"MABC" (space) message & send to 7575

سچ یہ ہے!… (آخری قسط)

نومبر کے آخر تک پاکستان کی 13 ویں سروے بیٹری نے آپریشن وینس کی تیاری کیلئے اسلحہ، آبزرویشن پوسٹس اور دشمن کے ٹارگٹس کا سروے مکمل کر لیاتھا۔ 29 ٹینک شکن بیٹری کو بھمبر اور آسار میں تعینات کیا گیا۔ 28 اپریل 1948ء کو پاک فوج کے لیفٹیننٹ شاہ خان نے چلاس سے 22 کلو میٹر شمال میں ''برزل پاس‘‘ کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت کی اسکیمو فورس‘ جس کی کمان لیفٹیننٹ شاہ خان کے پاس تھی‘ کو کارگل،کھارل پل اور دراس پر قبضہ کا ٹاسک دیا گیا۔ لیفٹیننٹ شاہ خان نے صوبیدار مرتضیٰ کو کارگل، صوبیدار سیف اﷲ بیگ کو کھارل برج اور صوبیدار شاہ علی کو دراس پر قبضہ کا حکم جا ری کر دیا۔ 9 مئی کو صوبیدار شیر علی اپنے جوانوں کے ساتھ دراس پر حملہ آور ہوئے۔ کئی دنوں کی لڑائی کے بعد 7 جون کو صوبیدار شاہ علی نے دراس پر قبضہ کر لیا۔دوسری طرف 10 مئی کو صوبیدار سیف اﷲ بیگ کھارل برج اور صوبیدار مرتضیٰ نے ایک ساتھ کارگل پر قبضہ کر لیا۔7جولائی کو لیفٹیننٹ شاہ خان گلگت سکائوٹس کی ایک کمپنی کی نفری سے زوجی لا پر قابض ہو گئے۔اس پر 3 ستمبر کو ہندوستان کے بریگیڈیئر اٹل کی کمان میں4/2 گورکھا رائفل کی ایک کمپنی2/8 کی دو گورکھا کمپنیوں اور77 ویں پیرا بریگیڈ نے 3 ستمبر کو زوجی لا پر حملہ کردیا‘ جہاں ہمار ی گلگت سکائوٹس کی صرف ایک کمپنی تعینات تھی۔ بھارتی فوج بار بار حملہ کرنے کے با وجود 25 اکتوبر تک نا کام رہی۔ اکتوبر کے آخر میں بھارتی انجینئرز نے زوجی لا ء پر ٹینکوں سے حملہ کرنے کیلئے عارضی سڑک تعمیر کرنے کے بعد 2 نومبر کو زوجی لا پر ٹینکوں کی مدد سے قبضہ کر لیا۔ 23 نومبر کو بھا رتی کارگل پر بھی قابض ہو گئے اور پھر 24 نومبر 1948ء کو '' مئی1999ء والی کارگل جنگ ‘‘ کی مشہور لیہ کارگل روڈ بھی بھارت کے قبضہ میں آ گئی۔ 
''آپریشن وینس‘‘ کیلئے 8دسمبر کی تاریخ فائنل کرنے کے بعد پاکستانی فوج نے مزید اقدامات کا فیصلہ کیا۔ 14 پیرا بریگیڈ کی کمان اس وقت کے بریگیڈیئر شیر علی کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے زیر کمان ٹروپس کوچور ڈھکی، ببوٹ، سندوا، کبوتر گالا اور امبر گڑھ قلعہ میں مورچہ زن کر دیا۔افواج پاکستان کی تاریخ میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ایسے گم نام ہیرو ہیںجن کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے۔ ایسے ہی ایک گم نام ہیرو فیلڈ کمپنی کے میجر صفدرتھے جنہیں حکم دیا گیا کہ لکڑ منڈی سے ببوٹ جانے والے پہاڑی راستے کو کاٹ دیا جائے۔ اس کمپنی کو اپنی موجودگی چھپانے کیلئے دن کو کام کر نے کی اجا زت نہیں تھی ۔پاک فوج کے نکتہ چین تصور کرسکتے ہیں کہ دسمبر کی کشمیر کی پہاڑی برفانی سردیوں کی صرف چار راتوں میں جبکہ ہر طرف دشمن موجودتھا اس کمپنی نے میجر صفدر کی قیادت میں پہاڑی سڑک کا یہ راستہ بھارتی فوج کی پیش قدمی روکنے کیلئے کا ٹ کر رکھ دیا۔ 
6 دسمبر کو ایک بھارتی او پی طیارے نے ہما ری'' گن پوزیشنز‘‘ کی نشان دہی کر لی تو اس کی اطلاع پر بھارتی توپخانہ نے گولہ باری کی بارش کر دی۔ اس وقت پاک فوج کے توپخانہ کو آپریشن وینس کے توپخانہ پلان پر عمل کرنے کا حکم جا ری کر دیا گیا اور چند لمحوں بعد بیری پتن کا پل تباہ ہو گیا اور جگہ جگہ قائم بھارتی اسلحہ ڈپوئوں کو لگی ہوئی آگ آسمان کو چھو رہی تھی۔ اگلے 24گھنٹوں میں بھارتی فوجی کانوائے موجودہ آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کی بجائے الٹے پائوں واپس بھاگ رہے تھے کیونکہ بیری پتن پل کی تباہی کے ساتھ ہی انہیں اب بھارت کی طرف سے کسی قسم کی زمینی مدد اور راستہ ملنے کے امکانات معدوم ہو چکے تھے اور بھارتی فوج کی یہ واپسی 8 دسمبر کے مکمل وینس کی بجائے صرف '' لٹل آپریشن وینس ‘‘پر عمل در آمد کا نتیجہ تھی۔
مئی1999ء کا کارگل پلان یہی تھا کہ سیا چن کے محاذ پر بھارت کی دو ڈویژن اور سیاچن کے محاذ سے منسلک چینی سرحدوں پر تعینات تین ڈویژن بھارتی فوج کو ہتھیار ڈالنے تھے اور اس طرح پاک فوج نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کو قید کر کے ہندو سے 1971ء کا بدلہ لینا تھا۔ آج الزام لگایا جاتا ہے کہ بھارت نے بڑی جنگ شروع کر دینی تھی۔ الزام لگانے والے شاید جنگوں کی تاریخ بھول چکے ہیں۔ جس ملک کی دو لاکھ فوج بھوک سے مرتے ہوئے ہتھیار ڈال دے‘ وہ ملک آج تک کسی بڑی جنگ کا متحمل نہیں ہوا ۔ جنرل جمشید گلزار نے اپنے انٹرویو میں خود تسلیم کیا کہ مئی1999ء کارگل جنگ میں پاکستان نے بھارت کی شہ رگ کو پکڑ لیا تھا۔ سیاچن پر پانچ ڈویژن بھارتی فوج محصور ہو چکی تھی اگر کسی دشمن کی شہ رگ قبضہ میں آ جائے تو اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو گی؟ بھارت کی بحری فوج کے ایڈ مرل وشنو بھگت کی کارگل پر لکھی گئی کتاب کا یہ فقرہ سامنے رکھیں: ''بھارتی حکومت نے بل کلنٹن کودرخواست کی تھی کہ وہ پاکستان پر دبائو ڈالیںتا کہ وہ کارگل کی چوٹیوں سے اپنی فوج واپس اتاریں‘‘۔ 
بیری پتن پل کی تباہی کے بعد30 دسمبر 1948ء کو ہندوستانی جی ایچ کیو کی طرف سے بریگیڈیئر سیج مانک شا کا ایک انتہائی خفیہ پیغام 220835/m03 پاکستانی جی ایچ کیو کو موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ''از جنرل بچر برائے جنرل گریسی‘‘، دونوں حکومتوں کی سیا سی صورت حال کی وجہ سے ہندوستان چاہتا ہے کہ کچھ غلط فہمیوں کی بنا پر ایک دوسرے کے علا قوں پر پیش قدمی اور حملے آپس میں مزیدتلخی پیدا کر رہے ہیںاس لیے میری حکومت نے مجھے مکمل اختیار دے دیا ہے کہ میں فوری طور پر اپنی افواج کو حکم جاری کروں کہ وہ اپنی اپنی مو جو دہ پوزیشنز پر رہتے ہوئے فوری جنگ بند کردیں۔ظاہر ہے کہ میں اپنی افواج کو یہ حکم یک طرفہ طور پر جا ری نہیں کر سکتا‘ جب تک آپ کی طرف سے بھی اس پر رضامندی نہ ہو جائے۔ برائے مہربانی فوری جواب دیں اگر آپ کی طرف سے اس کا جواب ہاں میںہوا تو میں آپ کو جنگ بندی پر رضامندی کے احکامات بھجوا دوں گا‘‘۔۔۔۔۔۔خواجہ آصف صاحب یہ ہے آپ کی اس تقریر کا جواب جس کی جب چاہیں اپنے ہی محکمے کے ریکارڈ سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں