"MABC" (space) message & send to 7575

درخشاں بھارت؟

15 جنوری 2015ء کو بھارتی حکومت نے دنیا بھر کو ایک بار پھر اپنی مصنوعات کی جانب متوجہ کرنے کیلئے ٹریڈ سمٹ کے نام سے گجرات میں ایک بڑا شو کیا‘ جس میں امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے خصوصی طور پر شرکت کی‘ جسے اب نریندر مودی کی حکومت درخشاں بھارت کا نام دے رہی ہے۔ بھارت کی مصنوعات کا عالمی معیار کیا ہے اور یہ کس حد تک درخشاں بھارت ہے اس کا پتہ چلانے کے لیے بھارت کی صرف فارماسیوٹیکل انڈسٹری پر ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے‘ امریکہ کی کمشنر فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر مارگریٹ اے ہیمبرگ ہنگامی دورے پر بھارت پہنچیں اور وزارت صحت کے حکام اور بھارتی حکومت کو ان کی امریکہ میں بھیجی گئی بے شمار ادویات کے لیبارٹری ٹیسٹ اور ان کے تحقیقی نتائج دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر آپ کی حکومت نے امریکہ ایکسپورٹ کی جانے ان بے شمار جعلی ادویات کے عمل کو نہ روکا‘ تو پھر امریکہ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جائے گا کہ وہ بھارت سے ادویات کی درآمد پر پابندی عائد کر دے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکی انتظامیہ جعلی ادویات بھیجنے کے جرم میں بھارتی حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں امریکہ کو ادویات سپلائی کرنے والی آدھی سے زیادہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو حتمی وارننگ خط بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔ بھارتی حکومت کو اس وقت سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ اگر جرمانوں اور وارننگ دینے کا سلسلہ اسی طرح جاری 
رہا تو بھارت کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری بیٹھ جائے گی۔ بھارت کی تیار کردہ ادویات امریکہ میں استعمال ہونے والی جنرل ادویات کا 40 فیصد ہیں‘ جن میں جنرک ناموں والی چند اہم اور ضروری ادویات بھی شامل ہیں۔ امریکہ کے ایف ڈی اے کی تحقیقی رپورٹ کے بعد بھارت کی ایک بہت بڑی فارماسیوٹیکل کمپنی ''Ranbaxy'' کو 500 ملین ڈالر جرمانہ بھی کیا جا چکا ہے‘ جو اب تک ادویات بنانے والی کسی بھی کمپنی کو کیا جانے والا سب زیادہ جرمانہ ہے۔ بھارت کی ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کے ایک ٹاپ ڈرگ ریگولیٹر جی این سنگھ نے بھارتی اخباروں کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ اگر امریکہ کی تحقیقاتی ٹیموں کا معیار یہی رہا تو ہمیں بہت بڑی مصیبت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ جو ادویات امریکہ نے بلیک لسٹ کر دی ہیں‘ ان کے تیارکردہ سٹاک ہمارے سٹورز میں پڑے ہیں‘ جو اس جرمانے سے کئی گنا زیادہ مالیت کے ہیں‘ جو امریکہ نے ہم پر عائد کیا ہے اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے مطلوبہ معیار کے مطابق فارماسیوٹیکل کمپنیاں چلانا ہمارے لئے تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
امریکہ کی کمشنر فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر مارگریٹ اے ہیمبرگ سے بھارت کی چوٹی کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے سربراہان نے ایک نجی ملاقات میں گزارش کی کہ جو ادویات وہ تیار کرتے ہیں‘ انہیں بھارت سے برآمد کی اجازت دی جائے‘ لیکن ڈاکٹر مارگریٹ نے سختی سے انکار کر دیا۔ بھارت کی ادویہ ساز کمپنیوں کیلئے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اس وقت بھارت کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری سالانہ 15 بلین ڈالر کی ادویات برآمد کرتی ہے اور بھارت کی کچھ میڈیسن فیکٹریوں کا معیار مغربی ممالک کی کمپنیوں سے بھی بہترہے؛ چنانچہ انہیں یہ ڈر کھائے جا رہا ہے کہ اگر بدنامی بڑھتی گئی اور بھارت کی ادویات پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئیں تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔ حسب معمول بھارتی میڈیا اور کچھ سیاستدانوں کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس بدنامی میں پاکستان یا چین کا ہاتھ ہے۔ جب یہی بات بھارت کے وزیر صحت نے ڈاکٹر مارگریٹ کے سامنے کی تو انہوں نے ''ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘‘ کی جاری کردہ ایک رپورٹ بھارتی حکومت کے سامنے رکھ دی‘ جس کے مطابق بھارت میں تیار کی جانے والی ہر پانچ ادویات میں سے ایک کو جعلی قرار دیا گیا تھا۔
بھارتی اپنی ہر غلطی یا دنیا کے کسی بھی کونے میں کی جانے والی ان کی جعل سازیوں کے طشت از بام ہونے کا الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں‘ لیکن بھارتیوں کو دل تھام کر بیٹھنا چاہیے کہ بھارتی جعل سازیوں کے بارے میں سروے رپورٹس بھی موجود ہیں۔ 2010ء میں بھارت میں دہلی فارمیسیز کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق بھارت کی تیارکردہ ادویات کے حاصل کردہ نمونوں کا لیبارٹری تجزیہ کیا گیا‘ تو پتہ چلا کہ ان میں بارہ فیصد جعلی ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے چلڈرن ہسپتال میں مہیا کی جانے والی جعلی ادویات سے گزشتہ دو سالوں میں سینکڑوں بچے ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس خبر کو پورے بھارت میں پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ درخشاں بھارت کی حکومت کی سفاکیت ملاحظہ کریں کہ اس لیبارٹری رپورٹ کو پورے ایک سال تک یعنی اس وقت تک خفیہ رکھا گیا جب تک ایک لاکھ سے زیادہ یہ گولیاں استعمال نہیں کرا دی گئیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ درجنوں ادویات غیر معیاری ہیں۔ ان میں بچوں کو لگائے جانے والے انتہائی ضروری ''اینٹی بائیوٹک‘‘ انجیکشن بھی شامل ہیں۔ مقبوضہ کشمیر یونیورسٹی کے سینئر اسسٹنٹ پروفیسر آف فارماکولوجی 
ڈاکٹر ایم اسحاق گیر نے ایک سیمینار میں یہ کہتے ہوئے لنکا ہی ڈھا دی کہ جعلی ادویات پورے بھارت میں تیار کی جا رہی ہیں۔ ان میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں‘ جو حاملہ خواتین کو سرجیکل عمل سے پیدا ہونے والی انفیکشن کے علاج کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
بھارتی فارماسیوٹیکل الائنس کے صدر ستیش ریڈی کا ایف ڈی اے کی اس رپورٹ کے چند ماہ بعدکہنا ہے کہ اب ہماری ادویات کا معیار بہت ہی بہتر ہو چکا ہے... بھارت کی سب سے بڑی فارماسیوٹیکل انڈسٹری CIPLA کے پورے بھارت میں چالیس پلانٹ ہیں اور یہ سالانہ21 بلین کیپسول اور ٹیبلٹس تیار کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا گوا میں کام کرنے والا پلانٹ معیار کے لحاظ سے کسی بھی طرح امریکہ کی فارماسیوٹیکل کے کسی بھی پلانٹ سے کم نہیں‘ جو اپنے ہر پلانٹ پر ایف ڈی اے کے معیار کو برقرار رکھتا ہے۔ یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے‘ اس کا جلد پتہ چل جائے گا‘ تازہ خبر یہ ہے کہ بھارت کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے بعد امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈ منسٹریشن نے بھی نریندر مودی کے 'درخشاں بھارت‘ کی سول ایوی ایشن کی رینکنک میں اس بنا پر کمی کر دی کہ اس کے کنٹرولنگ سٹاف کی تعداد عالمی پالیسی کے مطا بق بہت ہی کم ہے، اس کے بعد گلوبل سیفٹی گروپ نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں بھارت کی تیارکردہ مشہور نام کی چھوٹی گاڑیوں کو بھی ''غیر محفوظ‘‘ قرار دے دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں