"MABC" (space) message & send to 7575

یمن کے شعلے

کہا جاتا ہے کہ شاہ عبد العزیز نے اپنے بیٹوں کو دو نصیحتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپس میں ہمیشہ اتفاق رکھنااور یمن سے ہر وقت محتاط رہنا کیونکہ آل سعود کی بادشاہت یمن سے ہمیشہ خطرے میں رہے گی ۔ 1962ء میں مشرق وسطیٰ میں مصر کے جمال ناصر کے انقلاب کا جب طوطی بول رہا تھا اور بغداد سے صنعا تک اس کی شخصیت کا جادو طاری تھا‘ اس کی خواہش تھی کہ اپنے انقلاب کو پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلا دیا جائے۔ 1956ء میں اردن عملی طور پر ناصر کے حلقہ اثر میں آ چکا تھا۔ 1958ء میں جب بغداد کی بادشاہت کا بھی خاتمہ ہوگیا تو جمال ناصر نے مصر سے شام تک عرب یونین( پان عرب ایمپائر) قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اسی ارادے سے اس نے 1960ء میں یمن میں اپنی فوجیں داخل کر دیں۔ اس وقت سعودیہ میں شاہ سعود حکمران تھے۔ ان کا اسی وقت ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے یمن کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران جمال ناصر کی جان لینے کیلئے ایک حملہ بھی ہوا لیکن وہ ناکام رہا۔یمنی فوج کے افسروں کے ایک گروپ نے مصر کی خفیہ ایجنسیوں کی مد د سے صنعا میں بغاوت کرا دی اور وہاں سے بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔ اس وقت امام محمد البدر نے شمالی یمن کے پہاڑی علا قوں میں اپنے ٹھکانے بناتے ہوئے زیدی شیعہ قبائل کے ساتھ گوریلا مزاحمت شروع کر دی۔ اب شاہ سعود کو صاف نظر آ رہا تھا کہ اگر مصر یمن میں کامیاب ہو گیا تو خلیج فارس کی حاکمیت کے بعد اس کا اگلا نشانہ سعودی عرب ہو گا کیونکہ بادشاہت کی مخالف مصر اور یمن کی انقلابی فوجیں کسی بھی وقت اس کی جانب بڑھ سکیں گی‘ اس لیے شاہ سعود نے ہتھیاروں اور سونے کے انبار امام محمد البد رکے حوالے کرنے شروع کر دیئے۔۔۔۔اور پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 1967ء میں اسرائیل اچانک مصر پر حملہ آور ہو گیا اور صرف 6 دن کی اس جنگ میں جمال ناصر کے پائوں اکھڑ گئے۔
آج تاریخ ایک بار پھر پچاس سال پیچھے کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہی زیدی قبائل ہیں‘ جو مصر کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے اور وہی سعودیہ اور اس سے ملحق وہی پہاڑی علا قہ ہے ۔ سعودیہ سے ملحق یمن کا یہ شمالی علا قہ جہاں سے حوثی قبائل گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں‘ افغانستان کی مانند طویل غاروں ، اونچے نیچے پتھریلے راستوں اور بلند و با لا پہاڑوں کے پیچ در پیچ تنگ سلسلوں کا ایک انتہائی مشکل اور دشوار گزار حصہ ہے۔ یمن کے شمالی حصے سے ملحق باقی سرحد پر تو سعودیہ کا پورا کنٹرول ہے لیکن نجران کا سرحدی علاقہ ڈیورنڈ لائن جیسا ہے‘ جہاں سے یمن اور سعودیہ سے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور یہیں سے 1990ء سے حوثی اپنی گوریلا جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یمن کی آبادی یہودیوں‘ ہندوئوں‘ بہائی‘سنی شافعی مسلم اور زیدی شیعہ مسلم پر مشتمل ہے۔ زیدی شیعہ مسلم یمن کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں۔ یہ سعودی عرب کی سرحد سے متصل شمالی یمن میں آباد ہیں۔ زیدی شیعہ امام ابو حنیفہ کی پیروی کرنے والے ہیں۔ ان کے بعد یمن کی آبادی سنی شافعی مسلمانوں کی ہے۔ آج یمن میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے تیس سالوں کی محرومیاں ، بے پناہ غربت اور افلاس کارفرما ہے۔ بہت سال پہلے یمن میں حوثی قبائل نے شباب المومنین کی شکل میں ایک مذہبی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ جب 2004ء میں ''عرب بہار‘‘ شروع ہوئی تو اس کو با قاعدہ ایک سیا سی تحریک کی شکل دے دی گئی۔ یمن کے لوگوں کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ جب ہمارے پاس سعودی عرب اور امارات جتنا ہی تیل کا ذخیرہ ہے تو ہمیں اپنے ملک سے تیل نکالنے کی اجا زت کیوں نہیں دی جا تی؟ ہم پر ایسے حکمران کیوں مسلط کر دیئے جاتے ہیں جو دوسرے ممالک کی دھمکیوں اور دبائو پر ہمیں تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک کی صف میں شامل ہونے سے روکتے ہیں ؟ ان کا شکوہ ہے کہ ہم سے چند قدم دور دولت اور دنیا بھر کی ہر نعمت کے دریا بہہ رہے ہیں لیکن ہم لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے ترس رہے ہیں۔ یمن کا تیل ہمارا ہے تو ا س پر ہمارا حق کیوں نہیں؟ یمن‘ جس کے نیچے تیل کے کبھی نہ ختم ہونے والے بے پناہ ذخائر ہیں‘ اس قدر قلاش کیوں ہے؟
پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد سعودی عرب کے دو روزہ دورے سے واپس آ چکا ہے۔ یہ دورہ تو محض منہ دکھائی تھا‘ ورنہ جو کرنا تھا اس کا فیصلہ مبینہ طور پر کب کا ہو چکا۔ اس کے بارے میں سب سے پہلے عرب میڈیا نے آگاہ کیا اور پھر سی این این نے تہلکہ خیز خبر دی کہ مبینہ طور پر پاکستان کی ایئر فورس کے ہوائی جہاز یمن کے حوثی قبائل کو کچلنے کیلئے بھیج دیئے گئے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر پاکستان کے نیول اور ایئرچیف سے ہونے والی وزیراعظم نواز شریف کی ملاقاتیں اور ایئرچیف کا خلیج کا دورہ بے معنی نہیں تھا۔ اوریہ سب کچھ اس وقت کیا جا رہا ہے‘ جب وزارت خارجہ کے مطا بق تین ہزارسے زائد پاکستانی یمن میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہاں سے کسی نہ کسی طرح نکلنے کی کوششوں کے لیے واویلا کر رہے ہیں۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ پاکستان حوثیوں کو کچلنے کی تیاریاں کر رہا ہے اس کے با وجود انہوں نے یمن سے پانچ سو افراد کے ایک قافلے کو بہ حفاظت پاکستان پہنچا دیا لیکن جب سے پاکستانی جہازوں اور فوج کی
خبریں باہر آئی ہیں ان کا رویہ تبدیل ہونے لگا ہے۔
جب عراق میں ا ﷲ کے پیارے نبیوں حضرت یونس علیہ السلام،حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت اویس قرنیؓ جیسے بزرگوں کے مزارات مقدسہ کو داعش کے لشکر کے ہاتھوں تباہی کا سامنا تھا تو اس وقت کسی کا ایمان کیوں نہیں جاگا۔۔۔۔ اور اب امریکہ نے ان زیدی شیعہ مسلمانوں کو‘ جوا پنے ہی ملک کے تیل کے ذخائر سے مستفید ہونا چاہتے ہیں‘ تہہ تیغ کرنے کیلئے مصر پر دو سال سے فوجی اسلحہ مہیا کرنے کی جو پابندیاںعائد کی ہوئی تھیں یک لخت اٹھا لی ہیں۔ صورت حال یک لخت تبدیل ہونے لگی ہے۔ پاکستان اس وقت ایک بہت بڑی فوج بھیجنے کے خلاف ہے۔ یہ لوگ اس کی کئی وجوہ بیان کر رہے ہیں۔
آج چند لوگوں کے دلوں میں بہت درد اٹھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج غزہ کے سینکڑوں معصوم بچوں کو ذبح کر رہی تھی تو اس وقت مسلم ممالک کی فوجیں کدھر تھیں؟ اس وقت ان مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے دل ان معصوم مقتولین کی طرف کیوں نہیں گئے؟ اور جب عراق میں داعش اپنے مفتوحہ علا قوں میں دس سال سے زائد بچیوں اور لڑکیوں کو مال غنیمت سمجھ کر بھنبھوڑ رہے تھے‘ اس وقت غیرت ایمانی کہاں تھی؟ اور آج حوثی چاہے کسی بھی فرقے کے مسلمان ہوں ان کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ایک چہرہ مصر کے فوجی حکمران جنرل السیسی کا بھی شامل ہے جس پر امریکہ نے اپنی ہی دو سال سے لگائی گئی فوجی امداد کی پابندی کویک دم اٹھا لیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں