پچاس برس قبل چونڈہ کے میدانوں میں لڑی گئی ٹینکوں کی دوسری بڑی جنگ کے شہداء کی آخری آرامگاہ کی زیا رت کیلئے پھلورا جانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یقین کیجئے بیس سال قبل یہاں کے کھیتوں اور میدانوں میں گھومتے پھرتے پاک فوج کے جوانوں کے خون کی خوشبو اپنے ارد گرد محسوس کر رہا تھا۔ یہ ان مجاہدوں کا خون تھا جنہوں نے چونڈہ میں طوفان کی طرح امڈتے چلے آ رہے بھارت کے فولادی ہاتھیوں کے ساتھ اپنے گوشت پوست کے جسموں کو ٹکرا کر شاستری اور جنرل چوہدری کے سب خواب خاک میں ملا دیئے تھے۔ شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز 9 ایف ایف رجمنٹ کے ان قابل احترام مجاہدوں میں سے گیارہ شہیدوں کے ایک جیسے مرقد پھلورا کے ایک کھیت میں ایک قطار میں دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کچھ قبروں کی شکستہ حالت دیکھ کر میں نے چھ ستمبر کو وہاں آئے ہوئے کچھ لوگوں سے سوال کیا کہ چونڈہ سیکٹر میں ہونے والی شدید جنگ کی وجہ سے ان شہداء کے بچے کھچے جسموں کو واپس لا نا ممکن نہیں تھا اس لئے انہیں اسی کھیت میں دفن کرنا پڑا۔ آج آپ لوگ اپنے گھروں میں سکون سے موجود ہیں تو ان کی قربانیوں کی وجہ سے‘ لیکن کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ذمے ان شہیدوں کا قرض ادا ہو چکا ہے؟
جنگِ ستمبر کی فائر بندی کے بعد ان شہدا میں سے ایک کی بیوہ اپنے شہید خاوند کی قبر پر آئی اور وہ سرخ رومال‘ جو چند ماہ پہلے شادی پر اس کے شوہر نے اسے دیا تھا‘ ایک پتلی سی لکڑی کے ساتھ باندھ کر اس کی قبر کے سرہانے گاڑ دیا۔ بعد میں اس یونٹ کے جوانوں اور دوسرے
شہدا ء کے وارثوں نے بھی سرخ ریشمی رومال سیالکوٹ سے منگوا کر اور انہیں سرکنڈوں سے باندھ کر باقی دس قبروں کے سرہانے گاڑ دیئے۔ اس طرح یہ قبریں ''رومالاں والیاں قبراں‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئیں۔ ہمارے ملک کے بہت سے ایسے خواجہ صاحبان‘ جو آج اقتدار کے بلند عہدوں پر فائز ہیں‘ 1965ء سمیت ہر جنگ میں پاکستان کی فوج کو بزدلی کے طعنے تو دیتے ہیں‘ لیکن کیا وہ یہ جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کے رومیل اور برطانیہ کے جنرل منٹگمری کے درمیان لڑی جانے والی ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ میں دونوں فریقوں کے پاس اس قدر طیارے تھے‘ جن سے آسمان چھپ جاتا تھا اور ٹینکوں کی اس قدر بہتات کہ تا حد نگاہ سیاہ فولاد کے پہاڑ نظر آتے تھے جبکہ چونڈہ میں بھارت کے576 ٹینکوں کے مقابلے میں پاکستان کے پاس کل153 ٹینک تھے۔ چونڈہ میں بھارتی فوج کی نفری پچاس ہزار جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان کی کل نفری صرف9 ہزار تھی۔ ان میں سے بھی کئی یونٹیں ایسی تھیں‘ جو چھمب اور جوڑیاں کے محاذسے تھکی ہوئی آئی تھیں۔ نائن ایف ایف کی اس بٹالین‘ جس کے گیارہ شہداء کی پھلورا کے کھیت میں موجود قبریں 'رومالاں والیاں قبراں‘ کے نام سے مشہور ہیں‘ کے یہ عظیم المرتبت جانباز جذبوں کی جنگ لڑے اور ایک نئی تاریخ رقم
کردی۔ اسے آج بھی ٹینکوں اور انسانوں کی جنگ سے تشبیہ دی جا تی ہے۔ اگر یہ شہداء آگ اور بارود کے گولے بن کر بھارتی ٹینکوں سے نہ ٹکراتے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کے 576ٹینک‘ 450 توپوںاور پیدل اور پہاڑی نفری‘ جس کی تعداد پچاس ہزار سے بھی زیا دہ تھی‘ کا مقابلہ پاکستان کے صرف150 ٹینک اور صرف9 ہزار پیدل نفری کیا کر سکتی تھی؟ دنیا بھر کے جنگی وقائع نگاروں نے ان سرفروشوں کو فولادی انسانوں کا نام دیا تھا۔ فائر بندی کی رات تک چونڈہ، وزیر والی، چوبارہ، پنڈی بھاگو، سبز کوٹ، لالیاں، موسال، تھرو، سیداں، خانپور، بھگیاڑی، پھلورا، ہڈیالہ، جانے والی، کالے والی اور وزیر علی کی گلیوں اور میدانوں میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نائن ایف ایف، جوبہرام پور میں پوزیشن لئے ہوئے تھی‘ کو کوٹلی خادم شاہ کی طرف سے 17 پوناہارس‘ سابوکی طرف سے 5 جاٹ اورمرال کی طرف سے4ہڈسن ہارس کی یلغار کا سامنا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن گیارہ ستمبر کو جو کچھ اپنے دل میں ٹھان کر حملہ آور ہوا تھا‘ اس کے ناکام ہونے کا جنگی نقطہ نظر سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا‘ لیکن نائن ایف ایف کے علاوہ چودہ ایف ایف ، پچیس کیولری کا اے اور سی سکواڈرن‘ سب دشمن کے سیاہ فولادی ہاتھیوں سے ٹکرائے۔ انہوں نے اپنا آپ ہم سب کے مستقبل پر وار دیا۔ آج رومالاں والی ان گیارہ قبروں کی حالت نہ جانے کیسی ہے؟ یہ شکستہ حالت میں موجود بھی ہیں یا نہیں؟ لیکن نہ جانے میرا یقین مجھے کیوں کہہ ر ہا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے شہیدوں سے منہ پھیرنے والے نہیں اور وہ ''رومالاں والیاں قبراں‘‘ اپنی اصلی حالت میں ہی موجود ہوں گی کیونکہ پاکستان کے عوام احسان فراموش نہیں وہ اپنے محسنوں اور مجاہدوں کی قربانیوں کو بھولنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میری چونڈہ اور پھلورا کے ارد گرد رہنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ستمبر میں پھلورا کی ان گیارہ قبروں کو سجا دیں۔ اس مقصد کے لیے اب سیالکوٹ جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ لکڑی کے ساتھ باندھ کر لہرائے جانے والے گیارہ سرخ ریشمی رومال تو اب پھلورا سے بھی مل جائیں گے۔ پھلورا کے رہائشی آج پچاس سال بعد بھی دشمن پر یہ واضح کر دیں کہ ہم اپنے مجاہدوں اور شہیدوں کو نہیں بھولے اور نہ ہی کبھی بھولیں گے۔ جنگ ستمبر کے یہ سب شہداء اور غازی ہماری دعائوں اور سینوں میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔
پاکستانی قوم دیکھ رہی ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے بھارتی فوجوں نے شکر گڑھ اور سیالکوٹ سیکٹر کے سرحدی دیہات کی شہری آبادیوں پر نشانے باندھ باندھ کر فائرنگ اور بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ جس سے اب تک درجنوں پاکستانی شہیداور ایک سو سے زیا دہ زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سے لگ رہاہے کہ بھارت شاید پھر کسی جارحیت کے مو ڈ میں ہے‘ کیونکہ جنگ ستمبر 1965ء میں بھی بھارت کی ون کور کا پاکستان پر حملہ کرتے ہوئے ورکنگ بائونڈری کے جنوب کے علاقوں معراج کے، چارواہ اور نکھنال پر قبضہ کرنے کا پلان تھا۔ عورتوں اور مردوں سمیت شہریوں اور رینجرز کے جوانوں کی آئے روز کی شہا دتیں پاکستانی قوم کے اس جذبے کو پھر سے آواز دے رہی ہیں‘ جس کے تحت مجاہدین نے چونڈہ کے میدانوں میں بھارت کے فولادی‘ دیو ہیکل ٹینکوں کے نیچے اپنے جسموں کو بم باندھ کر اڑا دیا تھا۔آج بہت سے لوگ اسے ایک افسانوی کہانی سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن ایسا کہنے والے شاید بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے576 ٹینکوں اور450 توپوں کے مقابلے میں ہمارے پاس صرف153 ٹینک تھے لیکن پھر دنیا کی جنگی تاریخ نے ایک ایسا منظر دیکھا جو اس سے پہلے نہ تو کبھی کسی نے سنا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ پاکستانی فوج کے جوانوں نے جان کی قربانی دے کر پاکستان کو فتح دلادی۔
میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ