"MABC" (space) message & send to 7575

نیلام گھر ؟

سینٹ میں قائد حزب اختلاف ، میثاق جمہوریت کے خالق اور پیپلز پارٹی کے اہم ترین لیڈر سینیٹر رضا ربانی نے چند دن پہلے ایک پریس کانفرنس میں مسلم لیگ نواز پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف کی حکومت قومی اداروں کو اونے پونے داموں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاتھ فروخت کرنے کے منصوبے پر عمل پیراہے۔ انہوں نے قومی اداروں کو کوڑیوں کے بھائو نیلام کرنے کی پالیسی کے بارے میں کہا کہ لیپ ٹاپ سکیم پر اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن نوازحکومت ملک کے اہم ترین صنعتی ادارے پاکستان سٹیل مل کی مکمل بحالی کے لیے 35 ارب روپے خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہناتھا کہ سٹیل مل کے ملازمین کو چار ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں ، یونین اور میڈیا کے شور مچانے پر ملازمین کو ڈیڑھ ماہ کی تنخواہیں ادا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ حکمران مہنگائی کے اس طوفانی دور میں شاید اندازہ نہیں کر سکتے کہ لوگوں کا جینا کس قدر مشکل ہو چکا ہے۔ خدا رضا ربانی کو اس سے زیا دہ ہمت اور توفیق دے کہ وہ پاکستانی اداروں کو بچانے،انہیں بحال کرانے اور غریب ملازمین کے حقوق کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کریں، لیکن سوال یہ ہے کہ انہیںکراچی کی سٹیل مل کو بحال کرانے کا خیال اب کیوں آیا؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ 2008ء سے فروری2013ء تک پورے پانچ سال وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں، کیا اس وقت ان کی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر 130 ارب روپے ضائع نہیں کیے؟ یہ رقم مالِ مفت سمجھ کر اس طرح لٹائی گئی کہ اس پروگرام 
کے دفتر کے لیے ایک سابق اعلیٰ بیوروکریٹ کی بیگم کا گارڈن ٹائون لاہور میں واقع گھر بھاری کرائے پر حاصل کیا گیا حالانکہ پہلے اس سے دگنے رقبے پرمشتمل مسلم ٹائون کے گھر کا ماہانہ کرایہ اس کے نصف سے بھی کم تھا۔ اس وقت انہیں یہ بھاری رقم پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے کی بحالی پر خرچ کرنے کا خیال کیوں نہ آیا ؟اس وقت اس رقم میں سے ریلوے کی بحالی کے لیے54 ارب اور سٹیل مل کی بحالی کے لیے 35 ارب دینے میں کیا قباحت تھی؟
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران پیپلز پارٹی سے نواز لیگ اور پھر جنرل مشرف سے پھر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں نے پاکستان کو نیلام گھر بنا دیاہے۔ جس کا جی چاہتا ہے اپنے عزیزوں ، دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاتھ ملکی اثاثے کوڑیوں کے بھائو فروخت کر دیتا ہے۔ ملکی اثاثے کس طرح بیچے گئے ، اس کی ایک معمولی سی جھلک دیکھنی ہو تو2 نومبر1992ء کا روزنامہ نوائے وقت ملاحظہ کریں جس میں بتایا گیا کہ چند ہفتے قبل کی جانے والی نج کاری کے عمل کے دوران پنجاب کی حدود میں واقع ایک سیمنٹ فیکٹری کو بھی ''نیلام‘‘ کیا گیا۔ یہ سیمنٹ فیکٹری پرائیویٹائزیشن کمیشن کی طرف سے ایک خریدار کو مبینہ طور پرساٹھ کروڑروپے میں نیلام کی گئی۔ اس نیلام کے لیے رکھی گئی شرائط کے مطابق خریدار کو کل رقم کا چالیس فیصد یعنی24کروڑ روپے ادا کرنے تھے جبکہ بقایا رقم تین سال میں اقساط کی صورت میں ادا کرنی تھی۔ اس سیمنٹ فیکٹری کو نیلامی میں حاصل کرنے والے خریدار نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کو18 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی دے دی، اب اس کے ذمے 6 کروڑ روپے ادا کرناباقی تھے۔ جب اس خریدار نے سیمنٹ فیکٹری کا قبضہ لیا تو اس دن اس فیکٹری کے بینک اکائونٹ میں دس کروڑ روپے پہلے سے ہی موجود تھے ۔ سیمنٹ فیکٹری حاصل کرنے والے نے فیکٹری کے اکائونٹس میں پہلے سے موجود ان دس کروڑ میں سے چھ کروڑ روپے نکلوا کر کمیشن کو ادا کر دیے اورچارکروڑ روپے اسے بچ گئے۔ دیکھیے ، یہ کیسا کمال ہے، ایک پائی خرچ کیے بغیر آپ کو سب سے بڑی سیمنٹ فیکٹری مل گئی، اس کے اثاثے مل گئے اور چار کروڑ روپے نقد بھی مفت میں مل گئے۔ اسے کہتے ہیں ''رند کے رند رہے ، ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی!‘‘ اس طرح کی نیلامی اور نج کاری آپ نے شائد کبھی دیکھی ہوگی اور نہ سنی ہو گی۔ 
سینیٹررضاربانی کی پریس کانفرنس کے مندرجات اپنی جگہ ، لیکن گزارش پھر یہی ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کوچاہیے کہ وہ نوجوانوں کو قرضے دینے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مدد فراہم کرنے اور لیپ ٹاپ جیسی سکیموں پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے یہ رقوم پی آئی اے، ریلوے ، پاکستان سٹیل مل، آئل اینڈ گیس، پاکستان سٹیٹ آئل اور دوسرے اداروں کو بحال کرنے پر خرچ کرے ۔ لیکن لگ یہ رہا ہے کہ ان اداروں کی بحالی کی طرف توجہ دینے کی بجائے ان کو نیلام ہی کیا جائے گا کیونکہ انتہائی با خبر ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ تین اکتوبر2013 ء کو نواز حکومت کی مرکزی کابینہ نے ملک کے31 اہم ترین اداروں ، جن میں آئل اینڈ گیس، پاکستان پٹرولیم، پاک عرب ریفائنری، پاکستان سٹیٹ آئل،سوئی سدرن گیس کمپنی، سوئی ناردرن گیس کمپنی، سوئی ناردرن گیس پائپ لائن، سٹیٹ لائف، نیشنل انشورنس کارپوریشن آف پاکستان، پاکستان سٹیل مل،ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس،پی آئی اے، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پی آئی اے کے نیویارک اور پیرس میں واقع بیش قیمت ہوٹل شامل ہیں، کی نجکاری کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ ایک اطلاع کے مطا بق لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اسلام آباد، حیدر آباد، ملتان کی پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی فروخت کیا جا رہا ہے جس سے اس کے لاکھوں ملازمین میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔
نجکاری کے عمل سے چند لوگوں کے اثاثوں میں تو ضرور اضافہ ہوجاتا ہے لیکن کیا ان اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کی قسمت کوبھی بہتر بنایا جا تا ہے اور ان کے حالات بدلنے کی ہلکی سے بھی کوشش کی جاتی ہے؟ جواب نفی میں ہو گا کیونکہ اب تک جن بینکوں کی نجکاری کی گئی ان کے ملازمین کے ساتھ جوسلوک روارکھا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔کیا سٹیٹ بینک نے کبھی سوچاکہ قومیائے گئے بینکوں کے ملازمین اوراسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کے ملازمین کے اوقات کار، تنخواہوں اور بنیادی سہولتوں میں کتنا فرق ہے؟ کیاکبھی اسٹیٹ بینک یا نج کاری کمیشن نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سرکاری بینکوں اور قومیائے گئے بینکوں کے ملازمین کو ملنے والی طبی سہولتوں میں کیا فرق ہے؟ کیا انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نجکاری کے عمل کے بعد ان ملازمین کے ساتھ ان کے پے سکیلز میں کیا سلوک کیا جاتا ہے؟
2006-07ء میں جنرل مشرف کے وزیر اعظم شوکت عزیز کی جانب سے پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کو تو اس وقت کے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری نے یہ کہہ کرمنسوخ کر دیا تھا کہ اس کی وصول کی جانے والی قیمت اس کی اصل مالیت سے بہت کم ہے۔کیا وطن عزیز پاکستان میں کبھی کوئی ایسا ادارہ وجود میں آئے گا جو1988ء سے اب تک کی جانے والی نجکاری کے عمل کا پوسٹ مارٹم کر ے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں