"MABC" (space) message & send to 7575

قلات کا پاکستان سے الحاق

21 ستمبر 2006 ء کو قلات میں منعقدہ جرگہ میں اب وزیر اعلیٰ بلوچستان اور چیف آف جھلاوان سردار ثنا اﷲ زہری، سردار ذوالفقار علی مگسی، سرداراختر مینگل سمیت 90 کے قریب دوسرے سردار شرکت ہوئے۔ سردار ثنا اﷲ زہری نے جو اس وقت وزیر اعلیٰ نہیں تھے، جرگے کے فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان میں جاری تمام میگا پروجیکٹس کی مخالفت کرتے ہیں، گوادر پورٹ کو ہم کسی صورت بھی مکمل نہیں ہونے دیں گے، یہ ہما ری لاشوں پر ہی بن سکے گی ۔ موجودہ خان آف قلات سلمان دائود نے کہا تھا ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کی ریا ست قلات کے پاکستان سے الحاق کو عالمی عدالت انصاف میں چیلنج کیا جائے۔
1945ء میں قلات میں نیشنل پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی جس میں عبد الرحیم خواجہ خیل، میر غوث بخش بزنجو، ملک فیض محمد اور کچھ دوسرے لوگ شامل تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیشنل پارٹی کے ان لوگوں نے آل انڈیا سٹیٹ پیپلزکانفرنس میں شمولیت کا فیصلہ کیا جس کے سربراہ جواہر لال نہرو تھے۔ یہ تاریخ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ بلوچستان اور دنیا بھر میں موجود بھارتی ایجنٹ قلات کے پاکستان سے الحاق کے خلاف 27 مارچ یوم سیاہ کے طور پر منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ نیشنل پارٹی بننے کے بعد مسلم لیگ کی جد وجہد سے پاکستان بننے کی منزل قریب آتی جا رہی تھی اور پنڈت نہرو کی نگرانی میں بننے والی آل انڈیا اسٹیٹ پیپلز کانفرنس کی سازشی سرگرمیوں میں بھی تیزی آنے لگی تھی۔ 11 اگست 1947ء کو پیپلز کانفرنس نے ریاست قلات کی جانب سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں از خود قلات کی آزاد ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ 15اگست 1947ء کو جس دن ہندوستان اپنی آزادی کا دن منا رہا تھا، میر احمد یار خان نے قلات کے ایک جلسہ میں ہندوستان کو انگریز سے آزادی کی مبا رکباد دیتے ہوئے آزاد بلوچستان کی حمایت کرنے پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ مولوی نور محمد، مولوی محمد افضل مینگل اور مولوی محمد عمر جیسے بھارت نواز مولویوں نے اس موقعہ پر غوث بخش بزنجو کی پاکستان کے خلاف کی گئی تقریر پر کہا کہ ''بزنجو نے آج جو تقریر کی ہے وہ اگرچہ اس کی زبا ن سے نکلی ہے لیکن دراصل اس نے ایک ایک بلوچ کی ترجما نی کی ہے، ہم پاکستان کے ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ ان مولویوں کی یہ با تیں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں بلکہ ہندوستان کے کہنے پر محمد حسین عنقا اور مولوی محمد افضل کی سربراہی میں ان تمام علماء نے قائد اعظم کے خلاف ایک متفقہ فتویٰ دیتے ہوئے انہیں اور پاکستان کو اسلام کی صف سے خارج کر تے ہوئے کفر کا فتویٰ دے دیا۔ جنوری 1948ء کو قائد اعظم محمد علی جناح نے خان آف قلات کو فوری طور پر پاکستان سے ادغام کا خط لکھا۔ 13 فروری 1948ء کو خان آف قلات نے جواب دیا کہ انہوں نے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کر لیے ہیں اور فروری کے آخر تک وہ کوئی فیصلہ کر لیں گے۔ 25 فروری 1948ء کو خان آف قلات نے'' ڈھا ڈر‘‘ میں ایوان زیریں کا اجلاس بلایا جسے ناکام کرنے کے لئے پنڈت نہروکی سٹیٹ پیپلزکانفرنس کے عہدیداروں نے سازشیں شروع کر دیں، جس پر 27 فروری کو ایوان بالا میں طویل بحث کے بعد سردار حاجی محمد خان شہوانی کی تجویزکو قراد داد کے طور پر منظور کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو مطلع کیا گیا کہ ہمیں کسی فیصلہ پر پہنچنے کے لئے تین ما ہ کی مدت درکار ہے۔ پھر 27 مارچ 1948ء کو خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا با قاعدہ اعلان کر دیا۔
اس اعلان کے فوراً بعد کانگریس کے وفادار اور تنخواہ دار سرداروں نے بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت کی سازشیں شروع کر دیں۔ مکران سے قلات جاتے ہوئے''نال‘‘ کے مقام پر پرنس 
کریم اور غوث بخش بزنجو نے بغاوت کرنے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ 16 مئی 1948ء کو پرنس عبد الکریم خان نے پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کر تے ہوئے افغانستان کے علاقے شوراوک کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔ مگر دوسری طرف خان آف قلات نے ایک اشتہار جاری کر کے بلوچ قوم سے اپیل کی کہ ''پرنس کریم ان کی مرضی و منشا کے خلاف پاکستان کا با غی ہوگیا ہے اس لیے اس کی کو ئی مدد اور معاونت نہ کی جا ئے۔ لیکن پرنس کریم کو بھارت کی مکمل شہہ تھی اس لیے وہ افغانستان سے مدد اور اسلحہ لے کر بلوچستان میں داخل ہوگیا۔ اس وقت اس کی فوج کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی جس پر افواج پاکستان نے بریگیڈیر محمد اکبر خان کی قیادت میں بھارت اور ظاہر شاہ کی اس سازش کو نا کام بنا تے ہوئے ان کا یہ حملہ پسپا کر دیا۔ تاریخ کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ جب ایک طرف بلوچستا ن کے مدرسوں کے مولوی اور ان کے شاگرد قائد اعظم کو کفر کے فتووں سے نواز رہے تھے اور دوسری طرف پرنس کریم اور مری و مینگل ہندوستان کی مدد سے پاکستان پر فوج کشی کر رہے تھے، اس وقت بانی پاکستان زیارت میں شدید بیماری کی حالت میں تھے، لیکن اس کے باوجود آنے والی نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کے نشان بلوچستان کی حفاظت 
کے لئے فکر مند تھے اور جب اپنی جان اپنے رب کے حضور پیش کی تو زبان پر پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی دعا تھی۔
آج صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا عرصہ نکال دیں تو وہاں بر سر اقتدار لوگ بھارت کی مدد سے وقفے وقفے سے اندورنی اور بیرونی سازشوں پر عمل کر تے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنے مہروں کو استعمال کر رہے ہیں۔ 21 ستمبر 2006 ء کو ایک نام نہاد جرگے نے جو اعلان کیا تھا آج ایک بار پھر وہی لوگ 27 مارچ کو بلوچستان میں ہڑتال اور یوم سیاہ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس صوبے کو لہو لہو کرنے کے لئے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لوگ پیش پیش ہیں اور اس سلسلے میں بھارت کی نیوی سےRAW کے لئے کام کرنے والے کمانڈر بھوشن یادیو کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ اسی سازش کا حصہ ہے جو بھارت کے ان ایجنٹوں اور ان کے اجداد نے1947ء میں پنڈت نہروکی زیر قیادت کام کرنے والی آل انڈیا سٹیٹ پیپلز کانفرنس کے تحت کیا تھا۔ تاریخ کے ان خفیہ اوراق کو بلوچ عوام کے سامنے لانا ضروری ہوگیا ہے کیونکہ یہ سب بلوچ سردار در اصل خان آف قلات کے اس لئے خلاف تھے کہ اس کے بھائی شہزادہ عبد الکریم جس کی افغانستان کے ظاہر شاہ خاندان سے قریبی رشتے داری تھی کی سازش میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے خان آف قلات سے ذاتی تعلقات تھے اور وہ اپنے بعد ان کو پاکستان کا گورنر جنرل دیکھنا چاہتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں