قومی اسمبلی کے حلقہ 154 لودھراں کے ضمنی انتخاب کے لیے قائم کیے گئے 303 پولنگ اسٹیشنزکے نتائج سب کے لیے حیران کن تھے اس لیے کہ یہ وہ حلقہ ہے جہاں پیپلز پارٹی راج کرتی تھی، لیکن اُسے یہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ اس کے حصے میں لاہورکے حلقہ این اے 122کے ضمنی انتخاب سے بھی کم ووٹ آئے اور یہ ایک ہزار کے ہندسے تک بھی نہ پہنچ پائے۔ میڈیا کا کوئی بھی سیاسی تجزیہ کار لودھراں کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کی جیت کو خارج از امکان قرار دے رہا تھا۔ الیکشن سے دو دن پہلے برادرم رئوف کلاسرا نے دنیا نیوز کے نمائندے سے امیدواروں کی پوزیشن کے بارے میں رائے پوچھی تو انہوں نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا کہ مسلم لیگ نواز کے امیدوار صدیق خان بلوچ کی کامیابی کا امکان روشن ہے۔ اسی طرح دوسرے اداروں کے بیشتر تجزیہ کار بھی مسلم لیگ نون کی کامیابی کو تقریباً یقینی قرار دے رہے تھے۔ شرطیں اس بات پر لگ رہی تھیں کہ جہانگیر ترین بیس ہزار سے کم ووٹوں سے ہاریںگے یا اس سے زیا دہ۔ پولنگ شروع ہوئی توصدیق بلوچ نے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے فخر سے اعلان کیا کہ شام پانچ بجے کے بعد جہانگیر ترین اپنے ہیلی کاپٹر پر اسلام آباد جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
لیکن ووٹوں کی گنتی شروع ہونے کے بعد غیر سرکاری، غیر حتمی نتائج سامنے آنے لگے تو سیاسی منظر نامے پر طلاطم بپا ہوگیا اور جب جہانگیر ترین کی چالیس ہزار ووٹوں سے کامیابی کی خبر آئی تو سیاسی حلقے دم بخود رہ گئے۔ سب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ چار حلقے جنہوں نے ملک کو 126 دن کے طویل اور تاریخی دھرنے میں جکڑے رکھا ان میں سچائی تھی۔ عبد العیم خان اور جہانگیر ترین کے حلقوں کے نتائج سامنے آ چکے ہیں، رہی بات این اے 118 سے حامد زمان اور این اے 125 لاہور سے حامد خان کے حلقوں کی تو ان کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے اس لیے کہ جو کچھ ان حلقوں میں کیا گیا وہ کوئی راز نہیں رہا۔ مجھے صوبائی انتظامیہ کے ایک افسر نے جس کا این اے 125 کے الیکشن کے بعد لاہور سے باہر تبادلہ ہو چکا ہے، حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے جوکچھ بتایا وہ میں کبھی ضرور بتائوںگا۔ اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لیے اس ضمن میں کوئی بات کرنا مناسب نہیں؛ البتہ وہ صاحب اﷲ سے اپنے گناہ کی معافی ضرور مانگتے پھرتے ہیں۔
لودھراں کے ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین کا مقابلہ ملک کی تمام جماعتوں سے تھا جن میں مسلم لیگ نون ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام ف اور س، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت اہل حدیث کے تمام گروپ، محمود خان اچکزئی کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی، اہل سنت والجماعت کے محمد احمد لدھیانوی شامل تھے۔ ان تمام جماعتوں نے اپنی سیاسی قوت اور وسائل سے مسلم لیگ نون کے امیدوار صدیق بلوچ کی حمایت کی۔ بلوچستان اسمبلی کے سپیکر کے انتخاب سے سب کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ مسلم لیگ نون کی راحیلہ درانی اس لیے بلا مقابلہ کامیاب ہوئیں کہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے گلاب جمال اپنے کاغذات نامزدگی جمع نہ کرا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بر وقت نیند سے بیدار نہ ہوئے۔ کیا کوئی اس عذرکو قبول کر ے گا؟ کیا ایک مذہبی جماعت کے رکن اسمبلی فجر کی نمازکے لیے نہ جاگے ہوں
گے؟ نواز لیگ سے مولانا فضل الرحمان سمیت دوسری سیاسی جماعتوں کی عقیدت کا تحریک انصاف کو ہر مرحلے پر سامنا کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کو یہ فیکٹر آئندہ بھی سامنے رکھنا ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ اس وقت ملک کی کوئی سیاسی جماعت اس کے لیے نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ چند جماعتیں جو حامی نظر آتی ہیں، ان کا ساتھ بھی وقتی ہے۔
لودھراں کے ضمنی انتخاب کے دن اور اس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکن اپنی جماعت کے جھنڈے اٹھائے ہوئے نواز لیگ کے ہر جلسے میں نمایاں نظر آتے رہے، جس پر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ نواز لیگ کی اصل کزن جماعت مولانا فضل الرحمان گروپ ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب کے وقت بھی جماعت اسلامی اور مسلم لیگ ق کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ تحریک انصاف کی حلیف جماعت، پاکستان عوامی تحریک کے کوریجہ صاحب بھی اپنے سابق محسنوںکے اشارے پر لودھراں کے ضمنی انتخاب میں بطور امیدوار ڈٹے رہے تاکہ انہیں ملنے والے ووٹ تحریک انصاف کو نہ مل پائیں۔
تحریک انصاف کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ پنجاب کے ہر حلقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی جیت کے امکان پر نہیں بلکہ اُس معاہدے کے تحت حصہ لیتی رہے گی جو دیر میں پی پی پی کے امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز لیگ کے امیدوار کو دست بردار کراتے وقت کیا گیا تھا اور جس کا مقصد پی پی پی کے امیدوار کو خیبر پختونخوا میں کامیاب کرانا تھا۔ اس نشست کے بدلے میں پی پی پی ہر ضمنی الیکشن میں ضرور حصہ لے گی تاکہ نواز لیگ کی حریف جماعت کے ووٹ تقسیم کیے جا سکیں۔ ملتان، مظفرگڑھ ، لودھراں اور بہاولپور میں ایم کیو ایم ‘ مکتب اہلحدیث کے مختلف گروپوں اور اہلسنت والجماعت کے خاصی تعداد میں ووٹر اور سپورٹر موجود ہیں جو اپنے علا قوں میں متحرک بھی رہتے ہیں۔ لیکن لودھراں میں ان کی بھر پور مدد بھی نواز لیگ کے کام نہ آ سکی۔ اس پس منظر میں یہ کہنا مبالغہ آمیز نہیں ہوگا کہ تحریک انصاف کے امیدوار جہانگیر ترین نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو شکست دی ہے۔تھری ناٹ تھری(303) پولنگ اسٹیشنزکے نتائج ان سب کے لیے دھچکے سے کم نہیں تھے۔ ان میں میڈیا کے وہ بڑے نام بھی شامل ہیں جو ہر غیر ملکی دورے میں وزیر اعظم کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم ہائوس کے میڈیا سیل نے مبینہ طور پر انہیں خصوصی ہدایات بھی دی تھیں اور لودھراں کے''غیور‘‘ عوام کو دھرنے والوں کا صفایا کرنے پر مبارکباد کے ٹویٹر پیغامات کی عبارت بھی تیار کی جا چکی تھی۔ لیکن ''الٹی ہوگئیں سب تد بیریںکچھ نہ دوا نے کام کیا!‘‘۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، بیت المال، سوئی ناردرن گیس، میپکو، ٹی ایم او، ڈی سی او، آر پی او اور پنجاب پولیس کے خفیہ حربے ناکام ہوگئے۔
یوں تو ہر چینل سب سے پہلے انتخابی نتائج دینے اور سب پر بازی لے جانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اﷲ کے فضل سے دنیا نیوز نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 303 کے پہلے پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ کا اعلان کیا۔