"MABC" (space) message & send to 7575

تھے دنیا میں تم بے مثال

دنیا کی کل آبادی کا23 فیصد اور مجموعی طور پر1.62 بلین انسان،دنیا کے کل رقبے کا21.7 فیصد، دنیا بھر کی معیشت کا8.1 فیصد ،ایک دن میں 32 ملین بیرل تیل کی پیداوار اور مجموعی طور پر 5۔7 ٹریلین ڈالر معیشت کی حامل کوئی اور نہیں بلکہ آج کی مسلمان ریاستیں ہیں‘ اس کے با وجود ان کا دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ کسی نے اپنے گھر کا نظام چلانے کیلئے اسے امریکہ اور مغربی ممالک کے حوالے کر رکھا ہے تو کسی نے اپنا آپ بچانے کیلئے ان کی فوجوں کو اپنا نگہبان بنا یا ہوا ہے۔ اور وہ ممالک‘ جن میں پاکستان بھی شامل ہے‘ جن کے پاس ماہرین بھی ہیں اور اپنی فوج بھی‘ تو وہ اپنے گھروں کے کچن چلانے ، گھر میں روشنی کیلئے غیرکے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ ان کا اپنا کچھ بھی نہیں۔ ان کی سوچ اپنی نہیں۔ ان کی معیشت اپنی نہیں۔ ان کی خارجہ اور داخلی پالیسیاں ا پنی نہیں ہیں۔جن کی حفاظت غیر مسلم کریں‘ جو اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہ ہوں وہ لوگ حرم کی پاسبانی کا دعویٰ کرتے کچھ عجیب سے نہیں لگتے؟ لگتا ہے کہ کرہ ارض پر پھیلے ہوئے پچاس سے زائد مسلم ممالک اپنی مرضی سے کسی دوسرے ملک سے بات نہیں کر سکتے۔ جب او آئی سی کے نام سے قائم مسلم ممالک کی تنظیم کا اجلاس بلایا جاتا ہے تو یہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ 1980ء کے بعد سے دنیا کی سب سے زیا دہ ابھرتی ہوئی معیشت قطر کی ہے جو پہلے سے بائیس فیصد بڑھ چکی ہے۔ سعودی عرب کی بر آمدات367 بلین ڈالر،ملائشیا کی 264 بلین ڈالر، انڈونیشیا کی185 بلین ڈالر اور ترکی کی بر آمدات 185 بلین ڈالر سالانہ ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب دولت کسی کام کی نہیں۔ یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ تیونس وہ واحد ملک ہے جو اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتا ہے اور دنیا کے پچیس مسلم ممالک اپنی جی ڈی پی کا صرف پانچ فیصد اپنے عوام کی صحت پر بمشکل خرچ کرتے ہیں۔ کیا مسلم ممالک شروع سے ہی ایسے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کی نئی نسل اور کل کو آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں ضرور ابھرے گا کیونکہ وہ جو بھی کتاب اور میگزین پڑھتے ہیں انہیں یہی بتایا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے ہوائی جہاز کی طرح فضا میں اڑنے والی ابتدائی مشین راجر بیکن نے ایجاد کی تھی اور اس کے بعد اس سے ملتی جلتی مشین لیو نارڈو نے تیار کی تھی۔۔۔لیکن یہ لکھنے اور کھل کر بتانے کی ہمت اور جرأت کوئی نہیں کرے گا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں‘ دنیا میں سب سے پہلے ہوا میں اڑنے والی مشین کا تصور مسلم سپین کے ابن فرناس نے دیا تھا۔ اس نے ان سب سے بہت پہلے800 ہجری میں جہاز بنا کر اڑایا تھا اور ابن فرناس کے مقابلے میں راجر بیکن نے پانچ سو سال بعد اور لیونارڈو نے آٹھ سو سال بعد ابتدائی ہوائی جہاز اڑانے کا ’’کارنامہ‘‘ سر انجام دیا۔۔۔۔۔ہمیں یہی پڑھایا اور بتایا جاتا رہا ہے کہ دنیا میں سب سے پہلے شیشہ وینس میں1291ء میں ایجاد ہوا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شیشہ وینس سے بھی دو سو سال پہلے مسلم سپین میں گیارہویں صدی میں ایجاد ہوا اور گیارہویں اور بارہویں صدی میں سب سے عمدہ اور شفاف شیشہ شام میں تیار کیا گیا۔ کھربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے مسلم ممالک آج ایک ایک پرزے کیلئے امریکہ‘ یورپ‘ چین‘ جاپان اور روس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ان اسلاف کے کارنامے بھول جاتے ہیں جن کی ایجادات اور پیش کیے گئے تصورات سے آج ساری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گھڑی کی ایجاد1335ء میں ہوئی تھی‘ جسے تیار کرنے کے بعد اٹلی کے شہر میلان میں نصب کیا تھا۔۔۔ لیکن ہماری آج کی نئی نسل کو کوئی یہ بتانا گوارا نہیں کرے گا کہ گھڑی ایجاد کرنے کا سہرا اٹلی کے سر نہیں بلکہ مسلم سپین کے ابن فرناس کے سر ہے‘ اور سپین سے ہی اس کی وہ کتاب جس میںاس نے گھڑی بنانے کا طریقہ لکھا تھا‘ یورپ لے جائی گئی اور اس کا لاطینی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے اس سے استفادہ کیا گیا جسے یورپی سائنسدان ’ ’ ول ڈیورنٹ‘‘ اپنی کتاب میں تسلیم کرتا ہے۔ آج جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مسلم ممالک کی زبوں حالی کی طرف دیکھتے ہیں تو دل بجھ سا جاتا ہے۔ جب سپین کے مسلمانوں کی شاندار خدمات اور ایجادات کو دیکھتے ہیںتو اس وقت علامہ اقبالؒ کی قرطبہ کی مسجد میں بیٹھ کر کی جانے والی چیخ و پکار روح میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ ہم کیا تھے اور آج کیا ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ہماری درسی کتابوں سے اندلس اور قرطبہ کی وہ تاریخ ایک ایک باب کر کے حذف کی جا رہی ہے‘ جس میں ہمارے لیے بے پناہ سبق چھپا ہوا ہے‘ جن میں ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ۔یہ سب کچھ پڑھانے کی بجائے ہمیں یہی باور کرایا جا رہا ہے کہ دیکھو جو کتاب تم پڑھ رہے ہو‘ اس کو چھاپنے کیلئے جو ابتدائی پریس (چھاپہ خانہ) بنایا گیا وہ جرمنی کے ’’جوہانس گیٹر برگ‘‘ نے1475ء میں ایجاد کیا تھا۔۔۔ لیکن درسی کتابوں میں یہ باب کوئی بھی شامل نہیں کرتا کہ جناب والا جرمنی سے بھی ایک سو سال قبل مسلم سپین میں کتب کی چھپائی کے لیے چھاپہ خانہ ایجاد ہو کر با قاعدگی سے کام کر رہا تھا۔۔۔۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سب سے پہلی کتاب 1475ء میں شائع ہوئی جبکہ یورپ میں با قاعدہ چھاپہ خانہ نے 1620ء میں کام کرنا شروع ہو گیا تھا۔ جب کتابوں میں نیوٹن کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے یہ کلیہ دریافت کیا تھا کہ سفید روشنی در اصل مختلف رنگین روشنیوں کے مجموعے پر مشتمل ہوتی ہے تو اس وقت کوئی اس دعوے کی تصحیح کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں بتاتا کہ جناب والا! یہ فارمولا نیوٹن سے بہت پہلے گیارہویں صدی میں ال حذام اور چودھویں صدی میں کمال الدین نے وضع کیا تھا۔ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ الجبرا فرانس کے ریاضی دان فرانکوس ویٹا نے 1591ء میں ایجاد کیا جبکہ سچ یہ ہے کہ مسلم ریاضی دان حضرات نے9 ویں صدی عیسوی میں الجبرا متعارف کرایا تھا۔ دنیا کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ عدسے یعنی لینز1292ء میں انگریز سکالر راجر بیکن نے نہیں بلکہ مسلم سپین کے ابن فرناس نے9 ویں صدی عیسوی میں ایجاد کیے تھے۔۔۔ مسلمانوں کی طب، سائنس، ادب کیلئے انجام دی گئی گراں قدر خدمات کے احاطہ کیلئے ایک طویل مضمون یا کتاب کی ضرورت ہے۔مسلم عظمت کے یہ سب ریکارڈایک ایک کر کے دیکھنے کے بعد اپنی موجو دہ حالت کی طرف نظر ڈالیں تو سوائے اندھیرے اور ندامت کے کچھ نظر نہیں آتا۔ آج دولت سے مالا مال ریاستیں بھیڑوں کی طرح موٹی تو ہوتی جا رہی ہیں‘ ان کی دولت کے انبار ان کی کھال کے بالوں کی طرح ہر روز گھنے تو ہوتے جا رہے ہیں لیکن۔۔۔۔ شاید وہ بھول چکی ہیںکہ بھیڑوں کا ریوڑ جب بھیڑیوں کے ہاتھ آتا ہے تو ان کا کیا حشرہوتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں