قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے2013 ء کے انتخابات کے انعقاد سے قبل اٹھارہویں ترمیم کے پردے میں مسلم لیگ نواز کے تعاون سے الیکشن کمیشن کی تشکیل کے ''جرم عظیم‘‘ پر قوم سے معافی مانگ لی ہے‘ جس نے قوم کے حق رائے دہی کو بے آبرو کر کے رکھ دیا۔ اس پر یہی کہا جا سکتا ہے '' کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ‘‘۔الیکشن کمیشن کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اس کے قدم قدم پر کئے جانے والے فیصلے خود ہی بول رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کا غصہ تو قدرتی بات تھی کہ کسی کی یہ جرأت؟۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق اور صدیق خاں بلوچ کے خلاف فیصلے دینے والے ٹربیونلز کے ججوں پر غصہ الیکشن کمیشن نے جاوید رشید محبوبی، کاظم علی ملک اور رانا زاہد محمود کی مدت ملازمت میں مزید توسیع نہ دے کر اتار لیا؟۔ محمد ریاض ملک ایک بار پھر بچ گئے کیونکہ شنید تھا کہ ان کا فیصلہ بھی ستمبر کے پہلے ہفتے میں آنے ہی والا تھا اور زندگی میں پہلی بار الیکشن اور جمہوریت کے مزے لینے والے حامد زمان ایک بار پھر منہ دیکھتے رہ گئے؟۔ چارٹر آف ڈیموکریسی (میثاق جمہوریت)کے تحت تشکیل پانے والے الیکشن کمیشن سے پی پی پی نے توبہ تو کر لی ہے لیکن اس سے لگنے والے زخم ملک اور قوم کو نہ جانے کب تک ٹیسیں دیتے رہیں گے؟۔ 18 فروری 2008 ء کو ہونے والے ملکی انتخابات میں حسب توقع ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن کیلئے چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن لیا جائے گا جو ہر متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو اور ان ارکان کے تقرر کیلئے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعدہر صوبے سے تین تین نام منتخب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجیں گے۔ ان میں سے ایک نام کا انتخاب ہوگا۔ اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک فہرست پر متفق نہیں ہوتے تو دونوں جماعتوںکی طرف سے ہر رکن کیلئے علیحدہ علیحدہ فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائے گی جو ہر صوبے کیلئے ایک ایک نام کی منظوری دے گی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی‘ جس کے چار چار ممبران حکومتی اور اپوزیشن سے بنچوں سے متعلق ہوں گے لیکن بعد میں آئین میں انیسویں ترمیم کرتے ہوئے اس کمیٹی میں سینیٹ سے بھی چار رکن شامل کرتے ہوئے اس کی تعداد بارہ کر دی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو اختیار تھا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن اٹھارہویں ترمیم نے چیف الیکشن کمشنر کے تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیئے ...دوسرے لفظوں میں اب چیف الیکشن کمشنرکے اختیارات بھی وہی ہیں جو باقی چار اراکین کے ہیں اب اگر فخرالدین ابراہیم اس بڑھاپے میں کوئی حکم یا فیصلہ دینا بھی چاہتے تو نہیں دے سکتے تھے کیونکہ ان کا بھی باقی چار اراکین کی طرح اپنا صرف ایک ہی ووٹ تھااورباقی چار ارکان نے آپس میں ایکا کر کے ان کے خلاف جو چاہا فیصلہ دیا۔اس آئینی ترمیم کا ایک نکتہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کسی بھی اجلاس کے وقت موجود نہیں ہیں تو وہ بعد میں (کسی بھی طریقے سے کسی بھی فیصلے کیلئے) اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے ۔
موجودہ طریقہ کار کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری صرف اور صرف چیف الیکشن کمشنر سمیت پانچ اراکین پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ان اراکین کی تعیناتی مشکوک اور قابل بھروسہ نہ تھی تو پھر ان کے تحت ہونے والے انتخابات منصفانہ کیسے ہو سکتے تھے؟ یہی وہ نکتہ تھا جسے ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد کی سخت ترین سردی میں دھرنا دیتے وقت اٹھایا تھا۔ لیکن اس اہم ترین نکتے کو منظم طریقے سے میڈیا کے دھوئیں میں اوجھل کر دیا گیا۔ ان کا آج بھی ہی مؤقف ہے کہ موجو دہ انتخابی نظام انصاف نہیں دے سکتا؟علامہ صاحب کی بات کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے الیکشن کمیشن کی تعیناتی کے سارے عمل کوتفصیل سے دیکھنا ہو گا۔آٹھ اپریل2010 ء کو صدر آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی مو جود گی میں 18ویں ترمیم کے بل پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہم نے فوجی آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے۔ بائیس
فروری2011 ء کو اس ترمیم کی منظوری کے ایک سال بعد قومی اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی قائم ہوئی تاکہ وہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کر سکے جس میں8 اراکین قومی اسمبلی سے اور باقی چار سینیٹ سے لیے گئے۔ان بارہ ممبران میں پی پی پی کے تین، مسلم لیگ نواز کے تین، مسلم لیگ ق کے دو اور متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی اور فاٹا سے ایک ایک رکن لیا گیا۔ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے ایک سال بعد 26 اپریل2011ء کو سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر حکم جاری کیا کہ بہت ہو چکا اب حکومت فوری طور پر آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی تشکیل کرے۔19 مئی کو سپریم کورٹ نے حکومت کو تین ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ اس میعاد کے اندر ہر صورت میں نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کی جائے۔اس دوران26 ارکان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوچکے تھے جس پر سپریم کورٹ نے کہا '' یہ ضمنی انتخابات آئینی نہیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے بعد یہ انتخابات چیف الیکشن کمشنر نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے تحت ہونے تھے جو نہیں ہوئے‘‘۔30 مئی کو پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ بیسویں ترمیم پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے چھبیس ارکان کو قانونی حیثیت دی جا سکے سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی پانچ میں سے چار نشستیں ابھی مکمل نہیں۔یکم جون کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے افتخار چوہدری کے تجویز کردہ جسٹس فضل الرحمن خیبر پختونخوا سے اے این پی اورجمعیت (ف) کی جانب سے جسٹس شہزاد اکبر خان پنجاب سے مسلم لیگ نواز کی جانب سے جسٹس ریاض کیانی اور سندھ سے پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ جسٹس روشن عیسانی کے ناموں کی سفارش کر دی۔یوں الیکشن کمیشن تشکیل پایا۔
اب ایک نہائت ہی اہم اور واضح نکتہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیلئے جو کچھ ہوا وہ تیس مئی سے یکم جون کے دو دنوں میں ہوا۔ اور اسی قلیل مدت میں مک مکا ہوا ؟ کیا مجوزہ آئینی اورقانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر صوبے سے کمیشن کی تشکیل کیلئے نامزد کئے گئے تیرہ حضرات کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے انٹر ویو کیلئے بلایا؟کیا آئین اور قانون کی رو سے پارلیمانی کمیٹی نے سماعت کی ؟۔۔ایسا کچھ بھی نہیں ہوا‘ میری بات کی تصدیق کیلئے سپریم کورٹ‘ ان اراکین کو بلا کر پوچھ سکتی ہے۔ واقعات ان شبہات کی تائید کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے چاروں ارکان مک مکا کے تحت نامزدہوئے۔ انہیں بارہ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کی بجائے آٹھ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی نے نامزد کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے مطابق نہیں کی گئی تھی۔ لہٰذا موجو دہ الیکشن کمیشن اور اس کے تحت ہونے والے انتخابات کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں۔ ا ن حقائق کے پیش نظر سوال یہ ہے کہ عمران خان کے خلاف دائر کیا جانے والا ریفرنس کس دکھ کی غمازی کرتا ہے؟۔