خیر سے وزیر اعظم پاکستان کے سلامتی کونسل کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ ان دنوں بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ گاہے بنکاک اور دبئی، کبھی جرمنی میں دکھائی دیتے ہیں توکبھی اوجھل ہو کر ٹریک ٹو کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ جنجوعہ صاحب کی اجیت دوول سے گاڑھی چھن رہی ہے۔ میں آج جو کچھ کہنے جا رہا ہوں اس کی وہ دوول سے جب چاہیں تصدیق کر سکتے ہیں۔ یہ کہ 24 دسمبر 1999ء کو جب بھارتی ایئر لائن کا طیارہ کٹھمنڈو(نیپال) سے دہلی کے لیے اڑان بھرنے کے بعد اغوا ہوا اور امرتسر کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا تو پنجاب پولیس نے نئی دہلی سے درخواست کی کہ ہمارے کمانڈوز کو ہائی جیکرز کے خلاف کارروائی کرنے کی اجا زت دی جائے کیونکہ ہم نے اپنی طرف سے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ بھارتی حکومت نے یہ معاملہ اجیت دوول کے سامنے رکھا جو اس وقت طیارے کے اغوا کے آپریشن کی براہ راست نگرانی کر نے کے علاوہ ہائی جیکرز سے بات چیت کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے تھے۔ ان کے ساتھ انٹیلی جنس بیورو کے نہکل سندھو، فارن سروس کے ویوک کاٹجو اور 'را‘ کے آنند آرنی شریک تھے۔ جنرل جنجوعہ اگر اجیت دوول سے پچیس سال قبل بھارت کے اغوا کیے جانے والے طیارے کے بارے میں پنجاب پولیس کی پیش کش کے بارے میں پوچھیں تو ہو سکتا ہے کہ اجیت دوول کو یاد نہ رہا ہو کہ جب بھارت کا یہ طیارہ تیل لینے کے لیے امرتسر اتارا گیا تھا تو اس وقت پنجاب پولیس اور اس کے دوسرے اداروں نے ایئر پورٹ کے تمام رن وے بلاک کر دیے تھے اور وہ جہاز میںکمانڈو ایکشن کر نے کے
لیے اجازت کے انتظار میں تھے۔ اس وقت تک ہائی جیکروں کے پاس کسی قسم کا آٹو میٹک ہتھیار نہیں تھا،لہٰذا ہائی جیکرز کے خلاف آپریشن کرنے کا اس سے بہتر موقع بھارت کو نہیں مل سکتا تھا۔ لیکن اجیت دوول نے امرتسر میں پولیس کمانڈوز کو آپریشن کرنے کی اجازت نہ دی۔ شاید وہ جہاز کو ہر حالت میں افغانستان لے جانا چاہتے تھے۔ جنرل جنجوعہ صاحب اجیت دوول سے پوچھیں کہ کیا یہ درست ہے کہ جس دن یہ اغوا شدہ طیارہ امرتسر کے ہوائی اڈے پر اتارا جا رہا تھا، اس دن پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران اور ایئر پورٹ کے ذمہ داران کے فون نمبر تبدیل کئے جا چکے تھے؟ اس کی ضرورت اسی دن کیوں پیش آئی؟
اگر وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی مناسب سمجھیں تو اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے ذریعے اجیت دوول اور مودی سے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ انہیں پٹھان کوٹ پر کی جانے والی کارروائی کا پہلے سے علم تھا یا نہیں؟ اگر وہ کہتے ہیں کہ بھارت کو علم نہیں تھا یا یہ سب ڈرامہ پہلے سے تیارکردہ نہیں تھا تو پھر یکم جنوری کو نئے سال کی شام تین بجے انہوں نے ایک ہنگامی کانفرنس کیوں بلائی جس میں بھارت کے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ بھی شریک تھے اور اس میں پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے بارے میں احتیاطی یا ''ضروری اقدامات‘‘ کے بارے میں تفصیل سے بات کی گئی اور اس کانفرنس میں کیے جانے والے فیصلوں کی روشنی میں فوری طور پر این ایس جی کی ایک بیٹری پٹھان کوٹ روانہ کردی گئی۔ اس کے علا وہ سپیشل فورس کی ایک ٹیم بھی پٹھان کوٹ کے لیے روانہ کی گئی جسے Mamunکی لوکیشن میں رکھا گیا۔ جنرل Panag اپنی اس ای میل میں جنرل ملک کو مخاطب کرتے ہوئے حیرت سے پوچھتے ہیں کہ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی بھی آپریشن کی نگرانی کے لیے کمانڈر کی تعیناتی ہی نہ کی جائے؟ یہی کچھ اجیت دوول نے یہاں کیا کہ آرمی چیف کے ساتھ ایک کانفرنس میں وہ بھارت اور پاکستان کی سرحد کے قریب واقع اس حساس ترین ہوائی اڈے کی کسی ممکنہ حملے سے حفاظت کے لیے تمام فورسزکو اعتماد میں تو لے لیتے ہیں لیکن اس اہم آپریشن کی نگرانی کے لیے کوئی کمانڈر مقرر نہیںکرتے۔ بھارت کے عسکری ادارے اور خفیہ ایجنسیاں شاید اجیت دوول کے آگے بے بس ہو چکے ہیں کیونکہ اس آپریشن کی نگرانی بھی اس نے بھارت کے ہائی جیک کیے جانے والے طیارے کی طرح اپنے پاس ہی رکھ لی۔ اس کے لیے بھارتی فوج کے29 ویں ڈویژن کے کمانڈر کو آپریشن کا انچارج کیوں مقرر نہیں کیا گیا تاکہ وہ ایک کمپنی اس عقبی دیوار کے ساتھ پٹرولنگ کے لیے ڈپلائے کرتا؟ بھارت کے سکیورٹی اداروں کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ چوبیس گھنٹے قبل انہیں اس حملے کی اطلاع مل جاتی ہے لیکن اس کے با وجود سات سے آٹھ حملہ آور دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو جاتے ہیں۔ اجیت دوول کی یہ کیسی ہنگامی کانفرنس تھی جس کے بعد کسی نے سکیورٹی کی خامیوں کا جائزہ ہی نہ لیا اورکسی کو بھی علم نہ ہو سکا کہ جنگل کی جانب سے ایئر بیس کی عقبی دیوارکے کیمرے خراب ہیں، وہاں کی بجلی بھی چیک نہیں گئی تاکہ پتا چلنے پر اس کی خرابی دور کی جاسکتی۔ بھارت کے دفاعی تجزیہ کار حیران ہو رہے ہیں کہ اس اہم ترین فوجی تنصیب پر این ایس جی کی بیٹری بھیجنے کی کیا تک تھی؟ یہ آپریشن تو کلی طور پر کمانڈر 29 ڈویژن کی نگرانی میں ہو نا چاہیے تھا اور ایئر پورٹ کی مکمل سکیورٹی فوج کے حوالے کر دینی چاہیے تھی کیونکہ کون نہیں جانتا کہ ایئر فورس کے پاس میدانی اور آپریشنل طاقت بری فوج کی طرح نہیں ہوتی۔ کیا ہم میں سے کسی کو علم نہیں تھا کہ پاکستان کو مہران بیس اور کامرہ میں جس زبردست نقصان سے دوچار ہو نا پڑا اس کی وجہ بھی یہی تھی؟
بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل HS Panag جو ناردرن ایریا کے کمانڈر رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس کالج کے سابق میجر جنرل Pradyot k mallick کو اپنی بھیجی جانے والی ای میل میں لکھتے ہیں کہ اجیت دوول نے بھارت کا دنیا بھر کی نظروں میں تمسخر اڑا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان کی آئی ایس آئی کے سامنے اپنی لایعنی حرکتوں کی وجہ سے تماشہ بنا دیا ہے۔ دوول نے یہ تماشہ کرتے ہوئے معلوم نہیں کیا حاصل کیا ہے، لیکن وہ تو بھگوان کی کرپا سے نواز شریف نے آئی ایس آئی کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں ورنہ اگر اس دوران دشمن آگے بڑھتے ہوئے مہران بیس اور کامرہ کا بدلہ لینے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اندرگھسنے کی کوشش کرتا تو بھارت کا مہران اور کامرہ سے کئی گنا زیادہ نقصان ہوتا جو ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان ہونے کے علاوہ انٹرنیشنل بارڈرکے قریب ہمارا یہ اہم ترین ایئر بیس ناکارہ ہوکر رہ جاتا۔ دنیا بھرکے دفاعی اور سفارتی اداروں کے سامنے جو افراتفری مسلسل دو دن تک پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے کے ارد گرد دیکھنے میں آ تی رہی ہے، وہ کسی بھی اہم تنصیب یا حساس نوعیت کی انسٹالیشن کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ اگر مہران بیس اور کامرہ کا انتقام لینے کے لیے آئی ایس آئی اپنی سرحد سے قریب ترین واقع اس ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے سے احتراز نہ کرتی توہمارا یہ ایئر بیس تو اس جیسی ایجنسی کے لیے Sitting Duck بن چکا تھا۔
اجیت دوول کی فرمائش اور نریندر مودی کی خواہش پر ہمارے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پٹھان کوٹ واقعے پر کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ممبئی حملوں کی طرح یہاں بھی کوئی طارق کھوسہ جیسے پولیس اور آئی بی کے ذہین افسر موجود نہ ہوں۔ بھارت سے یہ ضرور پوچھیں کہ ''کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ملک کی ایجنسیوں کی جانب سے بھجوائے گئے حملہ آور دوسرے ملک کی سر زمین سے موبائل فون چھیننے کے بعد انہی نمبروں سے اپنے سہولت کاروں سے رابطے کرتے رہیں تاکہ دنیا بھر کو ان کی نشاندہی ہو جائے؟