دنیا نیوزکے مقبول پروگرام حسب حال کے اینکر جنید سلیم نے پروگرام کے دوران بتایا کہ ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم نے پنجاب پولیس کے سربراہ مشتاق سکھیرا کی ہدایت پر پولیس ملازمت میں دس سے پندرہ سال کی سروس رکھنے والے کانسٹیبلوں اور حوالداروںکو اگلے گریڈ اور عہدے پرترقی دینے کے لئے ان کی سینیارٹی اور پولیس کی زبان میں''اعمال نامہ‘‘ کا جائزہ لینے کے لئے دن رات ایک کرکے یہ مشکل کام مکمل کیا۔
پولیس میں جہاں عوام سے بھر پور رشوت وصول کی جاتی ہے وہاں پولیس کے نچلے درجے سے لے کر ڈی ایس پی تک کے افسروں سے بھی رشوت وصول کی جاتی ہے۔ یہ رشوت ان کے خلاف انکوائریوں اور سینیارٹی لسٹ مرتب کرنے کے سلسلے میں لی جاتی ہے اور یہ ایڈمن برانچ میں فرائض انجام دینے والے اہلکار وصول کرتے ہیں۔ پولیس ہی نہیں دوسرے محکموں میں بھی انتہائی شرمناک قسم کی روٹین ہے کہ افسران اپنے ماتحتوںکی سالانہ رپورٹیں کبھی بر وقت مکمل نہیں کرتے، یہ کئی کئی سال نہیں لکھی جاتیں۔ ڈی ایس پی اور اس سے کم عہدے کے کسی بھی پولیس افسر کی ترقی یا ڈی پی سی کا وقت آتا ہے تو ہر جانب ہڑبونگ سی مچ جاتی ہے۔کوئی کتنا ہی سینئرکیوں نہ ہو جب تک اے سی آر مکمل نہ ہونگی اس کی ترقی نہیں ہو سکے گی۔ اگر اس موقع پر نظر انداز ہوگئے تو نہ جانے اگلی ڈی پی سی کب ہو۔ خدا کرے کبھی یہ قانون بھی بن جائے کہ جو افسر اپنے ماتحتوں کی اے سی آرز بر وقت مکمل نہیں کرتے ان کی ترقی بھی اسی بنا پر موخرکر دی جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ اعلیٰ افسر ریٹائر ہوکر گھر چلے جاتے ہیں اور ان کے ماتحت اپنی اے سی آرز مکمل کرانے کے لئے گھر گھر دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔
پولیس کانسٹیبلوں کی سینیارٹی اور اعمال نامے چیک کرنا آسان کام نہیں تھا۔ رانا ایاز سلیم اور ان کے عملے نے جس طرح ان کوترتیب دیا، بلا شبہ یہ انتہائی پیچیدہ اور محنت طلب کام تھا۔ وہ سینکڑوں اہلکار جوایک ہی عہدے پر دس پندرہ برسوں سے کام کرتے کرتے چڑ چڑے ہو چکے تھے، ترقی ملنے کے بعد انہیں جب نئے رینک لگائے گئے تو ان کے چہروں سے پھوٹنے والی خوشی دیدنی تھی۔ اس کا تصور وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہوگا۔ ترقی ملتے ہی جو دعائیں انہوں نے اور ان کے بوڑھے والدین نے دی ہوں گی ان کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا۔ رانا ایاز سلیم کے متعلق حسب حال کی اس خبر کے بعد دوسری خبر نے ان تمام خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق اگلے عہدوں پر ترقی پانے سے مایوس ہو کر 235 سے زیا دہ ٹریفک وارڈن استعفے دے کر گھر جا چکے ہیں۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا اور حال ہی میں تعینات ہونے والے ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن احمد مبین فوج سے آنے کی وجہ سے ڈسپلن کے معاملے میں سخت ضرور ہیں لیکن انتظامی صلاحیتوں میں بھی وہ بے مثال ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ٹریفک پولیس کے وارڈنزکے سروس سٹرکچر کی بہتری کے لئے بھی پنجاب حکومت سے درخواست کی جائے۔کچھ عرصہ کی سروس کے بعد انہیں اسی طرح ریگولر پولیس میںINDUCT کیا جائے جیسے 1992ء میں آئی جی پنجاب چوہدری سردار محمد مرحوم نے سپیشل برانچ کے انسپکٹر تک کو کرنے کا حکم دیا تھا۔ 235 وارڈنزکا ملازمت چھوڑکر بھاگ جانا اچھی خبر نہیں، اس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جس پولیس سربراہ نے کانسٹیبلوں اور حوالداروںکی کئی برسوںکی نظر اندازکی گئی ترقیوںکو اپنے حکم سے ممکن کر دکھایا ہے، ان کی نظروں سے بارہ بارہ برس کی نوکریوں والے ٹریفک وارڈن کیسے اوجھل رہ سکتے ہیں؟ اگر آپ کسی ادارے کے ملازمین سے بہترکارکردگی کی امید رکھتے ہیں تو یہ سلسلہ یک طرفہ نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ تپتی دوپہروں اور ٹھٹھراتی سردیوں میں شاہراہوں پر وارڈنز سے اچھی کارکردگی کی امید رکھتے ہیں تو انہیں اچھا ماحول فراہم کرنا ادارے کے سربراہ کا فرض ہے۔ آپ نے پولیس کے ایسے اہلکاروں کو بھی دیکھا ہوگا جو
اپنی عمرکے آخری حصے میں پہنچنے کے باوجود سپاہی سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ کیا وجہ ہے کہ چالیس سال کی سروس کے بعد بھی انہیں ترقی نہیں ملتی۔ ایسے اہلکار جب جانتے ہیں کہ بطورکانسٹیبل ہی انہیں ریٹائر ہونا ہے تو آپ ان سے کیسے بہتر کارگردگی کی امید رکھتے اور توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے جان کا نذرانہ بھی پیش کر دے گا؟ اگر ان کی تعلیم کم تھی یا کوئی اور وجہ تھی تو 30-40 سال کی سروس کرنے والے کی ترقی کے لئے کوئی متبادل قاعدہ قانون ہونا چاہیے۔ اگر سپاہی کو ریٹائرمنٹ سے پہلے مکمل حوالدار یا اے ایس آئی کے عہدے پر ترقی دے دی جائے تو باقی ماندہ زندگی میں انہیں پینشن میں ہی کچھ فائدہ مل جائے گا؟ فوج میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میجرکوکرنل اورکرنل کو بریگیڈیئرکے عہدے پر باقاعدہ ترقی دینے کے بجائے صرف اس عہدے کی پنشن دیتے ہوئے ریٹائرکیا جاتا ہے۔
میرے ایک دوست امتیاز قریشی آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انہوں نے1979ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ذہانت اور علم سے خوب نوازا تھا۔ غالباً 1983ء میں وہ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ اٹارنی بھرتی ہوئے اور کئی سال اسی عہدے پر کام کرتے رہے۔ پھر یہیں سے وہ پولیس میں لیگل انسپکٹر بنا دیئے گئے اور اسی عہدے سے وہ ریٹائر ہوئے۔ وہ لالچی نہیں تھے، درویش اور خدا شناس تھے اور ان کی ذہانت کا ایک زمانہ معترف تھا۔ بطور ایس ایس پی لاہور آفتاب چیمہ جیسے پولیس افسر اسے اپنے محکمے کا نایاب ہیرا کہا کرتے تھے۔ قانون اور انگریزی پر انہیں اس قدر عبور تھا کہ بڑے بڑے سی ایس ایس افسران انہیں اپنا استاد مانتے تھے۔ امتیاز قریشی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ شخص سرکاری نوکری کی بجائے اپنی پرائیویٹ پریکٹس میں رہتا تو کب کا ایک انتہائی کامیاب وکیل یا جج بن چکا ہوتا، لیکن وہ بطور لیگل انسپکٹر ہی گھر چلے گئے۔ انہیں اپنی35 سالہ ملازمت اور ایمانداری کا کیا صلہ ملا؟ آج بھی نہ جانے کتنے امتیاز قریشی پولیس اور دوسرے محکموں میں پہلے دن کے گریڈ کا بوجھ اٹھائے دھکے کھاتے پھرتے ہوں گے۔ کیا ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں؟
پولیس یا کسی دوسرے ادارے میں کام کرنے والاکوئی بھی اہل کار جب اپنے ارد گرد نظر ڈالتا ہے تو یہ جان کر اسے دکھ ہوتا ہے کہ میری نوکری کو پندرہ سال ہو چکے ہیں اور میں ابھی تک وہیں پر ہوں جہاں آیا تھا، لیکن میرے ساتھی اگلے عہدوں پر ترقی پا چکے ہیں۔ اس طرح کڑھنے والے اہلکاروں سے آپ ہر وقت اچھی کارکردگی کی کیا امید رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس قسم کا ماحول اور حالات اس کے مزاج اور شخصیت میں چڑ چڑا پن پیدا کر دیتے ہیں اور شہریوں سے برتائو کے وقت یہی چر چڑا پن باہر آ جاتا ہے۔ جس طرح آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کی ذاتی دلچسپی سے سینکڑوںکانسٹیبلوں اور حوالداروںکے چہروںاور گھروں میں خوشیاں بکھری ہیں، اسی طرح ٹریفک وارڈنز اور دوسرے اہلکاروں کے متعلق بھی سوچنا چاہیے۔۔۔۔چھوٹے اہلکاروں کی یہی تو خوشیاں ہوتی ہیں۔