ریشم بنانے والا کیڑا روزانہ صبح، وقت سے بھی پہلے اپنے کام میں مصروف ہوجاتا اور شام ڈھلے تک پوری توجہ اور محنت صرف اپنے کام پر مرکوز رکھتا ہے۔ مجال ہے جو ایک منٹ کے لیے بھی وہ فارغ بیٹھتا یا دوسروں کے ساتھ گپ شپ کی کوشش کرتا ہو۔ دوران کار اسے سوائے محنت کے، کسی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس کے لیے خوشی کی بات صرف یہی ہوتی ہے کہ آج اس نے کل سے کتنا کام زیا دہ کیا ہے۔ جنگل کا بادشاہ سلامت یعنی شیر ان کے علاقے کے دورے پر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بغیر کسی کی ہدایت اور نگرانی کے، ریشم بنانے والا یہ ننھا سا کیڑا کس طرح اتنی مقدار میں ریشم تیار کر رہا ہے؟ بادشاہ سلامت نے سوچا کہ اگر یہ اکیلا ہی بغیر کسی کی سپر ویژن کے اس قدر ریشم بنا لیتا ہے تو اگر اس پرایک اچھا سا سپر وائزر لگا دیا جائے جو اسے سمجھاتابھی رہے، تو یہ اس سے بھی عمدہ اور زیادہ مقدار میں ریشم کی پیداوار دے سکتا ہے۔ اسی وقت بادشاہ سلامت نے حکم صادر فرمایاکہ اس ریشم کے کیڑے کے اوپر شہد کی مکھی کو بطور سپر وائزر مقرر کر دیا جائے۔ انتظامیہ نے اسی وقت شہد کی مکھی کو نگران تعینات کر دیاجو بطور سپر وائزر اور اپنے کام کے سلسلے میں بہترین رپورٹنگ کرنے کی ماہر سمجھی جاتی تھی۔
شہد کی مکھی نے اگلی صبح جب چارج سنبھالا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ یہاں پر تو ڈیوٹی کے اوقات ہی نہیں ہیں، جس پر اس نے فوری طور پر وہاں کام کے اوقات کا رجسٹر رکھ دیا تاکہ بادشاہ وقت کے مقرر کر دہ اوقات کارکے مطا بق فرائض کی ادائیگی کی جا سکے۔ چند دن بعد شہد کی مکھی نے متعلقہ وزیر کو ایک سمری بھیجی جس میں اس
نے اپنے لیے ایک سیکرٹری مانگ لیا جو ٹائپ رائٹر کا استعمال اچھی طرح جانتا ہو، ساتھ ہی ایک علیحدہ درخواست میں اپنے لیے ایک علیحدہ دفتر اور وہاں ٹیلیفون سمیت کچھ دوسرادفتری سامان مہیا کرنے کا کہا۔ درخواست منظور کرتے ہوئے خرگوش کو اس کا سیکرٹری تعینات کر دیا گیا جو دفتری ریکارڈ کو اکٹھا کرنے اور اپنے باس کی فون کالز سمیت ٹائپنگ میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ایک ماہ بعد شہد کی مکھی نے ریشم کے کیڑوں کے متعلق ایک رپورٹ بادشاہ کو بھجوائی جسے دیکھ کر وہ بہت ہی خوش ہوا اور شہنشاہِ جنگل نے فائل پر شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ وہ آئندہ رپورٹ بھیجتے ہوئے باقاعدہ ایک گراف تیار کرے جس میں سابقہ اور حالیہ پروڈکشن کی رفتار کے ساتھ ساتھ ریشم کے استعمال بارے عوام کے رجحانات کی نشاندہی بھی کرے، تاکہ اگر کل کو اس کے بارے میں بورڈ کی میٹنگ ہو تو اس میں شہد کی مکھی کو، جنگل کے ریشم بنانے والے اس حصے کے انچارج کے طور پر، مکمل معلومات ہوں۔ساتھ ہی بادشاہ نے اسے سپروائزر سے مینیجر کے عہدے پر ترقی دے دی۔ اپنے کام کے سلسلے میں مرضی کا سٹاف بھرتی اور جب چاہے دس لاکھ روپے تک بغیر کسی کی منظوری کے دفتری سامان خریدنے کا اختیار بھی دے دیا۔
مینیجر کی حیثیت سے ترقی پانے اور دوسرے اختیارات ملنے پر شہد کی مکھی نے دفتر کے لیے ایک کمپیوٹر اورلیزر پرنٹر خرید لیا اور ان کو استعمال کرنے کے لیے آئی ٹی سپیشلسٹ کے طور پر بلی کو بھرتی کر لیا۔ ایک طرف دھڑا دھڑ نئی بھرتیاں اور نت نئے قاعدے قانون بنائے جا رہے تھے تو دوسری طرف ریشم تیار کرنے والا کیڑا یہ سوچ
سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ ان فضول قسم کے دفتری کاموں پر اس کا وقت کیوں برباد کیا جا رہا ہے ؟وہ ریشم کا کیڑا جو وقت سے پہلے اپنا کام شروع کرتا اور شام ڈھلے کام بند کرکے آرام کرتا تھا، اب اس پر وقت کی پابندیاں عائد کر دی گئیں اور دن میںکئی کئی بار اسے بغیر کسی مقصد کے میٹنگز کے نام پر بلایا جانے لگا۔اسے افسوس بھی ہوتا تھا کہ اس کام کے لیے کسی اور کی ضرورت ہی نہیں تھی پھر قوم کا لاکھوں روپیہ کیوںبرباد کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب جنگل کے بادشاہ شیر نے فیصلہ کیا کہ ریشم کے کیڑے کی سائٹ پر اس وقت سٹاف چونکہ زیا دہ ہو گیاہے، اس لیے وہاں اب باقاعدہ ایک جنرل مینیجر تعینات کر دیا جائے، بادشاہ نے سوچا کہ کسی بہت ہی تیز اور عقلمند کو وہاں بھیجا جائے۔چنانچہ چند دن بعد بندر کو بطور جنرل مینیجرتعینات کر
دیا گیا۔اپنی تعیناتی کے فوری بعد بندر نے حکم دیا کہ اس کے لیے ایک نیا دفتر جس میں ائیر کنڈیشنڈ نصب ہو تیار کیا جائے۔ جب یہ دفتر تیار ہو گیا تو بندر نے حکم دیا کہ اس کے لیے ایک ایگزیکٹو میز اور گھومنے والی آرام دہ کرسی بھی مہیا کی جائے ۔چند دن بعد جنرل مینیجر نے شہد کی مکھی کو جو بطور مینیجر وہاں کام کر رہی تھی حکم دیا کہ اس کے لیے ایک نیا کمپیوٹر اور نئے سیکرٹری کا بندو بست کیا جائے، جسے فنانس کے علا وہ بجٹ بنانے کا بھی کچھ تجربہ ہو۔سٹاف بڑھتا گیا اور وہ جگہ جہاں ریشم کے کیڑے کی ہر وقت اپنے کام کی طرف توجہ ہوتی تھی اب ایک کلب کی صورت اختیار کر چکی تھی اور دوسری طرف پیداوار اس حد تک کم ہو تی جا رہی تھی کہ لگتا تھا یہاں اب کوئی کام ہی نہیں کرتا۔ بادشاہ کی ایک ٹیم نے جب یہ صورت حال دیکھی تو اس نے وہاں پر موجود شہد کی مکھی اور بندر کو سخت ڈانٹ پلائی۔ ان کے جانے کے بعد مکھی نے بندر سے کہا کہ اب کچھ کرنا چاہئے ورنہ ان کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ اس علاقے کی اہمیت کو مزید بڑھانے کے لیے شہد کی مکھی اور بندر نے بادشاہ سے درخواست کرتے ہوئے کہا ،اس سارے علاقے کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ یہاں کے تمام حصوں سے متعلق ماحولیات اور آب و ہواکے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ لیا جائے تاکہ یہاں پر نئے محکمے قائم کئے جا سکیں۔بادشاہ کے پاس جب یہ سمری پہنچی، وہ کمیٹی کی رپورٹ پڑھنے کے بعد فیصلہ کررہا تھا کہ ریشم کا کیڑا سست کیوں ہو گیا اور اب اس کی پیداوار میں اس حد تک کمی کیوں ہو چکی ہے۔بادشاہ نے الو کو بلوابھیجا جو اپنی شہرت اور نیک نامی کی وجہ سے مشہور تھا۔ بادشاہ نے اسے خصوصی طور پر حکم دیاکہ وہ وہاں جائے اور آڈٹ رپورٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ پہلے جیسی پیداواری صلاحیت پیدا کرنے کے لیے جامع رپورٹ بھی تیار کرے۔
کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ''الو‘‘ تین ماہ تک وہاں مقیم رہا اور پھر اس نے بادشاہ کو جو رپورٹ دی ،اس میں لکھا تھا کہ ریشم کی پیداوار میں کمی کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہاں پر سٹاف کی تعداد بہت زیا دہ ہو چکی ہے، اس لیے وہاں کام کو تیز کرنے اور اخراجات کم کر نے کے لیے ملازمین کی تعداد کو کم کرنا پڑے گا اور وہاں پر غیر تربیت یافتہ لوگوں کی بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بھرتی کرنا پڑے گا جو جدید قسم کی فنی تعلیم سے بخوبی واقف ہوں اور جنہیں انگریزی پر مہارت ہو تاکہ وہ ریشم کے بارے میں بین الاقوامی ماہرین کی لکھی ہوئی کتابوں کو آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکیں۔ بادشاہ سلامت نے یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد فوری طور پروہاں سے سٹاف کم کرتے ہوئے '' ریشم کے کیڑے‘‘ کو گولڈن شیک ہینڈ دینے کا حکم جا ری کر دیا۔یہ تو ایک فرضی کہانی تھی، لیکن کیا یہ سب ہمارے معاشرے میں نہیں ہو رہا؟ ترقی کی راہ میں اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے معاشرے کے وہ ''ذہین‘‘ مشیر ہی تو ہیں جن کے غلط مشوروں سے ہم اس حال کو پہنچے ہیں۔ذرا سوچئے!