کسی بھی ملک میں بیرونی جارحیت کو HOSTILE TAKE OVER اور اندرونی خلفشار کوMIS MANAGEMENT سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اگر کوئی بھی چیف ایگزیکٹو ان دونوں خطرات سے بہتر طریقے سے نہ نپٹ سکے تو اس کے شیئر ہولڈرز اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی جہاز یا کشتی میں سوار مسافروں میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے اور یہ اختلاف اس قدر بڑھ جائے کہ فریقین کے درمیان ایک بے ہنگم قسم کی دھینگا مشتی اور پھر با قاعدہ لڑائی شروع ہو جائے اور اس دھینگا مشتی سے بے خبر لوگوں کو اس بات کی کوئی فکر نہ ہو کہ اس سے جہاز تباہ ہو جائے گا یاکشتی ڈوب جائے گی اور وہ اسی طرح لڑتے جھگڑتے رہیں‘ ایک دوسرے کو پٹخ پٹخ کر ادھر ادھر گراتے رہیں تو اس جہاز یا کشتی کی حفاظت پر مامور گارڈ اور کچھ دوسرے سمجھ دار لوگ کیا خاموش بیٹھے رہیں گے؟ پھر جب انہیں یقین ہو نے لگے کہ کسی بھی لمحے سب غرق ہو جائیں گے تو اور کشتی میں موجود ان کا زندگی بھر کا سامان بھی تباہ ہو جائے گا۔۔۔۔ تو کیا وہ گارڈ اور سمجھ دار لوگ آگے بڑھ کر ‘جو بھی طاقت اور ذریعہ ان کے پاس ہو گا ‘کے استعمال سے ‘اس جھگڑے کو بند نہیں کرائیں گے؟
ملک کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ سوچا جائے کہ کیا فوج یا اس کے چیف آف سٹاف کو سیا ست میں دخل دینا چاہئے یا نہیںتوبلا شبہ موجودہ سیا سی اشرافیہ کی طرف سے یہی کہا جائے گا کہ چاہے یہ سیاست اندرونی ہو یا بیرونی‘ فوج کو اس سے مکمل طور پر علیحدہ ہونا چاہئے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ملک کی کوئی پالیسی، معاہدہ یا تجارتی لین دین بلا شبہ سیاست سے منسلک ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کے حکمرانوں کی دفاعی پالیسی اس ریاست کی داخلی اور خارجی صورت حال سے منسلک ہوتی ہے اور اس میں اس ملک کے اردگرد کی ریاستوں کا رویہ اور طرز عمل سب سے زیا دہ اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ریاست سے ملحق کوئی دوسری ریاست آپ سے معاندانہ یا جارحانہ رویہ اور سوچ رکھتی ہے تو آپ کو خطے کی صورت حال کے بارے میں دفاعی نظریہ سامنے رکھتے ہوئے سیاست کر نی پڑے گی اور اس کے لیے آپ کو اپنے دفاعی ادارے اور اس کے سربراہان کی مرضی اور منشا سمیت ان کے مشوروں اور پالیسیوں کو اہمیت دینی پڑے گی۔ امریکی الیکشن میںالگور کے کیلیفورنیا کے تین سو سے زائد ووٹوں کو گنتی میں شامل نہ کر کے بش کو امریکی سپریم کورٹ سے کامیاب کرانا پینٹا گان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم کے درمیان معاہدہ فلسطین کس طرح اسرائیلی وزیر اعظم کی جان لے گیا ‘یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بھارت میں فوج سیا ست میں دخل نہیں دیتی۔ جنرل وی پی ملک جب بھارتی فوج کے سربراہ تھے تو اس وقت واجپائی حکومت کے وزیر دفاع جارج فرنینڈس نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد لابی میں چند صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ'' چین اس وقت بھارت کا دشمن نمبر ایک ہے۔‘‘ چند منٹوں بعد یہ خبر دنیا بھر کی نیوز ایجنسیوں کی اہم ترین اور ٹی وی سکرینوں کی بریکنگ نیوز بن کر گونجنے لگی۔ اس وقت چاہئے تو یہ تھا کہ بھارت کی وزارت خارجہ کے انتہائی ذمہ دار رکن کی جانب سے اس بارے کوئی وضاحتی یا تردیدی بیان جاری کیا جاتا لیکن جب ایسا نہ ہوا تو بھارتی فوج کے آرمی چیف جنرل ملک نے 'ہندوستان ٹائمز ‘ کے ایڈیٹر کو اپنے دفتر بلاکر ایک مختصر بیان دیا کہــ ''چین بھارتی فوج کا دشمن نمبر ایک نہیں ہے‘‘۔ شام تک جنرل ملک کا یہ بیان ایک فلیش پوائنٹ کے طور پر چمکنے لگا اور ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی حامل بھارتی حکومت کی طرف سے کسی کو جرأت نہ ہو سکی کہ اس کی تردید کرے یا آرمی چیف کو بلا کر اس سے ہتک آمیز طریقے سے استعفیٰ لے لیا جائے‘‘ بلکہ دو ہفتوں بعد بھارتی فوج کے کہنے پر جارج فرنینڈس کو وزارت دفاع سے علیحدہ کرکے ماحولیات کا وزیر بنا دیا گیا۔اب بتایا جائے کہ بھارتی فوج کا ملکی سیاست میں عمل دخل ہے یا نہیں ؟ اسی طرح وائٹ ہائوس کی کوئی پالیسی پینٹا گان کی مشاورت کے بغیر نہیں بنائی جاتی اور سیاچن کا مسئلہ جسے بھارت کی سیا سی قیا دت کوئی دس سال ہوئے مان چکی ہے صرف بھارتی فوج کی مخالفت کی وجہ سے ابھی تک وہیںکا وہیں ہے‘ تو پھر پاکستان جیسے ملک میں‘ جہاں اس کی ہر سرحد کے ساتھ دشمن دانت کچکچا رہا ہے اور جس کے اندر ان کے ایجنٹ کہرام مچائے ہوئے ہیں ‘وہاں کی سیا ست سے اس ملک کی فوج کس طرح علیحدہ رہ سکتی ہے؟ جس شخص یا ادارے کے کاندھوں پر اس ذمہ داری کا بوجھ ہوتا ہے اس کی گرانی کو صرف وہی سمجھ سکتا ہے۔ ایک سکالر نے لکھا تھا کہ فوج اور سیا ست کی علیحدگی کا تصور بھی مغربی اور غیر اسلامی ہے۔ فوج بے شک اقتدارپر قبضہ نہ کرے لیکن سیا ست سے علیحدگی اس کے لیے ممکن اور مناسب نہیں۔ اگر فوج یہ سمجھ بیٹھی ہے کہ قوم اور فوج علیحدہ علیحدہ کشتیوں میں سوار ہیں تو اس غلط فہمی کے نتیجے میں دونوں(اﷲ نہ کرے) غرق ہو سکتے ہیں۔
آپ نے ہمیشہ دیکھا ہو گا کہ جب کوئی نیا آرمی چیف اپنا عہدہ سنبھالتا ہے تو اس کے مختصر تعارف کے ساتھ ایک جملہ '' پیشہ ور سپاہی ہیں‘‘ ضرور لکھا ہوتا ہے۔ کسی بھی آرمی چیف کو سیا ست میں دخل دینا چاہئے یا نہیں؟ اس پر ہم بات کر چکے ہیں لیکن اس کا انحصار بھی اس بات پرہے کہ سیاست کیا ہے؟عام طور پر جب لوگ کسی آرمی چیف کی یہ کہہ کر تعریف کرتے ہیں کہ فلاں جنرل سیا ست سے علیحدہ رہے تو غیر شعوری طور پر وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس نے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا‘ حالانکہ سیا ست سے وہ علیحدہ نہیں ہوئے ہوتے۔ یہ بات اب ہم سب کو ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پاکستانی فوج اب ادارے کی حیثیت سے قومی معیشت میں داخل ہو چکی ہے اور جو معیشت میں داخل ہو جاتا ہے وہ سیاست سے علیحدہ رہ ہی نہیں سکتا۔ معیشت ایک کشتی ہے اور سیاست اس کو چلانے کا ہنر ‘اگر یہ حقیقت تنقید کاتیر کمان پکڑے تیر اندازوں کی انگلیوں اور آنکھوں سے اوجھل ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ اس وقت اگر ایک نظر ملکی معیشت میں فوج کے حصے پرڈالی جائے تو اس کا تناسب حیران کن ہے۔ہائوسنگ، کنسٹرکشن، ٹرانسپورٹ،ہر قسم کی صنعتی پروڈکشن اور بینکنگ میں فوج کا بہت بڑا حصہ ہے اور اس ادارے کے ملازمین کی تعداد ہی کو سامنے رکھیں تو اس کی تعداد د وسرے تمام اداروں کے ملازمین سے زیادہ۔ اس کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ملکی حفاظت اور مفادات کی دیکھ بھال کرنے والے انتہائی حساس اور مختلف قسم کے نیٹ ورک چلانے کے لیے جس سرمائے کی ضرورت ہے وہ ہماری حکومت کے دیئے گئے بجٹ سے تو کبھی پورے نہیں ہو سکتے اور جو بجٹ فوج کو دیا جاتا ہے اس کے بارے میں بھی اس قدر مبالغہ آرائی کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔آپ نے پی پی، نواز لیگ اور ایک دو مذہبی سیا سی جماعتوں کی طرف سے یہ کئی بار سنا ہو گاکہ فوج ملکی بجٹ کا60 فیصدکھا جاتی ہے ‘ہم عوام کی حالت کیسے ٹھیک کریں؟۔ 2012-13 ء کے لیے پاکستان کا کل بجٹ 2960 بلین روپے ہے۔ اس میں سے545 بلین روپے فوج کو دیئے گئے یعنی کل بجٹ کا صرف18.4فیصد اس میں سے بری فوج کو272 بلین روپے ‘نیوی اور ائر فورس کو برابر برابر 136 بلین روپے دیئے گئے۔اب ذرا ایک نظر بھارت کی فوج کا کل بجٹ ملاحظہ فرمائیں۔ اس کا بجٹ 40.44بلین ڈالر ہے۔ اسے اگر روپوں میں ڈھالیں تو شاید ہندسے ہی ختم ہو جائیں۔ پاکستانی فوج کو دیے گئے بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے خیال رہے کہ پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے ۔ امریکی میڈیا اور ان کے پاکستانی ہمنوائوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ سے فوج کو دس بلین ڈالر ملے ہیں۔ یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ فوج کو صرف1.8 بلین ڈالر اس فنڈ سے دیئے گئے ہیں۔