افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی نے کابل میں افغان پارلیمنٹ پر حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی ہے اور یہ الزام اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے لگایا گیا ہے کہ ان کا اصل مجرم بھارت ہے جس کے چہرے‘ جس کے محل وقوع‘ جس کے کردار‘ جس کے کاموں اور جس کے جرائم پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ عالمی سپرپاور امریکہ کا سابق وزیر دفاع چک ہیگل ہے ۔ سابق ری پبلکن سینیٹر چک ہیگل نے 2011ء میں چپکے سے نہیں، اشاروں کنایوں میں نہیں بلکہ کیمرون یونیورسٹی اوکلاہاما میں ایک لیکچر دیتے ہوئے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی ہر دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ چک ہیگل کا کہنا تھا کہ بھارت ہاتھ دھو کر پاکستان کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کی ہر ممکن خواہش ہے کہ اسے زیا دہ سے زیا دہ نقصان پہنچایا جائے تاکہ یہ نہ تو اپنے پائوں پر صحیح طریقے سے کھڑا رہ سکے اور نہ ہی عالمی و علا قائی سیا ست اور تجارت میں بھارت کے مد مقابل آ سکے۔
سابق امریکی وزیر دفاع جیسے با خبر اور ذمہ دار شخص کی جانب سے لگائے گئے اس الزام کے بعد اگر دنیا کا کوئی ملک، کوئی ادارہ بھارت کو دہشت گرد ریا ست کے طور پر ماننے سے انکاری ہے تو پھر اسے چند ہفتے قبل بنگلہ دیش میں عالمی میڈیا کی موجو دگی میں، مکتی باہنی کی شکل میں، بھارتی کمانڈوز بھیجنے کا نریندر مودی کا اعتراف دیکھ لینا چاہئے۔ اگر یہ عذر تراشا جائے کہ اس بات کو تو چوالیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو پھر ایسا کریں کہ حال ہی میں نریندر مودی کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول کا بھارت کی یونیورسٹی میں ایک سیمینار سے خطاب کا ایک ایک حرف سامنے رکھ لیں‘ کسی کو بھی بھارت کو ایک دہشت گرد ریا ست قرار دینے کیلئے کسی اورفرد جرم کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر یہ دہشت گردی بھی پرانی لگتی ہے تو یہ جان لیں کہ حال ہی میں زمبابوے کرکٹ ٹیم کے دورہ پاکستان کو سبو تاژ کرنے کیلئے نئی دہلی میں ''را‘‘ کے افسران نے دوبئی ایئر پورٹ پر پاکستان آنے کی منتظر زمبابوے کرکٹ ٹیم کے منیجر کو ایس ایم ایس کیا کہ پاکستان مت جائیں کیونکہ آپ کی ٹیم کو وہاں دہشت گردی کا نشانہ بنایا جانے والا ہے ۔
حامد کرزئی کے دورِ صدارت میں بھارت نے افغانستان کے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے بلوچستان اور کراچی سمیت پاکستان کے قبائلی علا قوں اور کے پی میں بنگلہ دیش کی مکتی باہنی کی طرز پر بلوچ لبریشن آرمی اور تحریک طالبان کی تشکیل کر کے پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خون سے جو ہولی کھیلی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں‘ لیکن جیسے ہی حامد کرزئی رخصت ہوا، بھارت کے نہ چاہتے ہوئے بھی حامد کرزئی کی جگہ اشرف غنی کی صورت میں نیا افغان صدر سامنے آ گیا‘ جو شدت پسند نہیں بلکہ معتدل مزاج ہے۔ اشرف غنی کے آنے کے بعد بھارتی دہشت گردی کی شدت میں کمی آنے لگی کیونکہ وہ اپنے ملک کو کسی کی بھی پراکسی وار کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کا تہیہ کر چکے تھے۔ بھارت کا خیال تھا کہ دفاع سمیت وزارت داخلہ اور خارجہ میں حامد کرزئی کے ٹھونسے ہوئے منظور نظر اور اس کے ہم خیال افسر اشرف غنی
کی پالیسیوں پر غالب رہیں گے‘ لیکن ابتدا میں ہی بھارت نوازوں کو اس وقت شدید جھٹکا لگا جب اشرف غنی نے پاکستان کی خواہش پر اس کی جانب پُرخلوص دوستی اور پُرامن بقائے باہمی کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔ جیسے جیسے اشرف غنی کی دوستی کے قدم پاکستان کی جانب بڑھنا شروع ہوئے‘ افغانستان کے ایک سرے سے دوسرے تک دہشت گردی کی کارروائیوں میں یک دم اضافہ ہونے لگا۔ نیٹو اور امریکی فوجوں کی معقول تعداد افغانستان میں موجود ہونے کے باوجود طالبان کی پیش قدمی اور دہشت گرد کارروائیاں اس طرح بڑھنا شروع ہو گئیں جیسے انہیں کوئی روکنے والا ہی نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پس پردہ بیٹھے ہوئے کچھ طاقت ور لوگوں کی جانب سے یہ سب کچھ افغانستان کے خلاف جان بوجھ کر کرا یا جا رہا ہے۔
افغان پارلیمنٹ پر حملے اور نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر کئے جانے والے حملے میں اس قدر مماثلت ہے کہ لگتا ہے ان دونوں فلموں کا ڈائریکٹر ایک ہی شخص ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی طرح افغان پارلیمنٹ سے ملحقہ سڑک تک پہنچنے کیلئے راستے میں پانچ سکیورٹی چیک پوائنٹس آتے ہیں جہاں اس قدر عمدہ سکیورٹی آلات نصب ہیں کہ بارود سے بھری گاڑی کے گزر جا نے کا سوچنا ہی ممکن نہیں، تو پھریہ چھ مسلح طالبان بارود سے بھری اس گاڑی سمیت کس طرح پارلیمنٹ سے ملحقہ سڑک تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ جگہ جگہ سینکڑوں کی تعداد میں افغان فوج کھڑی تھی؟ جیسے ہی بارود سے بھری گاڑی ایک زبردست دھماکے سے پھٹی، پارلیمنٹ کے در و دیوار ہلنا شروع ہو گئے‘ جس سے اندر موجود سب لوگ گھبرا گئے‘ سوائے نئے وزیر دفاع کے جو اپنی جگہ پر سکون رہے اور ایک قدم بھی آگے پیچھے نہ ہوئے بلکہ باقی اراکان پارلیمنٹ اور عملے کو تسلی دیتے ہوئے کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اب ذرا آگے کا منظر سامنے رکھیں کہ ان چھ طالبان کو چند منٹ بعد ہی عیسیٰ خان نامی ایک افغان فوجی اپنی رائفل سے نشانہ بناتے ہوئے ہلاک کر دیتا ہے اور پھر ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلا دی جاتی ہے‘ جس میں یہی عیسیٰ خان ان طالبان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر ویڈیو بنانے والے کو مخاطب ہوتے ہوئے پاکستان کو للکارنا شروع کر دیتا ہے۔اس ویڈیو کو غور سے دیکھیں تو آپ کو جو چیز سب سے زیا دہ حیران کرے گی وہ یہ ہے کہ ان چھ طالبان میں سے کسی ایک کے جسم پر بھی میگزین اور دستی بم رکھنے والی مخصوص جیکٹ نہیں۔ ان سب کو لگنے والی گولیاں گردن کے نیچے ہیں اور اس ویڈیو میں یہ بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ فرش پر گرے ہوئے ان طالبان نے جوگر یا بھاری بوٹ کے بجائے پائوں میں عام سی چپلیں اور جوتے پہنے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان چھ طالبان کو اکیلے ہی ہلاک کرنے والے عیسیٰ خان کی رائفل کی میگزین میں کتنی گولیاں باقی بچی تھیں‘کیونکہ اس طرح عیسیٰ خان سے پوچھا جا سکے گا کہ میگزین بدلتے وقت سامنے کھڑے طالبان اندھے تھے یا ان کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے کہ اس وقفے میں وہ اس پر ایک فائر بھی نہ کر سکے؟ اور کیا ان چھ مبینہ طالبان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی اجا زت عبد اﷲ عبد اﷲ دے سکیں گے تاکہ سب کچھ سامنے آ سکے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اس وقت سے شدت آنا شروع ہو گئی ‘ جب سے افغانستان اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان ایک دوسرے سے معلومات کے تبادلے اور ایک دوسرے کی سکیورٹی کا خیال رکھنے کا معاہد ہ طے پایا ہے۔ اس معاہدے کے خلاف بھارتی واویلا سب کے سامنے ہے ۔ بھارت اور افغان ڈی این ایس کے پاکستان کے خلاف الزامات کی سچائی جاننے کیلئے جیمز ڈوبن‘ جو مئی2013ء سے جولائی2014ء تک افغانستان اور پاکستان میں امریکہ کے سپیشل نمائندے کے طور پر کام کرتے رہے اور کارٹر مالکسین جو مئی2013ء سے اگست2014ء تک افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ کے سیا سی مشیر کے طور پر کام کرتے رہے‘ دونوں کی وہ تحریر ملاحظہ فرمائیں جو فارن افیئرز میگزین میں شائع ہوئی۔ دونوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان کا افغانستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل ہو نے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان کی ایک ہی خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں کسی نہ کسی طرح دیرپا امن قائم ہو جائے!!