دنیا ٹی وی پر کامران شاہد کے پروگرام '' فرنٹ لائن‘‘ میں چولستان کے ایک کھلے آسمان تلے بچوں کو تعلیم دیتی ہوئی کمیونٹی سکول کی ٹیچر نے جب بتایا کہ اسے پچیس سو روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے تو میرا سر شرم سے جھک گیا ۔
کچھ عرصہ قبل اخبارات میں کوٹ چاندنہ تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں سکول ٹیچر، خاکروب اور چوکیدار کی خالی آسامیوں پر بھرتی کے لیے ایک اشتہار شائع ہوا تھا ،جس میں سکول ٹیچر کی خالی آسامی کے لیے تعلیمی قابلیت بی اے بی ایڈ اور ساتھ ہی کم از کم دو سال کے تدریسی تجربہ کی شرط عائد کی گئی تھی اور اس کے لیے کل ماہانہ مشاہرہ8712/- رکھا گیا تھا۔اس اشتہار میں خاکروب اور چوکیدار کی علیحدہ علیحدہ دو خالی آسامیوں کیلئے تعلیمی قابلیت کی جو شرط رکھی گئی تھی، اس کے مطابق '' امیدوار پڑھنا لکھنا جانتا ہو‘‘ اور خاکروب ، چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ8,865/- روپے رکھی گئی تھی۔ جس ملک اور معاشرے میں چودہ سالہ تعلیمی قابلیت رکھنے والے گریجوایٹ اور بی ایڈ کی ایک سال کی اضافی تعلیمی قابلیت کے ساتھ مزیددو سال کا تدریسی تجربہ رکھنے والے استاد کے احترام کی یہ حالت ہو ،اس کا ماہانہ مشاہرہ چوکیدار اور خاکروب سے کم ہو،کیا یہ اس ملک اور معاشرے کی توہین نہیں؟ جس معاشرے میں تعلیم اور تدریس سے منسلک استادکا ماہانہ مشاہرہ ایک خاکروب کے برابر اور چوکیدار سے کم ہو،اس معاشرے میں وہی کچھ ہو گا جو کراچی، فیصل آباد، ، مظفر گڑھ، چنیوٹ اور دوسرے شہروں میں روزانہ ہو رہا ہے ۔ان پڑھ خاکروب اور چوکیدار سے کم معاوضہ دینے کے بعد بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والے استاد سے ہم یہ توقع کیوں رکھتے ہیں کہ وہ بہترین تعلیم دے ،بچوں سے ہمدردی اور پیار سے پیش آئے ،اس کا اخلاق اچھا ہو اور وہ سکول کے بچوں کیلئے قابل قدر مثال بن کر رہے ؟
اسلام آباد میں قائم ایک ادارے کی طرف سے ایسا ہی ایک اشتہار دیا گیا تھا جس میں امام مسجد،خطیب اور سٹینو ٹائپسٹ کی آسامی کی تنخواہ کیلئے حکومت کا سکیل12 مقرر کیا گیا جبکہ تعلیمی قابلیت ایف اے بمع ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ رکھی گئی تھی ،جبکہ امام مسجد،خطیب کیلئے پے سکیل11 مقرر کیا گیا تھا اور اس کیلئے تعلیمی قابلیت کم از کم ایم اے اسلامیات کے علاوہ کسی مستند ادارے سے فاضل درس نظامی، فاضل عربی ،شہادۃ القراۃ والتجوید اور کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری ادارے میں امامت اور خطابت کا ایک سالہ لازمی تجربہ مانگا گیا تھا۔انگریزی کی مختصر تشریح کرنے والے کو سکیل بارہ اور اسلامیات میں ایم اے کرنے والے کو، جو قرآن پاک کی تشریح کرے گا ،ایک درجہ کم پر رکھا گیا ۔دین اسلام کی تعلیم اور تبلیغ دینے والے کو عیسائی ، یہودی اور بدھ مت کے مبلغوں کی طرح باعزت مقام نہ دیے جانے کی وجہ سے ہمارے ملک میں روایتی ملاازم نے فروغ پایا ، جس کا نتیجہ ہم سب من حیث القوم بھگت رہے ہیں ۔ اگر استاد کو بہتر مراعات دی جاتیں تو یہ لوگ خود کو معاشرے میں کم تر ہونے کے احساس کا شکار نہ ہوتے اور ''ملا یا ماسٹر‘‘کی بجائے ایک بہترین عالم دین اور سکالر بن کر نوجوان نسل کو روشنی دکھاتے۔ افسوس کہ ابھی تک ہمارے ملک کی پالیسیاں اور قومی پے سکیل بنانے والے ''برائون صاحب‘‘ بی اے بی ایڈ کو خاکروب سے کم تر اور ایم اے اسلامیات کو روایتی ملا بنانے پر تلے ہوئے ہیںاور یہ سب کچھ اس معاشرہ میں کیا جا رہا ہے جو اقرا سے شروع ہونے والے مذہب کی بنیاد پر وجود میں آیا۔
کسی کالج یا تعلیمی ادارے میں لیکچرر اسلامیات کی تقرری کے لیے بھی کم از کم تعلیمی قابلیت ایم اے اسلامیات مقرر ہے اور تعلیمی اداروں کے ان لیکچررز، جو طلباء کو اسلامیات کی تعلیم دیتے ہیں، کے لیے حکومت نے قومی پے سکیل17مقرر کیا ہوا ہے ۔کیا یہ بات عجیب سی نہیں لگتی کہ پاکستان کی نیشنل پولیس اکیڈمی کی مسجد
کے امام ،جس نے اکیڈمی میں زیر تربیت پولیس افسران اور وہاں کام کرنے والے دوسرے افراد کو مذہبی تعلیم دینی ہے ،کا رتبہ سولہ سالہ تعلیمی ریکارڈ ،فاضل عربی اوردوسرے مدارس کی تعلیم کے علا وہ ایک سالہ تجربہ رکھنے کے با وجود ایک عام کلرک کے بر ابر رکھا جائے ؟ایک ایسا شخص جو اسلام آباد جیسے بڑے شہر میں تعینات ہو، وہ دس بارہ ہزار روپے میں کس طرح گزارہ کرے گا ؟اوراگروہ شادی شدہ ہے تو وہ خود کیا کھائے گا اور بچوں کو کیا کھلائے گا ؟اور ہمارا معاشرہ جو ابھی تک بزرگوں کو کسی اولڈ ہوم یا بورڈنگ ہائوس میں داخل کرانے کی بجائے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرنا اور انہیں اپنے ساتھ رکھنا خوش قسمتی اور عبا دت سمجھتا ہے ،وہ اسلام آباد جیسے مہنگے ترین شہر میں خاندان سمیت اس قلیل تنخواہ میں کیسے گزاراکرے گا؟۔وہ فکر معاش سے بے نیاز ہو کر دل کی گہرائیوں سے کیسے اعلیٰ اور جدید دینی خدمات انجام دے سکے گا؟۔وہ کیسے دعوتِ حق کی خدمت میں بحسن و خوبی سر خرو ہو گا؟۔
ایک استاد یا داعی حق کے کام کی صحیح مثال ایک دہقان کے کام سے دی جا سکتی ہے ۔جس طرح اس کا مقصد صرف اتنی سی بات سے حا صل نہیں ہو سکتا کہ کچھ بیج کسی زمین میں ڈال کر فارغ ہو بیٹھے، اسی طرح ایک استاد یا داعی حق کا کام بھی صرف اسی سے انجام نہیں پا سکتا کہ وہ بچوں کو روائتی تعلیم دے ،انہیں رٹا لگانے کا عادی بنائے ،کسی بھی طریقے سے پاس ہونے کی ترغیب دے یا داعی حق بن کر لوگوں کو وعظ سنا کر یا نماز پڑھا کرسمجھے کہ ڈیوٹی پوری ہو گئی، بلکہ اصلاح اور نیکی کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ اس کے دل میں دی گئی تعلیم اور وعظ کے ساتھ وہی لگائو ہو جو ایک فرض شناس کسان کو اپنے بوئے ہوئے بیج کے ساتھ ہوتا ہے جس طرح کسان مسلسل نگرانی کرتا رہتا ہے کہ بیج زمین میں جڑ پکڑے ،اس کو صحیح وقت پر پانی ملے اور موسم کی ناساز گاریوں سے محفوظ رہے۔ اسی طرح ایک استاد اور خطیب کو بھی اسی صورت میں اپنی دعوت کو پھلتے پھولتے دیکھنا نصیب ہوتا ہے جب وہ دعوت کے ساتھ ساتھ تربیت کی جانکاہیوں کے ایک طویل سلسلے کو جھیلنے کی قابلیت اور ہمت رکھتا ہو اور اگر اس میں قابلیت تو کوٹ کوٹ کر بھری ہو لیکن دو وقت کی روٹی کی سختیوں اور رسم ورواج میں جکڑے ہوئے معاشرے کے مسائل نے اسے مفلوج کر رکھا ہو تو وہ اپنے فرائض پر مکمل توجہ دے ہی نہیں سکتا۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کے فادر اور یہودیوں کے ربی کی ماہانہ تنخواہیں ہمارے سرکاری اور تعلیمی اداروں کے امام مسجدوں اور خطیبوں کی دس سال کی تنخواہ کے برابر ہوتی ہیں اور ہمارے بی اے بی ایڈ سکول ٹیچر اور ا یم اے اسلامیات خطیب کی ما ہانہ تنخواہ پادری، ربی کی آدھے دن کی تنخواہ کے برابر تو کجا ایک ان پڑھ خاکروب اور چوکیدار کے برابر بھی نہیں۔