"MABC" (space) message & send to 7575

خالصتان کی آواز

سکھ مذہب کے مقدس گولڈن ٹمپل پر بھارتی فوج کے حملے کو31 برس گذر چکے ہیں اور بھارتی فوج کی توپوں، ٹینکوں اور مشین گنوں سے وہاں بہائے جانے والے سکھوں کے خون کے دریا سے ایک بار پھر آزادی کی کونپلوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے اور گولڈن ٹمپل سے پھوٹنے والی ان کونپلوں کی رکھشا کیلئے بھارتی پنجاب میں جگہ جگہ خالصتان کی گونج سنائی دینے لگی ہے تو ساتھ ہی ہمیشہ کی طرح بھارتی فوج اور اس کی سکیورٹی ایجنسیوں نے اپنے عقوبت خانوں کو سکھوں سے بھرنا شروع کر دیا ہے۔ گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے سکھ نوجوان سڑکوں پر نکلے تو اب تک کی اطلاعات کے مطا بق پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں چار نوجوان سکھ مظاہرین بھارتی بر بریت کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ درجنوں سکھوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ سکھ بھی اب بھارتی تسلط اور بھارتی فوج کی بربریت سے نجات کیلئے میدان عمل میں کود پڑے ہیں۔ برہمن شاید سکھوں کی تاریخ بھول چکا ہے کہ ان پر جس قدر ظلم ہوتا ہے‘ یہ اتنا ہی زیا دہ اس کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ سکھوں کا کہنا یہ ہے کہ ظلم و زیادتی اور سکھ دھرم کی بے حرمتی اب ان کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج اور نریندرمودی سرکار کی نظروں میں بھارت میں آباد سکھوں کی بچی کھچی حیثیت بھی ختم ہو تی جا رہی ہے‘ بلکہ اب تو فوجی یونٹوں میں سکھوں کی تضحیک بھی شروع کر دی گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھیڑیوں کے غولوں کی طرح دندناتے اور آوارہ پھرتے ہوئے بدمعاش بھارتی فوجی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ سکھوں کے گھروں سے بھی جب چاہتے ہیں‘ عورتوں اور لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں اور چند روز بعد ان کی لاشیں کسی ندی نالے یا سڑک کے کنارے پڑی ہوئی ملتی ہیں۔
آج بھارت کا ہر سکھ نوجوان سوچتا ہے کہ کیا سکھ مذہب کے پیروکاروں کے علاقے بھارتی فوج اور برہمن ذہنیت کی قتل گاہ بن کر رہ گئے ہیں؟ کیا سکھ نوجوانوں کے وجود اب بھارتی فوج کی چاند ماری کیلئے ہی رہ گئے ہیں؟۔کیا بھارت ہمیشہ کی طرح اب بھی کشمیری مسلمانوں کی جدو جہد کے خلاف اقوام عالم اور خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے سکھوں کے خون کو ہی استعمال کرتا رہے گا؟ اور یہ سوال آج سکھ مذہب کا ہر پیروکار بھارت اور دنیا بھر میں ایک دوسرے سے پوچھ ر ہا ہے کہ کیا کشمیر کے تنازعہ کا رخ موڑنے کیلئے اسے سکھوں کے علاوہ کوئی اور ایندھن نظر نہیں آتا؟ 20مارچ 2001ء کوامریکی صدر بل کلنٹن بھارتی حکومت کی جانب سے کرائی گئی اس یقین دہانی کے بعد بھارت آ رہے تھے کہ ان کے اس دورے میں کشمیر کے بارے میں ایک واضح لائحہ عمل طے کیا جائے گا اور بھارت کے بعد بل کلنٹن نے پاکستان پہنچنا تھا تاکہ دونوں ممالک اس معاہدے پر اپنی مہر ثبت کر دیں لیکن جب بل کلنٹن کا طیارہ بھارت کی فضائی حدود سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھا تو بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ میں چھتیس
سکھوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کا قتل عام کر نے کے فوری بعد اس کا الزام پاکستان پر دھر دیا اور ساتھ ہی پورے بھارت میں پہلے سے تیار کیے گئے سکھوں اور ہندوئوں کے ذریعے مظاہرے شروع کروا دیئے۔ ہندو اور سکھ مظاہرین نئی دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کا گھیرائو کر رہے تھے اور ان کے نعروں کی گونج میںامریکی صدر بل کلنٹن نئی دہلی ایئر پورٹ سے اپنی قیام گاہ کی جانب روانہ ہو رہا تھا۔ تب بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے یہ کہتے ہوئے امریکی صدر سے کشمیر کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے سے معذرت کر لی کہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ سارا بھارت باہر سڑکوں پر نکلا ہوا ہے۔ اگر ہم نے اس وقت کشمیر پر کوئی بات کی تو لوگ ہمارا تیا پانچہ کر دیں گے۔
وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی اور جب موجو دہ امریکی صدر بارک اوباما مارچ میں نئی دہلی پہنچنے کیلئے بھارتی فضائی حدود میں داخل ہونے جا رہے تھے تو چٹی سنگھ پورہ طرز کی سکھوں کی ایک اور قتل گاہ کیلئے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ نے مقبوضہ کشمیر کے اسی قصبے متان‘ جہاں چٹی سنگھ پورہ واقع تھا‘ کے قریب کے گائوں ہتموراکا انتخاب کیا‘ جہاں شام گئے سکھ خاندانوں کے گھروں کے دروازوں کو اچانک بھارتی فوجیوں نے زور زور سے پیٹتے ہوئے اعلان کرنا شروع کر دیا کہ سب مرد باہر نکل آئیں‘ ہم نے گھروں کی تلاشی لینی ہے لیکن سکھ کمیونٹی چٹی سنگھ پورہ طرز کے واقعات کی وجہ سے محتاط تھی‘ اس لئے کسی نے بھی دروازہ نہ کھولا۔
بھارتی فوجیوں کی جانب سے دروازے دھڑدھڑانے پرجب سکھوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھولنے سے انکار کر دیا تو بھارتی فوجی عقب سے دیواریں پھلانگنے لگے لیکن سکھوں نے آئے روز بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے واقعات کی وجہ سے اپنے گھروں میں لگائے گئے الارم بجانا شروع کر دیے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر گھر سے الارم بجنا شروع ہو گئے اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں قریبی آبادیوں میں رہنے والے سکھ مرد خواتین ہاتھوں میں بندوقیں، پستول، کرپانیں اور تلواریں لئے ہوئے کھنا بل پہلگام روڈ پر قابض ہو گئے ۔ سکھوں نے متان پولیس اور مقامی سول انتظامیہ کو صورت حال سے فون پر آگاہ کر دیا‘ کچھ مسلح سکھ ہتمورا گائوں کی طرف بڑھے اور باہر کھڑا ہوا ٹاٹا کمپنی کا بنا ہوا سومو فوجی ٹرک قبضے میں لے کر اس کے ڈرائیور کو قابو کر لیا۔ بھارتی فوج اس ٹرک کو‘ جو 3 راشٹریہ رائفلز کمپنی کاتھا اور جس کا رجسٹریشن نمبر JKO3A 3077 تھا‘ لے کر پہلگام روڈ پر آ گئے جہاں ان کے ساتھی جمع تھے۔
بھوپندر سنگھ کے گھر کا دروازہ 3راشٹریہ رائفلزکے بھارتی فوجیوں نے سب سے پہلے کھٹکھٹایا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ جمعہ کی شام کوئی ساڑھے سات بجے کے قریب جب میرے گھر کے علاوہ جیت سنگھ، جرنیل سنگھ، دیدار سنگھ اور جگجیت سنگھ کے گھروں کے دروازے ان بھارتی فوجیوں نے توڑنے شروع کیے تو ہم نے الارم بجا دیے جس پر یہ فوجی بھاگ کر اپنے ٹرک کی طرف بڑھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس ٹرک پر ڈرائیور سمیت قبضہ ہو چکا ہے تو وہ سب فائرنگ کرتے ہوئے پہاڑوں کی طرف نکل گئے‘ کوئی ایک گھنٹے بعد متان پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ چیئرمین سکھ کوارڈی نیشن کمیٹی سردار جگموہن سنگھ رائنا کی جانب سے سکھوں کے پر زور احتجاج پر ڈی آئی جی پولیس سائوتھ کشمیر شفاقت احمد وٹالی نے اس واقعہ کے خلاف زیر دفعہ 442/427/506 RPC FIR NO..400 درج تو کر لی لیکن آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور فوجی ٹرک کو اس کے ڈرائیور سمیت اگلے دن ہی ان کی یونٹ روانہ کردیاگیا۔ متان میںجب بھارتی فوج کی3 راشٹریہ رائفلز کو سونپا جانے والا منصوبہ نا کام ہو گیا تواسی روز رات گئے سکھ اکثریتی علاقے بارہ مولا میں 52 راشٹریہ رائفلز کے جوانوں نے سکھوں کے گھروں کے اندر گھسنے کی کوشش کی لیکن سکھوں کی جانب سے ہونے والی سخت مزاحمت پر وہ بھاگ نکلے۔ جب اس واقعہ کی رپورٹ کی گئی تو پولیس یہ کہہ کر خاموش ہو گئی کہ یہ فوجی قریب ہی کہیں ڈیپلائے ہوئے تھے اور وہ رات گئے شہریوں سے مدد لینے کیلئے ان کے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں