شام ڈھلے راولپنڈی گالف کورس سے ایک زور دار ہٹ نے ہوا میں تیرتی ہوئی بال کو جونہی ہول کے کنارے لا پھینکا تو گالفر کے چہرے پر ایک مسکراہٹ جاگ اٹھی۔ ہول کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے گالفر کے ساتھ ساتھ چلنے والے نوجوان اے ڈی سی نے اچانک سوال کر دیا۔ ’’جناب ،کل کس خوش نصیب کو نیا کمانڈرا نچیف مقرر کیاجارہا ہے؟‘‘ گالفر کے بڑھتے ہوئے قدم وہیں رُک گئے۔ ایک لمحے کیلئے اس نے اپنے اے ڈی سی کی طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھتے ہوئے کہا ’’کل صبح میجر جنرل سرفراز خان کو پاکستان کی مسلح افواج کا نیا کما نڈر انچیف مقرر کیا جارہا ہے‘‘۔ اے ڈی سی یہ سن کر چند لمحوںتک خاموشی سے ساتھ چلتا رہا پھر اس خاموشی کو توڑتے ہوئے بولا ’’سر! کیا یہ عجیب سی بات نہ ہو گی؟‘‘ گالفر نے چونک کر کہا ’’کیا مطلب؟‘‘ اے ڈی سی نے کہا ’’جناب اس وقت مغربی پاکستان کے طاقتور گورنر ملک امیر محمد خان کا تعلق میانوالی تلہ گنگ سے ہے۔ ملک کی فضائی فوج کے سربراہ ایئر مارشل نور خان بھی تلہ گنگ سے ہیں۔ اب آپ میجر جنرل سرفراز خان کو مسلح افواج کا کما نڈر انچیف مقرر کر رہے ہیں جن کا تعلق بھی اسی علا قے سے ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سب آپس میں ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں‘‘۔ گالفرٹھٹک کر رہ گیا۔ کچھ دیر اپنے اے ڈی سی کی طرف گہری اور تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر کچھ پڑھنے کی کوشش کی۔ پھر ہاتھ میں پکڑی ہوئی گالف سٹک سے زوردار ہٹ لگائی‘ جس کے ساتھ ہی راولپنڈی گالف کورس سے ایک نیا کھیل شروع ہو گیا جس نے ملک کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ اگلے دن صدر ایوب خان نے اپنا طے شدہ فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے میجر جنرل سرفراز خان کی بجائے میجر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو پاکستان کی مسلح افواج کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لینے کے بعد ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف کی بطور آرمی چیف تقرری کے بارے میں آج تک یہی کہا جا رہا ہے کہ یہ تقرری میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی سفارش پر کی گئی تھی۔ ممکن ہے یہ سچ ہو لیکن میری اطلاعات کے مطابق جنرل پرویز مشرف کی بطور آرمی چیف تقرری کیلئے ان دو حضرات نے سفارش ضرور کی لیکن اصل ہاتھ مشہور بینکر اور بعد میں کینیا میں پاکستانی سفیر حمید اصغر قدوائی کا تھا جنہوں نے پانچ اکتوبر1998ء کو وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پرویز مشرف کی طرف سے سینے پر ہاتھ رکھ کر گارنٹی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شخص ہمیشہ آپ کا وفادار رہے گا۔ اگلے آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ آج پھر میاں نواز شریف کو درپیش ہے۔ آئین پاکستان کے تحت وزیراعظم کو یہ کلی اختیار ہے کہ وہ جسے چاہیں آرمی چیف مقرر کریں؛ تاہم قرعہ پانچ لیفٹیننٹ جنرلز ہارون اسلم‘ راشد محمود‘ راحیل شریف‘ طارق خان اور ظہیر الاسلام کے گرد گھومتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہارون اسلم ،نے جن کا تعلق 52 PMA سے ہے‘ اکتوبر1975ء میں فوج میں کمشن حاصل کیا۔ بہاولپور کور کی کمانڈ کرنے کے بعد انہیں چیف آف لاجسٹک سٹاف تعینات کیا گیا ہے۔ بطور میجر جنرل انہوں نے سدرن کمانڈ میں بحیثیت چیف آف سٹاف فرائض سر انجام دیئے اور پھر کوئٹہ میں ہی انہوں نے انفنٹری ڈویژن کی بھی قیا دت کی۔ بحیثیت میجر جنرل جی او سی سپیشل سروسز گروپ انہوں نے سوات میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب اور بھر پور آپریشن کیا۔ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ وہ جنرل کیانی کے بعد سب سے سینئر جنرل ہیں اس لیے اگر سنیارٹی کو مد نظر رکھا گیا تو انہیں 6اکتوبر کو جنرل خالد شمیم وائیں کے ریٹائر ہونے کے بعد ان کی جگہ نیا چیئر مین جائنٹ چیف آف سٹاف مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اس پوسٹ پر تینوں مسلح افواج میں سے کسی بھی سینئر ترین افسر کا تقرر کیا جا سکتا ہے اور اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے سوچا کہ اس بار نیوی یا ایئر فورس کو یہ عہدہ دیا جائے کہ1997ء سے اب تک نیوی اور ایئرفورس میں سے کسی کو اس منصب پر تعینات نہیں کیا گیا تو پھر ہارون اسلم سینئر ہونے کے ناتے جنرل کیانی کی جگہ لے سکتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل راشد محمود کور کمانڈرلاہور کا بہترین عرصہ گزارنے کے بعد اس وقت فوج میں چیف آف جنرل سٹاف کی اہم ترین پوسٹ پر تعینات ہیں۔ ان کا تعلق بھی52PMA سے ہے۔ جنرل اسلم بیگ جب آرمی چیف تھے تو ان کے ساتھ بحیثیت پرسنل سیکرٹری کام کرنے والے بریگیڈیئر(ر) خواجہ ضیا الدین بٹ ( اکتوبر فیم )کے ساتھ بطور میجر کام کرتے رہے۔ جب وہ بریگیڈیئر کے عہدے پر پہنچے تو انہیں صدر رفیق تارڑ کے ساتھ بطور ملٹری سیکرٹری تعینات کیا گیا۔ آئی ایس آئی میں بحیثیت میجر جنرل انہوں نے ڈائریکٹر جنرل کائونٹر ٹیرر ازم فرائض انجام دیئے۔ لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کا تعلق ایک مشہور فوجی خاندان سے ہے۔ شجاعت اور بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدرپانے والے ان کے بھائی میجر شبیر شریف شہید جنرل مشرف کے کورس میٹ تھے۔ ان کا تعلق54PMA سے ہے اور انہوں نے1976ء میں فوج میں کمشن حاصل کیا تھا۔ رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز لندن سے انہوں نے کورس بھی مکمل کیا ہے۔ جنرل قادر بلوچ جب کور کمانڈر گوجرانوالہ تھے تو راحیل ان کے ساتھ بحیثیت چیف آف سٹاف کام کرتے رہے اور جب9/11 کے بعد جنرل قادر کو کوئٹہ کی کمان دی گئی تو وہ راحیل شریف کو اپنے ساتھ کوئٹہ لے گئے جہاں ان کی کور کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے تقرری کی گئی ۔ لیفٹیننٹ جنرل طارق خان (Sword Of Honour) نے1977ء میں فوج میں کمشن حاصل کیا۔ ان کا تعلق 55PMA سے ہے۔ اپنے والد کی طرح یہ بھی کیولری آفیسر ہیں۔ وزیر ستان میں ایک انفنٹری ڈویژن کی بھر پور قیا دت کرنے کے بعد انہیں آئی جی ایف سی تعینات کیا گیا اور انہوں نے دلِ شکستہ کی طرح دیوار سے لگی سہمی ہوئی ایف سی کو نئی ہمت اور نیا ولولہ دینے کے علا وہ ان میں خود اعتمادی کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔ ان کے دور میں ایف سی نے دہشت گردوں کے مقابلے میں امن و امان کی نئی طرح ڈالی۔ بطور آئی جی ایف سی جب کراس بارڈر فائرنگ کے واقعہ میں ان کے دو جوان شہید ہوئے تو جنرل طارق خان نے اینٹ کا جواب بھاری پتھر سے دیا اور ساتھ ہی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو پہلی دفعہ اس غلطی کی پاکستان سے معافی مانگنی پڑی۔ 1977ء میں کمشن حاصل کرنے والے ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام کا تعلق 55PMA سے ہے۔ کور کمانڈر کراچی مقرر ہونے سے پہلے وہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی کام کر چکے ہیں۔ ان میں سے کس نے نیا آرمی چیف مقرر ہونا ہے اس کا فیصلہ یقینا امریکہ سے وطن روانگی سے پہلے ہو چکا ہو گا۔ وطن عزیز کی موجودہ صورتِ حال کی بنا پر میاں نواز شریف کو چرچل کی1940ء میں چیف آف امپیریل جنرل سٹاف جان ڈل کی کہی ہوئی یہ بات سامنے رکھنا ہو گی: \"We cannot afford to confine Army appointments to persons who have excited no hostile comment in their careers. This is a time to try men of force and vision and not to be exclusively confined to those who are judged thoroughly safe by conventional standards\'\' .