پاکستان کے موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قومی اسمبلی کے فلور پر افواج پاکستان کے خلاف کی جانے والی مشہور زمانہ تقریر سنتے ہوئے لگتا ہی نہیں تھا کہ ایک باوقار قومی ادارے کی تذلیل کرنے والا شخص اسی ملک کا شہری ہے۔ آج جب الطاف حسین اور آصف علی زرداری کی تقاریر کے لہجے میں خواجہ صاحب کی تقریر سننے کا اتفاق ہوتا ہے تو یقین نہیں آتا کہ الفاظ کی دو دھاری تلوار سے پاکستانی فوج پر حملے کرنے والے خواجہ صاحب ملک کے وزیر دفاع ہیں۔خواجہ صاحب کی تقریرکے یہ الفاظ کہ 1948ء میں جب ہندوستان نے کشمیر میں فوجیں اتاریں تو پاکستانی فوج نے لڑنے سے انکارکر دیا تھا اور یہ تو قبائلی تھے جنہوں نے ہندوستان کی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آزاد کشمیرکا حصہ بھارتی فوج سے بچایا؟ خواجہ صاحب ! آپ کا یہ زہریلا نشترایسا بہتان اور جھوٹ ہے جس کا جواب دینے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی۔
پارلیمنٹ میں کی جانے والی اپنی اس مشہور تقریر میں خواجہ آصف نے1965ء ،1971ء اورکارگل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے پاک فوج پر بزدلی کی بہتان تراشی کی۔ جہاں تک کارگل جنگ کا تعلق ہے ، اس وقت خواجہ صاحب ماشاء اﷲ خود ملک کے وزیر دفاع ہیں اور یہ ریکارڈ ان کی دفتر میں موجود ہوگا کہ ہندوستان میں متعین سابق اسرائیلی سفیر مارک سوفر نے ہندوستان ٹائمزکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: ''1998-99ء کی کارگل جنگ میں ہم نے بھارت کی مدد کر کے خود کو بھارت کا سچا دوست ثابت کر دیا ہے۔ آخری وقت پر یہ اسرائیل کی ہی مدد تھی جس نے کارگل جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے بھارت پر واضح کر دیا کہ دوست وہ جو مصیبت کے وقت کام آئے‘‘۔ بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کشن پال نے‘ جو کارگل جنگ کے وقت سری نگر میں بھارت کی15 کورکی کمان کر رہے تھے، کارگل جنگ کے پندرہ سال بعد اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر (4 جون 2014 ء ) این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، یہ بالکل غلط تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ بھارت کارگل میں فتح سے ہمکنار ہوا۔ اس وقت بھارتی فوج کے وائس چیف آف آرمی سٹاف لیفٹیننٹ جنرل چندر شیکھر نے بھی تسلیم کیا کہ کارگل میں ہم پراس قدر دبائو تھا کہ ہمیں بیرونی مدد مانگنی پڑی۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے کارگل پر قبضہ کرنے کے لئے 1948ء میں ''آپریشن وینس‘‘ اور پھر'' آپریشن لٹل وینس‘‘ کی منظوری دی تھی۔ قائد اعظم کا یہ پلان آج بھی جی ایچ کیو میں مو جود ہونا چاہیے جسے وزیر دفاع اور ان کی حکمران جماعت ملا حظہ کر سکتی ہے۔ انگریز اور ہندو لیڈر شپ کی ملی بھگت سے پاکستان بننے سے پہلے ہی منصوبہ بندی شروع کر دی گئی تھی کہ کسی طرح پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج کو بے اختیار بنا دیا جائے اوراس کی کوئی سنٹرل کمانڈ اس کی حدود میں قائم نہ ہونے دی جائے۔ اس کے لئے 1946ء میںجی او سی انڈیا، لیفٹیننٹ جنرل سر فرانسس نے ایک نوٹ لکھا کہ'' بھارت اور پاکستان کی افواج کو اس انداز سے ترتیب دیا جائے گا کہ وہ اس سے صرف اپنی اندرونی سکیورٹی کی دیکھ بھال کر سکیں۔اس فورس کو فوج کی بجائے''آرمڈ کانسٹیبلری‘‘ کہا جائے گا اور صرف برطانیہ یا دولت مشترکہ پر مشتمل ایک غیر جانبدار فوج قائم کی جائے گی جسے سرحد، بلوچستان اور آسام میں رکھا جائے گا جس کا ہیڈکوارٹر اور سنٹرل ریزرو فورس پونا میں ہوں گے۔ اگرکبھی پاکستان اور بھارت میں کسی جنگ کی نوبت آئی تو یہ غیر جانبدار فوج اسے روکے گی‘‘۔ قائد اعظم انگریز کی اس چال کو سمجھ گئے اور انہوں نے 28 اپریل 1946ء کو انڈین آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل سر آرتھر سمتھ کو صاف لفظوں میں لکھ دیا کہ مجھے آپ کی اس تجویز سے اتفاق نہیں ہے، پاکستان کی بھی دوسرے ممالک کی طرح اپنی ایک باقاعدہ فوج ہو گی۔ اس پر انگریز نے فیصلہ کیاکہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ سلطنت بر طانیہ سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جائیں۔ اس مقصد کے لئے کشمیر کے ڈوگرہ راجہ کو ہندوستان سے الحاق کاا شارہ دیتے ہوئے اسے اس وقت کی فیلڈ جنگ کا بہترین اسلحہ بھی مہیا کر دیا گیا۔گورداسپورکی پاکستان
میں شمولیت کے فیصلے کی یک لخت منسوخی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس پرکشمیر یوں اورمہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں 23 اکتوبرکوکشمیریوں نے مظفر آباد اور ڈومیل کو ڈوگرہ فوج سے خالی کرا لیا۔ 27 اکتوبر کو بھارت نے اپنی 1/11 سکھ بٹالین ، لیفٹیننٹ کرنل رائے کی کمان میں سری نگر اتار دی۔کرنل رائے نے دوکمپنیوںکے ساتھ بارہ مولا پر قبضے کے لئے پیش قدمی شروع کر دی جسے بھارتی ائیرفورس کی مدد بھی حاصل تھی۔ بہت جلد بھارتی فوجی بارہ مولہ کے قریب پہنچ کر مورچہ زن ہو گئے۔ لیکن 28 اکتوبرکو پاکستانی فوج نے جوابی حملہ کر دیا جس میں کرنل رائے مارا گیا اور بھا رتی فوجی یہاں سے واپس ہوکر پتن پہنچ گئے۔ اس پر 30 نومبرکوکشمیریوں نے کیپٹن شیر محمد کی کمان میںحملہ کرکے پتن واپس لے لیا اور اس لڑائی میں بھارتی کمپنی کا میجر سومناتھ ہلاک ہوگیا۔ اس پر بھارت نے میجر جنرل کلونت سنگھ کو فوج کی کمان دے کر کشمیر بھیج دیا اور اس نے سری نگر میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کرکے پورے کشمیر میں بھر پور حملے شروع کر دیئے۔اب ایک طرف پاکستان کو اٹھائیس لاکھ لٹے پٹے مہاجرین کی دیکھ بھال کرنی تھی تو دوسری جانب کشمیر میں ہزاروںکی تعداد میں بھارتی فوج بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ 20 مئی کو 77 ویں بھارتی بریگیڈ نے سلطان ڈھکی اور161 بریگیڈ نے ا سلام آباد(کشمیر) پر قبضہ کرلیا۔31 مئی کو 77 واںبھارتی بریگیڈ چنال ڈوری اور چھوٹا کازی ناگ پر قابض ہوگیا ۔22 مئی کو 161 بھارتی بریگیڈ نے اروسا اور پانڈو پر بھی قبضہ کر لیا۔ 25 مئی کوبھارتی فوج نے دریائے جہلم کے جنوب میں سوگانہ،اروسا اور چکوٹھی کا درمیانی راستہ بھی لے لیا۔ 28 جون کو بھارتی فوجی اروسا سے چھ میل دور پیر کنتھی پر بھی
قابض ہو گئے۔اس وقت کشمیر میں بھارتی فوج کے بارہ بریگیڈوںکے مقابلے میں پاکستان کے پاس صرف پانچ نا مکمل بریگیڈ تھے۔ اب پاکستان کے جی ایچ کیو نے بریگیڈیئر کے ایم شیخ، بریگیدیئر اعظم ، بریگیڈیئر حیاء الدین، کرنل صادق خان، مندھیر میں کرنل رحمت اﷲ، کوٹلی میں میجر شیر محمد، جھنگار میں کیپٹن محمود خان، میر پور میں کرنل عفیف خان، بھمبر میں کرنل سرفراز اور آسار سیکٹر میں کرنل بختیار رانا کو پونچھ، کارگل اور باقی کشمیر میں بھارتی پیش قدمی روکنے کے لئے احکامات جاری کر دیئے۔اس دوران 15 اکتوبر 1948ء کو بھارت کے 268 ویں بریگیڈ نے بریگیڈیئر ہر بھجن سنگھ کی قیادت میں 5400 فٹ بلند چوٹی پیر بادیسر پر قبضہ کر لیا۔26 اکتوبرکو راجوڑی کے شمال میں پانچویں بھارتی بریگیڈ نے پیر رالیون،8 نومبرکو سنگیوٹ اور پیرکالیوا اور راجوری کے مغرب میں رام گڑھ قلعہ اپنے قبضہ میں لے لیے۔ جب بھا رتی فوج نے پونچھ کی طرف پیش قدمی شروع کی تو قائد اعظم نے محسوس کیا کہ ہندوستانی فوج کا مقصد مہاراجہ کشمیرکی مدد نہیں بلکہ وہ پاکستان پر با قاعدہ مکمل فوجی حملے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس پر فیصلہ ہوا کہ بھارت پر جوابی حملہ کر دیا جائے اور بھارتی سپلائی اور طا قت کو ختم کرنے کے لئے فوری طور پر دریائے توی پر بیری پتن کے پل کو اڑا دیا جائے۔ اس طرح کشمیر میں موجود بھارتی فوج کے بھارت سے زمینی راستے مکمل طور پر بند ہو جائیںگے۔ بیری پتن کا پل تباہ کرنا اور کارگل کے بھارت سے زمینی رابطوں کو منقطع کرنے کے اس مشن کو 1948ء میں پاکستانی فوج نے قائد اعظم محمد علی جنا ح کی منظوری سے''آپریشن وینس‘‘ کانام دیا جس کے لئے 8 دسمبر 1948ء کی تاریخ مقررکی گئی۔ اس کے ساتھ ہی کارگل سیکٹر میں بڑا حملہ کرنے سے پہلے ابتدائی کارروائیوں کے لئے ایک ''آپریشن لٹل وینس‘‘کی منصوبہ بندی کی گئی۔ (جاری)