چیئرمین سینیٹ رضا ربانی فرماتے ہیں کہ اگر اٹھارہویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو یہ ملک کیلئے تباہ کن ہو گا؟ ان کا فرمانا ہے کہ یہ ترمیم میری کوششوں سے تیار اور منظور ہوئی اس لئے میں اس کی ہمیشہ حفاظت کروں گا۔ ہم جناب رضا ربانی کو یاد کراتے ہیں کہ اسی ترمیم کے صلے میں ہی تو آپ کو سینیٹ کی چیئر مین شپ سے نوازا گیا ہے۔ 19 کروڑ کی آبادی میں سے کتنے لوگوں کو 18 ویں ترمیم یا آئین میں وقفے وقفے سے کی جانے والی دوسری ترامیم کے بارے میں علم ہے؟ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے دیہات اور قصبوں میں رہنے والوں کو تو چھوڑیں، سوشل میڈیا پر دھوم مچانے والی چھوٹی سی فلم سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، اسے دیکھیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔ صحافیوں نے اسمبلی کے اجلاس سے باہر آنے والی حکمران جماعت کے اراکین سے جب پوچھا کہ ابھی جس بل کی ترمیم کی آپ منظوری دے کر آئے ہیں، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو یقین کیجئے کسی ایک کو بھی علم نہیں تھا کہ اس نے کس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر میڈیا کے کیمروں سے جان چھڑائی کہ خادم اعلیٰ کا حکم تھا، اس کی تعمیل کرتے ہوئے ہم ہاتھ کھڑے کر کے آ گئے ہیں۔
انیس کروڑ کی آبادی میں سے کتنے ہوں گے جنہیں ملک میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز اور ان کے اتحادیوںکی باہمی رضا مندی سے آئین میں کی جانے والی اس 18 ویں ترمیم کے ذریعے نواز لیگ اور پی پی پی کو حاصل ہونے والے فوائد اور ملک و قوم کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا علم ہو گا؟ اگر ان میں سے دس کروڑ افراد کو علم ہو جائے کہ ان کے نام کی آڑ لے کر میں ملک کے ساتھ ''دو کے ٹولے‘‘ نے کیا کھیل کھیلا ہے تو شاید ان میں سر پکڑ کر رونے کی ہمت بھی نہ رہے۔ یہ سب اس لندن پلان کے تحت کیا جا رہا ہے جس پر ان سے دستخط کروائے گئے تھے ۔ سچ اور حقیقت سامنے آ نی چاہئے کہ لندن میں ان دونوں جماعتوں کے مابین طے پانے والا میثاق جمہوریت ایک طے شدہ منزل اور مقصد کی جانب سفر کے سوا کچھ نہیںتھا۔ میثاق جمہوریت سے مستفید ہونے والے دونوں جماعتوں کے لیڈر اپنے مشن کی تکمیل کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں اور ان کا یہ سفر پاکستان کی فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن ہے ۔
اٹھارہویں ترمیم ملکی خزانوں کو مختلف ناموں سے اپنے ہاتھوں میں رکھنے کیلئے کی گئی۔ چند روز قبل خیبر پختونخوا کی تمام جماعتیں، سوائے مسلم لیگ نواز کے، اسلام آباد میں دھرنا دینے کیلئے جمع ہوئیں جس کی وجہ یہی آئینی ترمیم ہے۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئین میں ایک کانٹا چبھو دیا گیا ہے جس کی نوک عوام کو ہمیشہ چبھتی رہے گی۔
اس ترمیم کا پس منظر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیا دت اپنے گزشتہ پانچ سالہ دور میں اچھی طرح جان چکی تھی کہ اس کے اقتدار کے یہ آخری دن ہیں۔ میثاق جمہوریت کے پس پردہ طے کئے جانے والے فارمولے کے تحت انہیں صرف سندھ کی حکومت ہی اگلے پانچ سال کیلئے ملے گی۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پنجاب حکومت کا وہ بہت بڑا کیک جو اپنے دور حکومت میں آصف علی زرداری نے نون لیگ کو دیا تھا وہ چاہتے ہیں کہ اس سے خود بھی سندھ حکومت کے حصے کے طور پر اب اور پھر اگلے پانچ برسوں کیلئے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اس ترمیم کے تحت30 مارچ2011ء کوبہت سی وفاقی وزارتیں رائٹ سائزنگ کے نام پر کباڑ خانے میں پھینک دی گئیں لیکن پھر پلٹا کھا کر اسی سال 30 جون کو ان وزارتوں کی تعداد مختلف ناموں سے صوبوں میں دگنی کر دی گئیں۔ مثلاََ وزارت کلچر کو ہی لے لیجئے جس کےUNESCO سے ایک سو سے زیا دہ اور دنیا بھر کی درجنوں مختلف آرگنائزیشنز سے کئی معاہدے ہو چکے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ مرکز کی اس وزارت کو کباڑ میں پھینک کر صوبوں میں منتقل کر دیا جائے تاکہ سندھ کے موہنجواڑو اور پنجاب میں لوک ورثہ کے نام پر ملنے والے تمام فنڈز پر ہاتھ صاف کئے جا سکیں۔ قومی ورثہ کے فنڈز کے بارے میں مزید کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ قومی ورثہ (National Heritage) کے نام پر دنیا بھر سے کتنے فنڈز ملتے ہیں۔ وزارت صحت، تعلیم اور زراعت کو مرکزسے ختم کرتے ہوئے صوبوں کے حوالے کر دیا گیا۔ صوبوں کے حکمران اپنی مرضی سے، اپنے خاندان کی تعریف میں لکھی جانے والی کتابیں نصاب کا حصہ بناتی جا رہے ہیں۔ تعلیم کی وزارت صوبوں کے حوالے کرنے سے بڑا ظلم ہوا۔اگر سندھ ،کے پی کے اور بلوچستان سے نقل مکانی کرکے یا سرکاری ملازم تبادلہ ہونے پر دوسرے صوبے میں جائے تو اسے بچوں کی تعلیم کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی کیونکہ ملک کے جس حصے میں بھی جائیں نصاب ایک ہی ہوتا تھا، لیکن اب ہر صوبے کا نصاب مختلف ہو چکا ہے۔ جہاں تک میثاق جمہوریت کی بات ہے تو کون نہیں جانتا کہ یہ مذاق کیوں اور کس کے مفاد کے لئے کیا گیا۔ آج برسوں بعد بھی اس معاہدے کے نشتر اس قوم کے سینے میں چبھتے محسوس ہوتے ہیں جس کے تحت سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کو اقتدار میں رکھنے اور لوٹ مار کرنے کے لئے تاریخی موقع فراہم کیا۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبد المالک نے 6 مارچ2015ء کو بلوچستان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے صوبے میں جرائم، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری سوئی سدرن گیس کمپنی، پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت بلوچستان سے نکلنے والی گیس کے پچاس فیصد پر ہمارا حق ہے اور باقی پچاس فیصد مرکز کو مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بلوچستان اسمبلی نے ایک قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کا مرکزی دفتر فوری طور پر کراچی سے کوئٹہ منتقل کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے فخریہ انداز میں اسمبلی کو بتایا کہ میں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ او جی ڈی سی ایل کو بلوچستان میں کسی بھی جگہ گیس کے کنوئوں کی کھدائی سے روک دیا ہے۔ ذرا غور کریں کہ سوئی سدرن کو35 فیصد گیس بلوچستان کے سوئی اور بگٹی علاقوں سے حاصل ہوتی ہے اور باقی65 فیصد سندھ سے حاصل ہوتی ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے95 فیصد کنزیومر کراچی اور سندھ سے ہیں اور90 فیصد کے قریب گیس صرف کراچی میں استعمال ہوتی ہے تو مالک صاحب کا یہ مطالبہ کیسے درست مانا جائے کہ سوئی سدرن کا ہیڈ آفس کوئٹہ منتقل کر دیا جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ سوئی سدرن کا ہیڈ آفس اپنے 1500 کے قریب سٹاف، کراچی اور سندھ کے پچانوے فیصد کنزیومرز کو چھوڑ کر کوئٹہ منتقل ہو جائے جہاں صرف پانچ فیصد کنزیومر ہیں۔