یہ کالم پڑھتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ اس وقت جنوبی کوریا میں نیوکلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) کا اجلاس اپنے آخری مرحلے میں ہے۔ چیف جسٹس سندھ کے بیٹے اویس شاہ کا اغوا اور مشہور قوال و صوفیانہ کلام کے شہنشاہ امجد صابری کا بہیمانہ قتل ایک ایک دن کے وقفے سے ہوئے۔ادھر این ایس جی کی رکنیت کے لئے پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دنوں سے عالمی میڈیا میں زبردست مہم جاری ہے۔ ایک طرف امریکہ ، برطانیہ‘ روس اور اس کے تھنک ٹینک بھارت کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں تو دوسری جانب چین کی حکومت ان سب کی راہ میں دیوار بن کر کھڑی ہے ۔ چین کے ساتھ ترکی، آئر لینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریا اور برازیل بھی بھارت کو رکنیت دینے کے خلاف ایک صفحہ پر ہیں۔ جمعہ کے روزجنوبی کوریا کے شہر سیئول میں اس کا حتمی فیصلہ ہو جائے گا ۔ دو دن ہوئے عوامی جمہوریہ چین کے صدر نے تاشقند میں کھلے لفظوں میں کہہ دیا کہ بھارت سے زیا دہ پاکستان نیو کلیئر سپلائی گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کا اہل ہے۔ یہ اہلیت بھارت کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے‘ اسی لئے اس نے اس اہم اجلاس سے دو دن پہلے کراچی میں دو زبردست کھیل کھیلتے ہوئے دنیا بھر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ جس پاکستان کو این ایس جی کی رکنیت دینے کا سوچ رہے ہیں وہاں امن و امان کی یہ صورت حال ہے۔
چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کے اغوا کو ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور پاکستان کی پوری انتظامیہ کے علاوہ امن و امان نافذ کرنے والے ادارے اویس شاہ کو تلاش کرنے کے لئے کراچی میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھیںکہ اگلے دن ملک کے ایک مشہور فن کار کو کراچی کی ایک پر رونق سڑک پر سینکڑوں لوگوں کی مو جو دگی میں قتل کر دیا گیا۔ ان دو واقعات سے صرف دو دن قبل دو اسماعیلی اور ایک احمدی ڈاکٹرکو ان کے کلینک میں گھس کر قتل کیا گیا تاکہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے پاکستان میں ڈاکٹروں جیسے مقدس پیشے کے لوگوں کی زندگیاں مشکل ہو چکی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر جانب دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا راج ہے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی امجد صابری کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے قبول کر لی جاتی ہے تاکہ سب جان جائیں کہ طالبان کے گروہ پاکستان میں چھائے ہوئے ہیں اور جس ملک کے سب سے بڑے صنعتی اور تجارتی شہر میں دہشت گردی کی یہ حالت ہو وہاں اس کی کوئی بھی چیز محفوظ نہیںرکھی جا سکتی ۔
بھارت نے کیا چال چلی، ایک جانب دنیا بھر کا میڈیا اور سفارتی حلقے پاکستان اور ہندوستان کے لئے اس کی رکنیت کے ابتدائی مرحلے پر گفت و شنید اور کنویسنگ میں مصروف تھے اور نیوکلیئر سپلائر گروپ کے اجلاس کی خبریں آ رہی تھیں کہ چیف جسٹس سندھ سجاد علی شاہ کے بیٹے کے اغوا کی خبر سامنے آ جاتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر دنیا بھر کے میڈیا پر چھا جاتی ہے۔ یہی دشمن کا مقصد تھا اور ستم دیکھیے کہ ابھی اس اغوا کی باز گشت سنائی دے رہی
تھی کہ اگلے ہی دن پاکستان کے معروف نعت خواں اور صوفیانہ کلام کے بے تاج بادشاہ امجد صابری کو دن دہاڑے کراچی کی سڑکوں پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔ اس قتل پر پاکستان کا ہرفرد خون کے آنسو بہا کر رہ جاتا ہے۔ امجد صابری کے قتل کی خبر چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا سے بھی زیا دہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے اور پے در پے یہ دو صدمے اور واقعات سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیتے ہیں۔ دشمن اپنی خفیہ ایجنسیوں اور ایجنٹوں کے ذریعے اس سے جو کچھ حاصل کرنا چاہتا تھا وہ کامیابی سے حاصل کر لیتا ہے۔ سی سی ٹی وی کی سامنے آنے والی فوٹیج کے مطابق امجد صابری کے قتل کی پلاننگ کرنے والوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تفتیشی ایجنسیوں کو دھوکہ دینے کے لئے موٹر سائیکل پر سوار قاتلوں میں سے ایک کو پینٹ قمیض اور دوسرے شخص کو جو موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا۔ اس سے
ان کا مقصد شاید یہ ہو اور وہ یہ تاثر چھوڑنا چاہتے ہوں کہ اس ٹارگٹ کلنگ میں ایک شہری اور دوسرا دیہی علاقے کا فرد ہے یا دونوں علیحدہ علیحدہ زبان بولنے والے ہیں۔ موقع واردات پر امجد صابری کو قتل کئے جانے کی لمحہ بہ لمحہ جو فوٹیج پہلے دن سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی اس کے قدموں اور ہاتھوں کی جانب دیکھیں تو ٹارگٹ کلر انتہائی بے خوف اور ماہر نشانہ باز لگ رہا ہے۔ اس کے کھڑے ہونے کا انداز اور چہرے سے بے خوفی اور سفاک پن ظاہر کر رہا ہے کہ اس کے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اس کے لئے معمول کی کارروائی ہے اور یہی حالت اس کے ساتھ آنے والے شلوار قمیض پہنے ہوئے شخص کی ہے۔ نجی ٹی وی چینلز نے ان دو نوں ٹارگٹ کلرز کی موٹر سائیکل پر امجد صابری کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے جو ویڈیو دکھائی ہے اس میں پیچھے بیٹھے ہوئے شخص کا چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے جس سے اس کی شناخت مشکل نہیں‘ لیکن سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ بے احتیاطی ان سے جان بوجھ کر ہوئی یا اس کی کوئی اور وجہ ہے، اس پر آگے بات کریں گے۔
ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل چلانے والا شخص کراچی کی ڈرائیونگ کا ماہر معلوم ہوتا ہے جسے اچھی طرح علم ہے کہ واردات کے بعد کیسے اور کدھر سے غائب ہونا ہے۔۔۔۔اور ممکن ہے کہ اس کے پیچھے سفید شلوار قمیض پہنے ہوئے شخص کی شناخت مقامی نہ ہو کیونکہ یہ واردات کرنے والے اور کرانے والوں سے یہ حقیقت کیسے چھپی ہوئی رہ سکتی ہے کہ CCTV فوٹیج ان کی نقل و حرکت کو اپنے اندر مقید کر سکتی ہیں۔ امجد صابری کو ٹارگٹ کرتے ہوئے نشانہ بنانے والا قاتل تو وہی ہے جس نے اپنے سر پر ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اور فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ اس نے ہیلمٹ اتار کر اپنے موٹر سائیکل پر رکھا ہوا ہے‘ اگر یہ دونوں دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر چاہتے تو موقع واردات پر اپنی شنا خت چھپانے کے لئے ہیلمٹ پہن سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ امجد صابری پر براہ راست فائرنگ کرنے والے قاتل کی شکل اس وقت سامنے آتی ہے جب اسے ہیلمٹ اتار کر اپنے ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔
لیاقت آباد میں ٹریفک کا جام ہونا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے‘ جیسے ہی دہشت گرد گاڑی میں بیٹھے ہوئے امجد صابری پر فائرنگ کرتا ہے تو ہر قسم کی سواری پر وہاں موجود لوگوں کا ڈر اور خوف سے بھاگنا اورگاڑیوںکو تیزی سے کسی بھی جانب سے نکال لے جانا قدرتی بات تھی۔ اس موقع پر اگر ٹریفک ایسی وارداتوں کے بعد حسب معمول بے ترتیبی کا شکار ہوجاتی تو ان ٹارگٹ کلرز کے لئے مو ٹر سائیکل پر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ تو کیا یہ جگہ پہلے سے منتخب کی گئی تھی؟ اس کا مطلب ہوا کہ قاتلوں کو امجد صابری کے پروگرام کا پہلے سے علم تھا کہ آج کتنے بجے انہوں نے گھر سے نکل کر کہاں اور کس طرف جانا ہے؟