"MABC" (space) message & send to 7575

خوش آمدید‘لیکن ؟

بات نئے یا پرانے کی نہیں ہوتی اور نہ ہی کمزور اور طاقتور کی ہوتی ہے بلکہ وفاداری اور استقامت سب سے افضل ہے۔ آپ ایسے شخص کو کس طرح کمزور کہہ سکتے ہیں جو زمانے کی تمام تر سختیاں برداشت کرتے ہوئے آپ کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہتا ہے ۔وہ لوگ جو اپنی زندگیاں آپ کیلئے وقف کر دیتے ہیں، آج کی دنیا میں خال خال ہی ملتے ہیں تو پھر وہ لوگ جو اپنی زندگی آرام و سکون سے گزارنے کے عادی ہیں، اگربرستی ہوئی بارشوں اور تپتی ہوئی دوپہروں میں آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلتے رہے، وہ جنہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر آپ کی بد ترین مخالف پولیس فورس کے ہر ظلم و زیا دتی کا سامنا کیا، وہ جو ہر سڑک اور چوک پر کھڑے کئے گئے کنٹینروں اور ڈنڈا بردار پولیس کی لاٹھیوں کو پھلانگتے ہوئے آپ کے ہمراہ رہے اور ان کا ایک قدم بھی نہ ڈگمگایا،وہ جو زہریلی آنسو گیس کے گولوں میں اکیلے نہیں بلکہ اپنے جوان بیٹوں کو ساتھ لئے بہادروں کی طرح ڈٹے رہے،وہ جو گولیوں کی بوچھاڑ میں سینہ تان کر اپنے قائد کی دکھائی گئی منزل کی جانب بڑھتے رہے ، انہیں کمزور نہیں بلکہ جاں نثار کہا جاتا ہے اور جاں نثار بھی ایسے جو ظلم و بربریت کی بھٹی سے کندن بن کرنکلے۔ ایسے جانثاروں کی صورتیں اور شکلیں اگر کسی نے دیکھنی ہوں تو اسلام آباد میں تحریک انصاف کے دھرنے میں جا کر دیکھ لے، ہر طرف قربانیوں کی لا زوال داستانیں نظر آئیں گی، لیکن اگر کل کو انتخابات ہوں اور ان لوگوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے کہ یہ کمزور ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کمزور یہ نہیں بلکہ آپ ہیں۔آپ کی فیصلہ کرنے کی قوت کمزور ہے۔ آپ کی، اپنی جماعت کے لوگوں کو پرکھنے اور جانچنے کے بعد انہیں اپنا کہنے، کی صلاحیت کمزور ہے؟۔
پاکستان بھر سے تحریک انصاف کے جو کارکن اسلام آباد دھرنے میں مسلسل 75 دنوں تک شریک رہے، آج پارٹی میں نئے آنے والوں سے خوف زدہ ہونے کی سوچ ان کے قریب بھی نہیں پھٹکنی چاہیے کیونکہ اگر وہ اس خوف میںمبتلا ہوتے ہیں تو یہ اپنے قائد پر عدم اعتماد کے مترادف ہے ۔ہر سیا سی جماعت میں موقع پرستوں اور ہوا کا رخ دیکھ کر شامل ہونے والوں کی پھرتیاں اور کارستانیاں سالہا سال سے دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ سب نے دیکھا ہے کہ اپنی جماعت اور لیڈر سے مسلسل وفاداری نبھانے والوں کو اس قسم کے لوگ مکھن سے بال کی طرح باہرنکال کر ایک کونے میں پھینک دیتے ہیں، اس لیے اس وقت تحریک انصاف میں بہت سے لوگوں کا ڈر اور خوف بجا ہے۔ عمران خان کے بھی علم میں ہو گا اور ہم بھی جانتے ہیں کہ ان کے قریب رہنے والے بہت سے لوگوں نے 2013 ء میں حق داروں کا حق اس طرح مارا کہ وہ لوگ جو قائد پر بھروسہ رکھتے تھے، دیکھتے ہی رہ گئے ۔
2013ء کے عام انتخابات میں ،کسی شک و شبہ کے بغیر، کہا جا سکتا ہے کہ بد ترین دھاندلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے گئے لیکن ساتھ ہی بہت سے انتخابی حلقے ایسے بھی تھے جنہیںاس وقت چھلانگیں لگا کر تحریک انصاف میں گھسنے والوں نے کامیابی سے محروم کر دیا۔ اگر اس سلسلے میں ننکانہ کے حلقہ این اے137 کی مثال سامنے رکھیں تو ایک سابق رکن اسمبلی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور
وہ بھی اسی حلقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار بن گئے۔ اب اگر وہ سچے دل سے تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی نیت سے شامل ہوئے ہوتے تو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر انہیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے اپنی ہٹ دھرمی سے ثابت کر دیا کہ انہیں نہ تو تحریک انصاف کی عزت سے سروکار ہے اور نہ ہی اس کے قائد عمران خان کا ذرا سا بھی احترام ان کے دل میں ہے۔ اسی طرح کے بہت سے حضرات پھر ان لوگوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں ،جو اپنا گھر بار ، اپنا کاروبار چھوڑ کر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگوں سمیت دھرنے میں شریک رہے اور موسم اور حکومت وقت کی سختیوں کو برداشت کرتے رہے۔ انہیں اگر یہ ذرا سابھی محسوس ہو کہ ان کی قربانیوں کو مصلحتوں یا بڑے ناموں پر قربان کر دیا جائے گا تو یہ اس سوچ کی شکست ہو گی جو عمران خان نے پارٹی کے مخلص لوگوں کیلئے اپنے ذہن میں بسائی ہوئی ہے۔ نئے آنے والوں کو تحریک انصاف میں پہلے سے موجود لوگوں کو بھی خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے اور کسی کی مخالفت برائے مخالفت بھی
نہیں کرنی چاہیے۔ نئے آنے والوں کو بھی عزت و احترام دیا جائے۔ اگر وہ آپ کے شانہ بشانہ چلنے کی نیت سے آئے تو بہت جلد ان کا کردار سامنے آ جائے گا اور اگر بغیر محنت پھل کھانا ان کا مقصد وحید ہو گا تو بہت جلد وہ بے نقاب ہو جائیں گے۔
تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی ثابت قدمی اور اس ملک کے کچلے ہوئے غریب عوام کے دکھوں کا شدید احساس انہیں دوسری سیا سی جماعتوں کے سربراہان سے ممتاز کرتا جا رہا ہے۔ ملک کی ہر گلی اور کوچے میں، ایک کونے سے دوسرے کونے تک بکھرے ہوئے دیہات اور چکوک میں اور سندھ کی دور دراز گوٹھوں میں زندگی کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کو ترستے ہوئے عوام کو، جو نہ جانے کتنے سالوں سے کسی مسیحا کی راہ دیکھ رہے تھے، عمران خان کی شکل میں اپنا نجات دہندہ نظر آنے لگا ہے۔ میڈیا کے بے لوث تعاون سے عمران خان کی آواز جیسے جیسے کچے پکے ڈھاروں ، ہر چھوٹے بڑے گھر اور ہر جھونپڑی تک پہنچنا شروع ہوئی ہے ،ان پسے ہوئے لوگوں کو ان کی آواز میں خلوص اور سچائی کی خو شبو محسوس ہونے لگی ہے اور ان کو عمران خان میں اپنی آخری امیدچمکتی دکھائی دینے لگی ہے۔ اب ان مفلوک الحال لوگوں کا یقین اور اعتماد عمران خان پر قرض ہے ...اورقرض تو راہِ خدا میں شہید ہونے والوں کا بھی معاف نہیں ہوتا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں