بیرون ملک ملازمت کا پروانہ ملنے کے بعد لیبارٹری سے اسے چند مخصوص ٹیسٹ کروانے کیلئے جانا پڑا، وہ ایک دوست کو بھی ساتھ لے گیا۔ وہاں پر اسے ایک کے بعد دوسرا ٹیسٹ کرواتے ہوئے خاصی دیر ہو گئی کیونکہ اس مقصد کیلئے دور و نزدیک سے آنے والوں کی قطار بہت ہی لمبی تھی۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد دونوں دوست موٹر سائیکل پر اپنے گھروں کی جانب واپس جانے کیلئے جناح ہسپتال کے نزدیک پہنچے تو پولیس والوں نے ناکہ لگایا ہوا تھا جہاں پر انہیں روک لیا گیا اُن کے ڈرائیونگ لائسنس اور موٹر سائیکل کے تمام کاغذات چیک کئے گئے جو کہ مکمل اور درست تھے لیکن انہیں جانے کی اجا زت نہ دی گئی۔ ان کے تمام جسم کی تلاشی لی گئی کچھ نہ نکلا لیکن اچانک ایک کانسٹیبل نے ایک سگریٹ ان کے سامنے لہراتے ہوئے گندی سی گالی دیتے ہوئے کہا اوئے چرس پیتے ہو۔۔۔وہ دونوں نو جوان حیران سے رہ گئے کہ یہ کانسٹیبل کیا کہہ رہا ہے اور یہ سگریٹ کہاں سے لے آیا ہے جبکہ ہم دونوں نے تو زندگی بھر کبھی سگریٹ پیا ہی نہیں اور وہ بھی ان پولیس والوں کی جانب سے چرس والے سگریٹ کا ہم پر الزام لگایا جا رہا ہے رات بارہ بجے کا وقت تھا اور پولیس والے ان تعلیم یافتہ اور ایک بہت ہی اچھے ادارے میں کام کر نے والوں کو گندی اور انتہائی فحش قسم کی گالیاں بکے جا رہے تھے۔
دونوں نوجوان قسمیں کھا رہے تھے کہ یہ سگریٹ ان کی نہیں اور اگر انہیں یقین نہیں آ رہا تو وہ ان کا کسی بھی ہسپتال سے چیک اپ کروا لیں اگر ہم نے زندگی بھر کوئی عام سگریٹ بھی پیا ہو پولیس والوں نے کہا کہ ہم تمہیں تھانے لے کر جائیں گے جہاں تمہاری چھتر پریڈ ہو گی اس کے بعد دیکھیں گے کہ تم سگریٹ پیتے ہو یا نہیں؟۔ اگر اپنی جان بچانا چاہتے ہو تو اسی وقت پانچ ہزار روپے ادا کرو ورنہ تھانے کی حوالات میں جانے کیلئے تیار ہو جائو۔ان نوجوانوں نے ان کی منت سماجت شروع کر دی کہ ہمارے پاس پانچ ہزار روپے نہیں ہیں ہماری اچھی طرح تلاشی لے لیں ہم دونوں کے پاس جتنے بھی پیسے ہیں لے لیں اور ہمیں چھوڑ دیں ان دونوں کی تلاشی لینے پر کل سولہ سو روپے نکلے پولیس والوں نے وہ تمام پیسے لینے کے بعد انہیں جانے کی اجا زت دے دی۔یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ لاہور اور اس کے گردو نواح میں روزانہ ایسے نہ جانے کتنے واقعات عام لوگوں سے پیش آتے رہتے ہیں جب یہ واقعہ سنایا جا رہا تھا تو ایک منظر میرے سامنے گھومنے لگا جس کا میں خود شکار ہوتے ہوتے رہ گیا میں اپنے ایک عزیز کے ساتھ ڈیفنس کی جانب جا رہا تھا کہ قذافی سٹیڈیم کے اندر شروع میں ایک پولیس ناکے پر ہمیں روک لیا گیا دو کانسٹیبل آگے بڑھے اور ہماری گاڑی کے اند ر ڈیش بورڈ اور سیٹوں کی تلاشی شروع کر دی ا س کے بعد انہوں نے ہمیں گاڑی کی ڈگی کھولنے کا حکم دیا ہم نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ڈگی کھول دی اور وہ تلاشی لینا شروع ہو گئے اس پر دور کھڑے ایک کانسٹیبل نے میرے پاس آ کر کان میں کہا کہ آپ جلدی سے ڈگی کے پاس چلے جائیں جس پر میرے دما غ میں اپنے ایک دوست کا سنا یا ہوا واقعہ بجلی کی طرح کوندا اور میں جلدی سے ڈگی کے پاس پہنچا اور میری نظر کانسٹیبل کے دائیں ہاتھ کی جانب اٹھ گئی جس میں سے وہ کوئی سگریٹ نکال رہا تھا۔اس کا ہاتھ وہیں رہ گیا اور جلدی سے وہ اپنی جگہ سے ہٹ کر دور بھاگ گیا ان کی نگرانی کیلئے کھڑا ہو ایک اے ایس آئی
سخت غصے میں اسے گھورے جا رہا تھا کہ اس نے اپنا کام جلدی کیوں نہیں دکھایا جلدی سے ہمیں جانے کی ا جا زت دے دی گئی لیکن میں وہیں رکا رہا تو وہی کانسٹیبل میرے پاس آیا اور بولا جناب جلدی سے نکل جائیں اﷲ کا شکر ادا کریں ورنہ آپ کی کار کی ڈگی سے ہیروئین بھرے سگریٹ بر آمد ہو جانے تھے۔
ٹیلی ویژن اور اخبارات میں پنجاب حکومت کی جانب سے بے تحاشا اشتہارات کے ذریعے والدین کو ہدایات کی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں ون ویلنگ کی بری عادت سے منع کریں جس میں اب تک درجنوں زندگیاں ضائع ہونے کے علا وہ سینکڑوں کی تعداد میں نئی نسل اپا ہج ہو چکی ہے اس سلسلے میں لاہور کے بازاروں، مارکیٹوں اور سڑکوں پر پولیس کی جانب سے بینرز بھی لگائے گئے ہیں جوکہ ایک قابل قدر اور بہترین قدم ہے ہر ویک اینڈ پر لاہور کی جلو سے ٹھوکر نیاز بیک تک کینال روڈ، گلبرگ روڈ اور مال روڈ سمیت جیل روڈ ان ون ویلر کی قتل گاہ بنی ہوئی ہوتی ہے،ساتھ ہی ان کی وجہ سے یہاں پر ایک عجب قسم کی ہڑبونگ اور۔۔۔۔اودھم مچارہتا ہے، ہر سال یوم آزادی پر تو اس طرح کاطوفان بد تمیزی دیکھنے کو ملتا ہے لگتا ہے کہ کوئی مادر پدر آزاد معاشرہ ہے جہاں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی شرم و حیا اور اخلاق نام کی کسی پابندی کا کوئی رواج ہے۔
ون ویلنگ کی روک تھا م کیلئے قانون اپنی جگہ درست اور بر وقت ہے لیکن اس قانون کی ہلہ شیری اور بند رکے ہاتھ میں ماچس تھمانے کی وجہ سے جو منا ظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے مجھے یقین ہے کہ والدین اپنے بچوں کو ون ویلنگ تو بہت دو رکی بات ہے موٹر سائیکلوں پر گھر سے نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ پنجاب یونیورسٹی کا انڈر پاس کراس کرنے کے بعد میرے بائیں ہاتھ پر ایک موٹر سائیکل پر دو نوجوان سوار تھے اب میں انہیں دیکھ رہا تھا کہ آگے بیٹھا ہوا نوجوان انتہائی مہذب طریقے سے بائیک چلا رہا تھا جیسے ہی وہ مسلم ٹائون پر لیاقت علی خان انڈر پاس کے نیچے گزرنے کیلئے داخل ہونے لگا تو پولیس کے دو سپاہیوں نے جو ہاتھوں میں شہتوت کے بڑے بڑے بید اٹھائے ہوئے تھے یک دم ان پر لپکے اور زور زور سے ان پر ڈنڈے برسانے شروع کر دیئے ۔نوجوانوں کی سپیڈ اس قدر کم تھی کہ ڈنڈوں کی چٹاخ کے ساتھ ان لڑکوں کی چیخوں سے آسمان پھٹا جا رہا تھا کیونکہ انڈر پاس کی وجہ سے ان کی چیخیں گونج رہی تھیں اپنے آپ کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر یہ لڑکے ہو سکتا تھا کہ گر کر اپنی جان دے دیتے کہ اچانک ایک گاڑی والا جس سے یہ ظلم برداشت نہیں ہو رہا تھا ان کے اور پولیس کے ڈنڈوں کے درمیان آ گیا اور ان پولیس والوں سے پوچھا کہ انہیں کیوں مار رہے ہو تو کرخت جواب ملا آگے سے ہٹ جائو ورنہ تمہیں بھی ون ویلنگ کی معاونت کے جرم میں تھانے میں بند کر دیں گے جانتے نہیں کہ اس جرم کی سزا شہباز شریف نے دو سال کر دی ہے۔۔۔وہ گاڑی والا میں خود تھا جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ یہ لڑکے قطعی طور پر ون ویلنگ نہیں کر رہے تھے۔
بلا شبہ ون ویلنگ انتہائی گھنائونی حرکت ہے جس سے ایک تو سڑکوں پر رواں دواں ٹریفک میں خلل پڑتا ہے اور ساتھ ہی معصوم جانیں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں یہ بچے تو چلے جاتے ہیں لیکن اپنے ماں باپ کو زندگی بھر کا نہ مٹنے والا زخم اور دکھ دے جاتے ہیں لیکن اس پر سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس قانون نے لاہور پولیس کے بعض کرپٹ اہلکاروں کی لوٹ مار کا ذریعہ بھی بنا دیا ہے۔۔۔آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ جو ہر ٹائون جناح ہسپتال کے قریب پولیس ناکے پر لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کے بعد ان ٹیسٹوں کی رسیدیں دکھانے کے با وجود چرسی ثابت کر دیا گیا اور انہیں تھانے کی چھترول اور جیل سے بچنے کیلئے ان سے پانچ ہزار روپے مانگے گئے اب جبکہ ون ویلنگ کا قانون بن چکا ہے جس کی سزا دو سال کر دی گئی ہے تو کون ہے جو گھر سے تعلیم، ملازمت، کاروبار یا کسی بھی ضروری کام کے سلسلے میں نکلنے والے کو ان پولیس والوں کے ہتھکنڈوں سے بچا سکے گا؟!