"MABC" (space) message & send to 7575

نشانہ بنانے سے پہلے سوچ لیں!!

سابق صدر سردار فاروق لغاری، چیف جسٹس(ر) سجاد علی شاہ، جنرل(ر) اسلم بیگ، جنرل(ر) وحید کاکڑ، جنرل آصف نواز شہید، جنرل(ر) پرویز مشرف نے آپ کا نو رتن بننے سے انکار کیا تو آپ نے ان کی توہین کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اب جب جنرل راحیل شریف نے ذاتی وفاداری کی بجائے ملک کے وقار اور مستقبل کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے تو آپ کے سدھائے ہوئے میڈیا نے بھارتی گولوں سے بھری ہوئی توپوں کے رخ ان کی طرف پھیر دیے ہیں۔ آپ اُس خاندان کی کردار کشی کے لئے اپنے گھوڑوں اور مہروں کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا خون اس دھرتی کی آج بھی آبیاری کر رہا ہے۔ 
آپ کو شاید علم ہی نہیں کہ 3 دسمبر1971ء کی شام کو ایک میجر اپنی کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے کنکریٹ سے بنائے گئے مضبوط دفاعی بنکرز کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اسے علم تھا کہ ان بنکرز میں جدید ترین اسلحہ سے لیس دشمن کے سینکڑوں افسر اور جوان فائر کھولنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، لیکن وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے ان پر حملہ آور ہوگیا۔ دشمن کی رجمنٹ نے پاکستانی فوج کی حملہ آورکمپنی کا اسلحے کے زور میں مقابلہ کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن اﷲ کے شیروں نے جلد ان بنکروں پر قبضہ کر لیا۔ لیکن ابھی معرکہ سر نہیں ہوا تھا، اس لیے کہ دشمن کی ایک فوجی چوکی جھانگڑ پر بھی قبضہ کرنا ضروری تھا۔ یہ ایک سرحدی علا قہ تھا اور دشمن نے جھانگڑ چوکی سے پیچھے دو میل تک جگہ جگہ بارودی سرنگوں کا جال بچھایا ہوا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر پاکستانی فوج کسی طرح جھانگڑ تک پہنچ بھی جائے تو آگے کی طرف سے پیش قدمی نہ کر سکے۔ ان بارودی سرنگوں کے بعد بھارت کا ایک بڑا دیہات بیری والا تھا جس کے بعد تیس فٹ چوڑی اور دس فٹ گہری دفاعی'سربونا نہر‘ تھی۔ دسمبر کی یخ بستہ سردیوں میں برف جیسا پانی بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ پاکستانی فوج کی اس کمپنی کا ہدف اس نہر کو عبور کرکے دوسری جانب بھارت کے ایک بند پر قبضہ کرنا تھا۔ اس معرکے میں دشمن بھارت کو ایک ٹینک سکواڈرن اور توپ خانے کی مدد حاصل تھی۔
پاکستان کی اس کمپنی کی کمان میجر شبیر شریف کر رہے تھے۔ ان کو سونپا جانے والا مشن سوائے شہادتوںکے کچھ نہ تھا۔ پاکستان کو اطلاع مل چکی تھی کہ دشمن جھانگڑ کے مقام سے ایک بہت بڑا حملہ کرنے والا ہے جسے روکنے کے لئے وہاں پاکستان کی صرف ایک کمپنی موجود تھی۔ بریگیڈیر کمانڈر ایک کمپنی کے ساتھ دشمن پر پے در پے حملوں کی اجا زت دینے سے ہچکچا رہا تھا، لیکن میجر شبیر شریف پہل کرتے ہوئے بھارت کے مضبوط سرحدی دفاعی مورچوں پر قبضہ کرنے کے لئے مسلسل اصرار کئے جا رہا تھا، جس پر بریگیڈئر کمانڈر نے اجا زت دے دی۔ پھر آسمان نے دیکھا کہ پاکستان کی اس کمپنی نے بھارت کی تمام دفاعی لائنیں روندتے ہوئے جھانگڑ چوکی پر قبضہ کر لیا جہاں بیٹھ کر بھارتی فوجی افسر پاکستان پر حملوں کی کمانڈ اور پلاننگ کرتے تھے۔
جھانگڑ سے آگے دشمن کی بچھائی جانے والی بارودی سرنگوں کا جال تھا، جہاں قدم قدم پر موت تھی، لیکن کمپنی کمانڈر دشمن کو سنبھلنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے کیونکہ وہ حکمت و تدبیر کے ساتھ خطروں میں کودنے کے عادی تھے۔ سب سے آگے بڑھتے ہوئے اور جوانوں کی شہادتیں دیتے ہوئے وہ یہ علا قہ عبور کر گئے۔ جیسے ہی دشمن کو اس معجزے کی اطلاع ملی تو اس نے خود کار اسلحے اور توپخانے سے گولہ باری شروع کر دی۔ اس دوران پاک فوج کی کمپنی کا ایک توپچی شہید ہوگیا تو اس کے فرائض بھی کمپنی کمانڈرکو خود سنبھالنے پڑگئے۔ جیسے ہی اس رات کی صبح ہوئی، دشمن نے کئی گنا زیادہ فوج کے ساتھ حملہ کر دیا۔ ہلکی اور بھاری توپوں کے علاوہ اسے ٹینکوں کی مدد بھی حاصل تھی۔ اس محاذ پر انسانوں اور ٹینکوں کی خوفناک جنگ شروع ہو گئی۔ کمپنی کے بہت سے جوان شہید ہو گئے اور ساتھ ہی اسلحہ بھی ختم ہونے کو آ گیا، لیکن بچے کھچے جوانوں کے ساتھ کمپنی کمانڈر بے جگری سے دشمن سے لڑتا رہا۔ دوسری رات کی تاریکی پھیلی تو دشمن نے تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے اور اس دوران بھارتی فوج کا کمپنی کمانڈر میجر شبیر کے مورچے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ کئی راتوں کے جاگے ہوئے میجر نے چابکدستی سے دشمن کے کمپنی کمانڈرکو دبوچتے ہوئے اسے ہلاک کر دیا، تلاشی کے دوران انتہائی اہم فوجی دستاویزات حاصل کیں جن میں خفیہ فوجی راز چھپے ہوئے تھے۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اسی رات دشمن نے اپنی آسام رجمنٹ اور جاٹ رجمنٹ کی دو بٹالین کے ساتھ اس بچھی کھچی کمپنی پر وقفے وقفے سے پانچ حملے کئے جسے پاکستان کے اس سپوت نے ناکام بنا دیا۔
اگلی صبح بھارتی فوج نے یہ علاقے واپس لینے کے لئے ٹینکوں اور ہوائی جہازوں کی مدد سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں دشمن کے ٹینک کا ایک گولہ میجر شبیر شریف کے سینے پر لگا۔ یہ 6 دسمبر1971ء کا دن تھا۔ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوتے وقت میجر شبیر نے اپنی کمپنی کو پیغام دیا: ''میرے جوانو! میرے پیچھے پیچھے شہادت کی منزل پا لینا لیکن جیتے جی قبضے میں لئے گئے دشمن کے اس بند اور پل کو کسی قیمت پر نہ چھوڑنا‘‘۔
میجر شبیر شریف کو نشان حیدر کا اعزاز ملا۔ انہیں دیگر شہداء پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ یہ غازی بھی تھے اور شہید بھی۔ غازی اس طرح کہ معرکہ ستمبر 1965ء میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں داد شجاعت دیتے ہوئے ستارہ جرأت حاصل کیا اور جنگ1971ء میں صرف ایک کمپنی کے ساتھ اپنے رستے میں آنے والی دشمن کی مضبوط دفاعی لائنوں کو کچلتے ہوئے دشمن کے کئی میل اندر جا کر جام شہا دت نوش کیا جس کے صلے میں انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔ میجر شبیر شریف شہید، پاکستان کی بری فوج کے چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔ جنگ ستمبر میں جب وہ دشمن کے خلاف داد شجاعت دے رہے تھے تو اسی معرکہ حق و باطل میں ان کے والد گرامی میجر شریف بھی شریک جہاد تھے، ساتھ ہی برادر گرامی کیپٹن ممتاز شریف بھی جان ہتھیلی پر لئے دشمن کے ناپاک قدموں کو پاک دھرتی کی جانب بڑھنے سے روک رہے تھے۔ جنگ ستمبر میں بہادری اور اعلیٰ کارکردگی پر کیپٹن ممتاز شریف کو ستارہ بسالت سے نوازا گیا۔
انگلی کا شارہ کرکے اس خاندان کو دھمکا نے والے بھول رہے ہیں کہ یہ وہ خاندان ہے جس نے اس ملک کو میجر عزیز بھٹی اور میجر شبیر شریف کی صورت میں دو نشان حیدر دیے۔ان میں سے میجر شبیر شریف شہید، نشان حیدر کو اعلیٰ کارکردگی پر کاکول میں اعزازی شمشیر سے نوازا گیا تو میجر عزیز بھٹی شہید، نشان حیدر نے بھی شمشیر کا اعزاز لیاقت علی خان سے حاصل کیا۔ کیپٹن ممتاز شریف نے وطن کا دفاع کرتے ہوئے ستارہ بسالت پایا اور میجر شریف دفاع وطن کے لئے 1965ء کی جنگ میں دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنا رہا۔ افسوس کہ پاناما لیکس کے الزامات اس فوجی سربراہ کے سرتھونپے جا رہے ہیں جس کا والد اور دو بھائی دفاع وطن کی خاطر کٹ مرنے کے لئے میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے رہے۔ خدا کا خوف کرو، اس خاندان کے سپوت کی جانب انگلیاں مت اٹھائو جس کا تعلق اب تک پاکستان کے سب سے زیا دہ Decorated Soldier سے ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں