عراق میں آج جو صورت حال دنیا بھر کو حیران کر رہی ہے‘ اس کے بارے ہنری کسنجر کا '' How to Exit Iraq'' کے عنوان سے واشنگٹن پوسٹ میں 18 دسمبر2005ء کو شائع ہونے والا مضمون آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ آج سے9 سال قبل امریکی فوج کے عراق سے انخلا پرہنری کسنجر نے بش انتظامیہ کو وارننگ دیتے ہوئے لکھا تھا'' کل کو کسی بھی وقت موصل یا بصرہ میں اگر کسی بھی اسلامی بنیاد پرست جہادی گروپ کا قبضہ ہو جاتا ہے تو امریکی اس وقت اپنے ہاتھ کاٹنے پر مجبور ہو جائیں گے اور وقت بھی ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوگا‘ سوائے اس کے کہ وہ اس نئی جنگ کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں نئے معیاری تابوت تیار رکھیں‘‘۔ آج بعینہٖ وہی صورت حال امریکہ کو د رپیش ہے جس کاا شارہ 9 سال قبل ہنری کسنجر نے کر دیا تھا۔ وہ امریکہ جو شامی باغیوں کی امداد کیلئے دن رات سرگرم تھا‘ اب عراق پرہونے والے اس حملے سے بوکھلا کر رہ گیا ہے۔ اگر عراق کی صورت حال اس کے قابو میں نہیں آتی تو جاپان، پورے یورپ‘ چین اور روس کے سامنے اس کے وقار میں کمی آ جائے گی‘ جس سے عالمی معاملات پر امریکی اثرات متاثر ہونا شروع جائیں گے۔
امریکہ کے بہت سے فیصلے خارجہ امور کے دبائو پر کئے جاتے ہیں لیکن عوامی غضب کے ہاتھوں مجبور ہو کر جلدہی پسپائی اختیار کر لی جاتی رہی‘ جس سے اکثر اس کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ اس ضمن میں لبنان میں1950ء اور1980ء ،افغانستا ن میں 2001ء، پرشین گلف میں1991ء اور2003ء، اور1970ء میں اردن پر شامی حملے کے وقت امریکہ کے چڑھ دوڑنے کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 9/11 کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کی بجائے بش انتظامیہ اگر کچھ دیر اور انتظار کر لیتی تو امریکہ سمیت دنیا بھر کے ٹریلین ڈالرز اور ہزاروں انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا لیکن امریکی کائو بوائے بش نے اس محاذ کو بھی ہالی وڈ کی کسی ویسٹرن فلم کا کوئی سیٹ سمجھتے ہوئے چڑھائی کر دی جس کی قیمت پوری دنیا ابھی تک ادا کئے جا رہی ہے۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ہے جس میں کامیاب ہونے والے کا اعلان دو جولائی کو متوقع ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عراق کی موجو دہ صورت حال کے تنا ظر میں کیا امریکی صدر اوباما ان انتخابات کے بعد اپنے اعلان کے مطا بق جولائی میں امریکی افواج کو افغانستان سے واپس بلا سکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورت حال کے تناظر میں انتہائی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ وہاں کی صورت حال نے امریکہ‘ یورپی یونین اور باقی ماندہ عرب ریاستوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اگر عراق میں ابوبکر بغدادی موصل جیسے اہم شہروں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے تو بڑی بڑی عرب بادشاہتیں اس کے نتائج سے لرزنا شروع ہو جائیں گی ۔
ستمبر2005ء میں جب عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل نے اعلان کیا تھا کہ عراق میں دسمبر2005ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی آئینی حکومت کے فوراَبعد امریکہ اپنی فوجوں کو بڑی حد تک عراق سے نکال لے گا‘ اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ عراق میں موجود امریکی افواج کا22 فیصد‘ جو تیس ہزار کے قریب ہوگا‘ عراق میں تب تک رہے گا جب تک عراق میں امن و امان کی صورت حال بہتر نہیںہو جاتی اور عراقی فوج کے تربیتی معیار کو اس حد تک بہتر نہیں بنادیا جاتا کہ وہ بآسانی امریکی فوج کی جگہ لے سکے ۔۔لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ یہ تربیت کسی کام نہ آسکی اور عراق کے تین اہم شہر بنیاد پرستوں کے قبضے میں آ گئے ہیں۔
امریکی صدر اوباما نے دوسال قبل اعلان کیا تھا کہ جولائی2014ء میں افغان صدارتی انتخابات کے بعد امریکہ اپنی صرف تیس ہزار کے قریب فوج افغانستان میں رکھے گا۔ امریکیوں کو اس وقت جن حالات کا سامنا ہے‘ ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ ہوا ہو۔ ایک طرف امریکی عوام سے افغانستان سے فوج کی واپسی کا کیا گیا وعدہ‘ دوسری طرف عراق کی موجود ہ صورت حال اور اس خطے میں القاعدہ سے بھی بڑھ کر ابو بکر بغدادی کیISIS کی عراق کے دارالحکومت بغداد کی طرف مسلسل پیش قدمی جو ایک اطلاع کے مطا بق صرف پچیس کلومیٹر کی دوری پر رہ گیا ہے۔ اب امریکی فیصلہ ساز یقیناََ سر جوڑ کر بیٹھے ہوں گے کہ عراق سے نکلنے کے بعد جس صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکی فوجوں کے مکمل انخلا کے بعد افغانستان میں بھی یہی صورت حال پیدا ہو جائے‘ کیونکہ خدشہ سر اٹھانے لگا ہے کہ کہیں پاکستان، عرب اور سنٹرل ایشیا کی ریا ستوں کے بھاگے ہوئے جنگجو دوبارہ افغانستان میں اپنے قدم نہ جما لیں۔ امریکہ نے اپنا بحری بیڑہ عراق کی طرف بھیج دیا ہے۔ اب امریکی فوج کے عراق میں دوبارہ ملوث ہونے کی صورت میں اگر افغانستان میں امریکہ کی جانب سے بھارت کو کوئی ذمہ داری دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ چین اور پاکستان کو گوارا نہیں ہوگا۔ افغانستان کی پچھلے چند ماہ کی صورت حال کی طرف دیکھا جائے تو افغان انتخابات سمیت پورے ملک میں طالبان کی کوئی بہت بڑی کارروائی سامنے نہیں آئی۔ امریکہ جو عراق میں جمہوری حکومت کا تحفہ دینے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ گیا تھا‘ اب ضرورسو چ رہا ہو گا کہ فرنٹ لائن کے بغیر جنگ میں ایک عارضی وقفے یا خاموشی کو کیا کسی کامیابی کی نشاندہی سمجھا جاسکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ کے دشمن حملوں میں کمی اور کسی بھی جگہ عارضی امن کی آڑ میں انہیںتھکا تھکا کر مارنے کا حربہ استعمال کر رہے ہوں یا وہ امریکی افواج کے جلد از جلد اور محفوظ انخلا کی حوصلہ افزائی کیلئے ایساکر رہے ہوں؟۔
امریکی اور طالبان دونوں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ افواج میں کمی سے حملہ کرنے کی استعداد بھی کم ہو جاتی ہے اور یہ بات تو امریکہ سمیت دنیا بھر کی افواج کی لائبریریوں میں موجود جنگی کتابوں میں درج ہے کہ جب تک داخلی حمایت نہ ہو عسکری فتح کو قائم رکھنا مشکل ہو تا ہے۔ ابو بکر بغدادی اس وقت خود عراق میں جنگی محاذوں پر موجود ہے اور اگر اس کی نئی القاعدہ افغانستان کے ماضی کے طالبان کی طرز پر عراق کے کسی حصے میں ایک بنیاد پرست حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا اثر پوری اسلامی دنیا پر پڑے گا اور پھر مڈل ایسٹ کے اندر پلنے والی عوامی نفرت عرب ممالک اور اس کے ارد گرد بہت سی ریا ستوں میں دراڑیں ڈال دے گی۔ موجو دہ اسلامی ممالک کی انقلابی قوتوں یا غیر اسلامی ریاستوں کی اسلامی اقلیتوں کے ان حکومتوں کے خلاف حملوں میں بھی شدت آنا شروع ہو جائے گی جس سے ان تمام معاشروں کی سلامتی اور ان کا داخلی استحکام خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ بھی ہو گا کہ جس طرح دنیا بھر کی حکومتوں کے مجرم افغانستان میں طالبان کے پاس پناہ لینے چلے آئے تھے‘ وہ سب عراق کے کسی حصے پر قابض ابو بکر بغدادی کی بیعت کرتے ہوئے جوق در جوق آئی ایس آئی ایس کی طرف کھنچے چلے آئیں گے اور اس کے بعد کی صورت حال سامنے دیوار پر لکھی ہوئی نظر آ رہی ہے‘ جب یہ لشکر عراق کو ایک جنگی ٹریننگ کیمپ میں تبدیل کرنا شروع کر دے گا۔ امریکی بحری بیڑہ جارج واشنگٹن اور برطانوی فوج کے سپیشل دستے صورت حال سے نمٹنے کیلئے عراق پہنچ رہے ہیں کیونکہ یہ وہی علا قے ہیں جہاں صدام کی فوج سے برطانوی فوج نے ایک بڑی جنگ کے بعد کنٹرول حاصل کیا تھا‘ اور یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسی برطانوی فوج کی عراق سے واپسی کے لیے دس لاکھ سے زائد برطانوی شہری لندن کی سڑکوں پر آ گئے تھے۔