل جائیں۔ برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ لارڈ لسٹوول نے ہائوس آف لارڈز کو بتایا کہ کسی بھی ریا ست کو ایک علیحدہ اور آزاد ملک کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت مسلم لیگی قائدین کے ذہنوں میں شاید یہ بات تھی کہ حیدر آباد کی 85 فیصد آبادی مسلمان ہے، اس لیے حیدر آباد پاکستان کے ساتھ ہی شامل ہو گا، لیکن یہ سوچ رکھنے والے شاید جغرافیائی محل وقوع سے صرف نظر کر رہے تھے کہ اتنی دور بیٹھ کر حیدر آباد کی حفاظت کس طرح ممکن تھی۔ اگر حیدر آباد کے بدلے کشمیر کی پیشکش کو قبول کر لیا جاتا تو آج کشمیر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ پاکستان کو دوسرا موقع 1947-48 ء میں اس وقت ملا جب کشمیر کی آزادی کے لیے پاکستان کے قبائلی سری نگر کے ہوائی اڈے کے اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ جب بھارتی فوج سرینگر کے دفاع کیلئے وہاں اُتر رہی تھی تو ان کی زد میں تھی،لیکن اس وقت قبائلیوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ کسی با قاعدہ فوج، جس کے پاس ٹینک، توپخانہ اور ہر قسم کا بھاری ا سلحہ تھا‘ سے اپنی روائتی بندوقوں اور رائفلوں سے مقابلہ کر سکیں۔ اس وقت اگرفوری طور پر با قاعدہ فوج انہیں اپنی کمان میں لے کر سری نگر ائر پورٹ کی طرف ایڈ وانس کرتی تو بھارتی فوج کے لیے صورت حال بہت ہی مختلف ہوتی ۔ اس وقت با قاعدہ فوج نہ بھیج کر کشمیر کو ڈوگرہ اور بھارتی فوج سے آزاد کرانے کا دوسرا موقع ضائع کر دیا گیا۔ کشمیر کو بھارتی تسلّط سے آزاد کرانے کا تیسرا سنہری موقع اس وقت ملا جب1962ء میں چین اور بھارت کی جنگ شروع ہوئی۔ اس وقت بھارتی فوج اور قوم کا مورال اس حدتک گر چکا تھا کہ وہ بے بسی سے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور حالات پنڈت نہرو کے کنٹرول سے باہر ہو چکے تھے ا س وقت چین نے پاکستان کو پیش کش کی کہ وہ بڑھ کر کشمیر پر قبضہ کر لے ۔نہرو کو جیسے ہی اس کی اطلاع ملی اس نے فوری طور پر امریکہ کے ذریعے جنرل ایوب خان سے رابطہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ اس وقت بھارت پر حملہ نہ کیا جائے اور اس احسان کے بدلے میں چین سے جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کی قرار د دادوں کے مطا بق ہر فیصلہ قبول کرلوں گا، توجنرل ایوب خان بھارت اور امریکہ کے اس لولی پاپ وعدے پر فوراََہی بہل گئے اور چین کی بار بار کی پیشکش کے باوجود آنکھیں موندے بیٹھے رہے۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ایوب خان اور ان کے ساتھیوں نے ایسا کیوں کیا؟۔کیا وہ ہندوستان اور ہندو کی فطرت سے واقف نہیں تھے؟ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ امریکہ اور بھارت دونوں مکر گئے۔ اس کے برعکس آج دیکھیں ، بھارتی حکمرانوں کو جوں ہی اندازہ ہوا کہ ان کی تحریک طالبان نے اسلام کے قلعے پاکستان کو قدرے کمزور کر دیا ہے تو بھارت کی اس نئی مکتی باہنی کی مدد سے ہم پر حملہ کرنے کے لیے بے چین ہوئے جاتے ہیں۔ کشمیر کو آزاد کرانے کا چوتھا موقعہ1965 ء میں آپریشن جبرالٹر اور جنگ ستمبر کے وقت ملا۔ آپریشن جبرالٹر ایک انتہائی جامع اور شاندار منصوبہ تھا لیکن اس میں سب سے بڑی اور بنیادی غلطی یہ کی کہ سوائے چند ایک کے باقی کشمیریوں اور ان کی قیا دت کو مکمل اور بھر پور طریقے سے شامل کرنے کی با قاعدہ کوشش نہیں کی گئی اور یہی غلطی آپریشن جبرالٹر کی ابتدائی نا کامی کی سب سے بڑی وجہ بنی۔ کارگل کی طرح آپریشن جبرالٹر پر پاکستان کی پیش قدمی بھارت کیلئے اچانک تھی اور اس دبائو کو کم کرنے کیلئے بھارت نے ایسے حالات میں لاہور اور سیالکوٹ پر حملہ کیا جب بھارتی فوج کی آخری یونٹ چناب کے پل سے اکھنور کی طرف بھاگ رہی تھی اور اس وقت یہ پل مکمل طور پر پاکستان کی زد میں تھا لیکن یہاں ایک اور بلنڈر کرتے ہوئے جنرل اختر ملک ،جو ایک خاصے ماہر فیلڈ کمانڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اس سیکٹر کی ہر اونچ نیچ سے واقف تھے، کی جگہ حیران کن طور پر جنرل یحییٰ خان کو کمانڈر بنا کر بھیج دیا گیا اور جنرل اختر ملک اکھنور پل پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھنے ہی والے تھے کہ ان سے زبردستی کمان چھین لی گئی ۔ کمان کی اس اچانک اور بے وقت تبدیلی کی وجہ سے پاکستانی فوج چھمب جوڑیاں پر ہی رک کر رہ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی فوج نے اس سے فائدہ اٹھایااور دوبارہ یہاں اپنے قدم جمالیے۔ افسوس کہ یہ موقع بھی ضائع کر دیا گیا۔ افغان جہاد کے دوران جنرل ضیا ء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمان نے فیصلہ کیا تھا کہ 1989 ء میں ،روس کے افغانستان سے نکلتے ہی ’’تحریک آزادی‘‘ کے رہنمائوں سے را بطے کرتے ہوئے انہیں عسکری اور سیا سی ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے گی۔ امریکہ اورعرب ممالک کی طرف سے افغان جہاد کیلئے ملنے والے ڈالروں کو ان کی مالی امداد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ سب کے سب امریکی ڈالر اس وقت صرف جنرل اختر کی دسترس میں تھے۔ جنرل ضیا ء کو تجویز دی گئی تھی کہ ڈالروں کے ان\'\'GUNNY BAGS\'\' کو کسی بھی ریکارڈ میں نہ لایا جائے تاکہ بعد میں آڈٹ وغیرہ کا چکر نہ پڑے۔ جنرل ضیاء الحق سے منظوری ملنے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مختلف جگہوں پر تقسیم کی جانے والی ان بوریوں کوجنرل اختر اور جنرل ضیاء میں برا بر برابر تقسیم کر دیا جائے اور ان دونوں حضرات کی جانب سے ان امریکی ڈالروں کی تقسیم کا با قاعدہ آغاز 1982-83ء میں شروع کر دیا گیا تاکہ مجاہدین اور ان کے خاندانوں کی بہتر دیکھ بھال بھی ہو سکے۔ فیصلہ کیا گیا کہ یہ سب تیاریاں اگلے دو سال تک مکمل کر لی جائیں گی۔ اسلحہ کی متواتر سپلائی کے لیے تحریک آزادی کشمیر کے ان مجاہدین کیلئے افغانستان کے اسلحہ کے ذخائرکے انبار ہی کافی تھے اور رہی بات ٹریننگ کی تو وہ سب پہلے ہی انتہائی تربیت یافتہ اور تجربہ کارتھے،لیکن یہاں پر پھر ایک خطرناک اور فاش غلطی ہو گئی۔ جب چند مجاہد گروپوں نے طے شدہ منصوبے کے بر خلاف اچانک اور وقت سے بہت پہلے از خود کشمیر میں گوریلا جنگ شروع کر دی۔ دوسرا دھچکا 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیا اور جنرل اختر کے بہاولپور سی ون تھرٹی کے ’’اچانک حادثے‘‘ کی صورت میں پہنچا اور اس طرح 1989ء کے لیے آزادی کشمیر کا وہ بھر پور منصوبہ اپنے انجام کو پہنچا دیا گیا جس میں پورے کشمیر میں جنگ آزادی شروع کرتے ہوئے ایک وقت میں کارگل پر اسی طرح قبضہ کرنا تھا جیسے1999ء میں کیا گیا۔