"MABC" (space) message & send to 7575

آئل اور گیس سے اٹھنے والی بدبو ؟

آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے پہلے سے بیچے جانے والے حصص کے بعد اب مزید دس فیصد حصص کی نجکاری کے خلاف اس کے ملازمین کی جانب سے کئے جانے والے مظاہروں کے خلاف جس شدت سے ریاستی طاقت استعمال کی جا رہی ہے، اتنی ہی شدت سے اس کے خلاف عوامی رد عمل میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے ۔ملازمین کو اس کے حصص کی نجکاری پر اعتراض ہے یا طریق کار پر، جس کی منظوری کیبنٹ کمیٹی اپنے حالیہ اجلاس میں باقاعدہ منظوری دے چکی ہے؟۔ اگر معاملے کو صاف شفاف عینک سے دیکھیں تو مارکیٹ میں گزشتہ دوتین دہائیوں سے ان حصص کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر یک مشت فروخت کرنے کے عمل پر ۔۔۔۔۔واقعی شکوک و شبہات شدت سے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ یہ شکوک بڑھ جاتے ہیں جب خریدو فروخت کے ضمن میں وہ نام بھی سامنے آنے لگتے ہیں جن سے بہت سی کہی ان کہی داستانیں وابستہ ہوتی ہیں۔
کیا دیکھنے کی سکت رکھنے والے دیکھ نہیں رہے کہ جیسے ہی آئل اور گیس کی انتہائی خفیہ فائلیں حرکت میں آنے لگیں، کئی ادارے پاکستان میں بہت بڑے منافع بخش موقع کے گرد گھومنا شروع ہو گئے اور جس کی بھنک پا کر آئل ایند گیس کارپوریشن کے ملازمین کی یونین سڑکوں پر آ گئی ۔ اسلام آباد میں ان ملازمین پر حکومتی طاقت استعمال کرتے ہوئے جس بری طرح تشدد کیا گیا ، سب کے سامنے ہے۔ شاید آئل اینڈ گیس کی یونین کے ملازمین پر تشد دکا حکم دینے والوں کے ذہنوں میں2008 ء کی وہ تلخ یادیں ابھر آئی ہوں جب اسی یونین نے قادر پور گیس فیلڈ کی نجکاری کو بزور طاقت رکوا دیا تھا۔قادر پور گیس فیلڈ کو ہتھیانے کی اندرون خانہ سازش کا بھی شائد کسی کو علم نہ ہوتا، وہ تو اﷲ کا کرم ہوا کہ اس کے ایک سابق مینجنگ ڈائریکٹر نے21 اکتوبر2008 ء کو ایک خط میں قوم کو پہنچائے جانے والے اس خسارے کی نشاندہی کر دی تھی، جس پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اس کی باز گشت گونج اٹھی اور دوسری جانب اس کے ملازمین اپنی لیبر یونین کی رہنمائی میں سڑکوں پر آ گئے جس سے بہت سے لوگوں کو اس کی نجکاری کے نہ ہونے سے خاصا نقصان اٹھانا پڑا۔
1990 ء اور 2000 ء میں آئل اور گیس کے حصص کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ،اس کے بعد شوکت عزیز اور گیلانی بھی وہی کام دکھا گئے اور اب موجودہ حکومت 90 ء کی تاریخ کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے او جی ڈی سی ایل کے باقی ماندہ دس فیصد حکومتی حصص 800 ملین ڈالر میں بیچنے کی تیاریاں کر رہی ہے اور یہی کچھ ماڑی پور گیس فیلڈ اور پی پی ایل کے حصص کے ساتھ کرنے کی باتیں سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ کیا کوئی بھی صاحب دل جا کر انہیں بتانے والا نہیں کہ خدا کیلئے اس لوٹ سیل کی میخوں کو قوم کے سینے میں ٹھونکنے سے پہلے اتنا تو سوچ لیا ہوتا کہ آئل اینڈ گیس کے جن دس فیصد حصص کو جس قیمت پر ٹھکانے لگانے جا رہے ہو، اس سے کچھ زیا دہ تو تم ان شیئرز کو اپنے پاس رکھ کر تین سال میں حاصل کر سکتے ہو۔مرغی کا پیٹ پھاڑ کرسارے انڈے نکالنے سے کیا بہتر نہ ہو گا کہ مرغی بھی رہے اور روزانہ اس سے انڈا بھی حاصل ہوتا رہیـ؟ـ۔
وہ تو اﷲ کا شکر ہے کہ عمران خان کے دھرنے والی عوامی پارلیمنٹ اور پھر آئل اور گیس کے اس ادارے میں موجود چند بچے کھچے درد مند پاکستانیوں کے شور اوراو جی ڈی سی ایل کی لیبر یونین کی چیخ پکار سے حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن بھی سامنے آنے پر مجبور ہو گئی، ورنہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی جس کا پی پی پی یا دھرنے میں ساتھ بیٹھنے والی دوسری جماعتوں کو اس کا پہلے سے علم ہی نہیں تھا۔ سب جانتے تھے لیکن خاموش تھے کیونکہ ان کے ساتھ اب
ایک بہت بڑی مجبوری یہ آن پڑی ہے کہ جو بات انہیں ''پارلامنٹ ‘‘میں اٹھانی ہوتی ہے وہ ان کی خاموشی کی وجہ سے دھرنے والے واویلا کرکے قوم کو بتارہے ہوتے ہیں۔لگتا ہے کہ حکومت کی حلیف جماعت بھی شاید اس دھرنے کے ذریعے اس سے پرانا حساب چکانا چاہتی ہے جو توقیر صادق اور عدنان خواجہ سابق ایم ڈی آئل اینڈ گیس کے خلاف شور مچا کراسے پہنچایا گیا تھا۔ اسی آئل اور گیس کی وزارت میں اب تک ہونے والی لوٹ مار کی دستا ویزی داستانیں اس قدرزیادہ ہیں کہ سوچنا پڑتا ہے، اگر صرف اس محکمے میں '' کوئی سچاپاکستانی‘‘ با اختیار کر کے بٹھا دیا جائے تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اگر 15 اکتوبر2010 ء سے2 دسمبر تک کے صرف45 دنوں کےUFG کے پانچ اور سات فیصد سٹاک ایکسچینج کے حصص کی ایماندارانہ انکوائری کر لی جائے تو ملک کو پہنچنے والے نقصان پر لوگ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔لیکن یہ تحقیق کیسے ہو سکتی ہے جب حالات یہ ہوں کہ ممبر اوگرا کے 15 اگست کو وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ موصوف تو 15 جولائی کو، یعنی وارنٹ جاری ہونے سے ایک ماہ پہلے ہی ملک سے باہر جا چکے ہیں۔ان پر الزام
ہے کہ انہوں نے دوسری کارروائیوں کے علا وہ درجنوں کی تعداد میں سی این جی اسٹیشنز کی تبدیلی کے اجا زت نامے جاری کئے اور اس کی ابتدا موجو دہ وزیر کھیل ریاض حسین پیرزادہ کی درخواست کو مثال بناتے ہوئے کی گئی، جس میں انہوں نے فروری2010 ء میں اپنے چوہدری گیس سٹیشن کی سائٹ تبدیلی کی درخواست کی تھی۔ اس پر اوگرا کو پہلے ہی سے منظور کئے جانے والے سی این جی سٹیشنز کی سائٹ میں تبدیلی کرنے کیلئے اپنی سابقہ پالیسی تبدیل کر کے''Rational Policy'' تیار کرنے کاحکم جاری ہوا،اور اس کی آڑ میں جو لوٹ مار ہوئی وہ آج بھی نیب کی گرد پھانکتی فائلوں میں محفوظ ہے۔ اس سکینڈل میں ہاتھ کی صفائی دیکھئے کہ نیب اس ممبر اوگرا کے بینک اکائونٹ تلاش کرنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن وہ ابھی تک یہ معلوم نہیں کر سکی کہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ اور کیبنٹ ڈویژن نے یہ ہدایات کیوں اور کس کے کہنے پر دیں۔
اگر ہم اپنی قوم اور ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور انرجی سکیورٹی سے متعلق اپنے خوابوں کی حقیقی تعبیر چاہتے ہیں تو خدا کیلئے اپنے'' STRATEGIC PETROLEUM ASSETS'' اپنے پاس ہی رہنے دیں، انہیںہر ایرے غیرے کے حوالے نہ کرتے جائیں۔ اس سلسلے میںبھارت کی مثال یقینا ہماری حکومت کے سامنے موجود ہو گی لیکن قابل تقلید اور فائدہ بخش مثالوں کی طرف کوئی دھیان دیتا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں