گجو متہ سے شاہدرہ تک لاہور کی چالیس ارب روپے سے زائد لاگت سے تعمیر کی جانے والی میٹرو بس کے بعد اب راولپنڈی سے اسلام آباد تک پچپن ارب روپے کی میٹرو بس سروس بھی مکمل ہو چکی ہے۔ اس میٹرو بس کے بعد ترقی اور خوشحالی کے اگلے مرحلے کی جانب بڑھنے کیلئے چند ماہ بعد لاہور میں ایک سو پچاس ارب روپے کی لاگت سے ایک بڑا پروجیکٹ 'اورنج میٹرو ٹرین‘ کے نام سے بھی شروع کیا جا رہا ہے یعنی پنجاب کا دو کھرب روپیہ صرف لاہور میں ہی کھپایا جا رہا ہے۔ دو سال قبل جب لاہور کی میٹرو بس سروس شروع کی جا رہی تھی تو اس کا کرایہ بیس روپے مقرر کرنے کیلئے سبسڈی کی غرض سے پہلے ایک ہزار سی سی تک کی تمام نئی اور پرانی گاڑیوں اور راولپنڈی میٹرو کی سب سڈی کیلئے اب تیرہ سو سی سی تک کی تمام نئی اور پرانی گاڑیوں کا یک مشت ٹوکن ٹیکس پنجاب کی تحصیل جنڈ سے لے کر صادق آباد تک کے عوام سے وصول کیا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی کہنے والا نہیں کہ دو کھرب روپے میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کیلئے صرف لاہور میں خرچ کرنا کسی طور منا سب اور جائز نہیں۔ اگر حکمرانوںکے پاس چند منٹوں کی فرصت ہو تو ان کی خد مت میں کسی ایرے غیرے کی نہیں بلکہ انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنسز اور الف اعلان کی جانب سے پنجاب کے سکولوں کے بارے میں تیار کی گئی رپورٹ کا صرف ایک حصہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت پنجاب بھر کے51661 سکولوں میں سے 6514 سکولوں میں بجلی کی صفر سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ اگر بغیر بجلی کی سہولت کے ایک سکول میں پڑھنے
والے بچوں کی تعداد اوسطاً 200 ہو تو اس حساب سے پنجاب کے تیرہ لاکھ سے بھی زائد بچے گرمی اور سردی میں بغیر پنکھے اور روشنی کے تعلیم کس طرح حاصل کرتے ہوں گے؟ اس کا لاہور اور راولپنڈی کی ایئرکنڈیشنڈ میٹرو میں سفر کرنے والے اندازہ نہیں کر سکتے۔ تصور کریں‘ جن سکولوں میں بجلی ہی نہیں ہے وہاں کتنے بچے پڑھنے کیلئے جاتے ہوں گے؟ پنجاب کی سردیاں مشکل سے تین یا بڑی حد تک چار ماہ رہتی ہوں گی لیکن باقی آٹھ ماہ صوبے کے دیہات کی گرمی کا وہی اندازہ کر سکتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں یا جن کا کبھی ادھر سے گذر ہو تا ہے۔ خیر سے اب پنجاب حکومت کے پاس ایک با قاعدہ وزیر قانون بھی آچکا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ مشہور و معروف رانا ثنا اﷲ ہیں‘ جو اپنے عہدے کا حلف بھی لے چکے ہیں۔ ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل25 کے تحت پانچ سے سولہ سال تک عمر کے بچوں کو تعلیم کی سہولت دینا لازمی ہے یا ثانوی؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے صوبے کے عوام کیلئے بہت سے اچھے کام بھی کر رہے ہیں۔ لاہور میں جناح ہسپتال سے ملتان روڈ کھاڑک تک کی سڑک کا منصوبہ‘ چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں جس کی فزیبلٹی سٹڈی تیار ہونے کے بعد فنڈز بھی منظور ہو گئے تھے‘ ا س لئے تعمیر نہ کی جا سکی کہ پنجاب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کمیٹی نے اپنی زمین کے استعمال کی اجا زت دینے سے معذرت کر لی تھی‘ لیکن پھر جناب شہباز شریف نے نہ جانے کون سی جادو کی چھڑی استعمال کی کہ سب نے رضامندی ظاہر کردی اور خیر سے یہ دو رویہ سڑک اب
تعمیر ہو چکی ہے اور یہ ایک بہترین سہولت ہے جو لاہور کی عوام کو میسر آچکی ہے۔ اسی طرح فیروز پور روڈ ایل او ایس سے ملتان روڈ کی دو رویہ سڑک بھی جناب وزیراعلیٰ پنجاب کی شاندار کار کردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔کسی بنی نوع انسان کیلئے فراہم کی جانے والی کوئی بھی سہولت‘ جس سے آرام اور آسانی مہیا ہوتی ہو‘ ہمہ وقت سراہی جاتی ہے۔ پنجاب حکومت کی نظروں میں اگر عوام کو سفری سہولتوں کی فراہمی اولین ایجنڈا ہے تو یہ ان کی صوابدید پر ہے کیونکہ اگر وہ پنجاب کابینہ یا پنجاب اسمبلی کی قائم کردہ کسی بھی کمیٹی کے اراکین کی آزادانہ رائے مانگتے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ترجیحات کچھ اور ہوتیں۔لیکن میاں شہباز شریف اپنے اراکین اسمبلی کو‘ جو اپنے اپنے علا قوں کے بہت سے ترقیا تی مطا لبات لے کر ان کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘ سے ممکن ہے یہ کہتے ہوں کہ جو کچھ کر رہا ہوں اسے مکمل ہونے دیں۔کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کی ایک ملاقات میں کچھ اراکین پنجاب اسمبلی کی زبان سے یہ نکل گیا کہ اگر یہ کام نہ ہوئے تو اگلے انتخابات میں ان کا جیتنا مشکل ہو سکتا ہے تو جناب خادم اعلیٰ نے ایم پی اے صاحبان کے اس گروپ سے مبینہ طور پر یہ کہا: ''آپ کیا سمجھتے ہیں کہ لوگ آپ کو یا آپ کے کئے گئے کاموں کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں؟ لوگ صرف ہمارے نام کو ووٹ دیتے ہیں اس لیے جو کچھ ہم کر رہے ہیں بس وہی اگلے الیکشن کیلئے کا فی ہیں‘‘۔
میٹرو بسیں اور ٹرینیں اپنی جگہ لیکن محترم شہباز شریف صاحب پنجاب کے612 سکول ایسے ہیں جن میں سے ہر ایک کے دو سو کے قریب طالب علموں اور اوسطاً دس اساتذہ کیلئے ٹائلٹ کی کسی بھی قسم کی سہولت نہیں ہے۔ ایسا شاید اس ملک میں ہی ہو سکتا ہے جہاں کے اہل اقتدار اور فیصلہ ساز حکمران انسانی اور خاص طور پر بچوں کی ضروریات سے واقف نہیں ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب سکول صرف لڑکوں کے ہی نہیں بلکہ ان میں لڑکیوں کے سکول بھی شامل ہیں‘ جہاں خواتین اساتذہ کام کرتی ہیں۔انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ پولیٹیکل سائنسز اور الف اعلان کی تیار کر دہ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب میں لڑکوں اور لڑکیوں کے 2706 سکول ایسے بھی ہیں‘ جن کے گرد کسی بھی قسم کی چار دیواری نہیں ہے اور یہ سکول جیسا کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے گائوں سے کچھ فاصلے پر ہوتے ہیں۔ اب اندازہ کیجئے کہ ہر طرح کے آوارہ جانوران سکولوں کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں‘ جن میں دیہات کے آوارہ کتوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں ان بچوں کا تعلیم حاصل کرنے کا منظر سامنے لاکر لاہور راولپنڈی کی میٹرو بس کے منا ظر کا مقابلہ کریں تو دل و دماغ کو بہت بڑا فرق دیکھ کر ایک جھٹکا سا لگتا ہے۔
اس رپورٹ میں تو یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ 795 سکولوں میں پینے والے پانی کی سرے سے ہی سہولت نہیں ہے۔ اس پر زیا دہ تشویش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان سکولوں کے بچے اور بچیاں اور انہیں پڑھانے والے مرد اور خواتین اساتذہ کرام اپنے اپنے گھروں سے آتے ہوئے پانی ساتھ لا سکتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جب یہ رپورٹ پیش کی جا رہی تھی تو ملک کی تمام سیا سی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی بھی وہاں موجود تھے‘ جن میں چیئر مین سٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم پنجاب بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے آخر میں پنجاب کے 4727 سکولوں کے بارے میں نشاندہی کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو خبر دار کیا گیا ہے کہ ان کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی ہے بلکہ بہت سے سکولوں کی چھتوں میں دراڑیں پڑنے سے پیدا ہونے والے شگاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی دیواروں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور ان میں سے ڈھائی ہزار کے قریب بچے اور بچیوں کے سکول ایسے بھی ہیں جن کی دیواریں ایک جانب کو جھکی ہوئی صاف اور واضح دکھائی دیتی ہیں۔ ہے کوئی ان سکولوں کی طرف توجہ دینے والا ؟