"MABC" (space) message & send to 7575

مک مکا کے جال کو ادھیڑ دو

جس وقت 2013 میں کرائے گئے عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر کی جانے والی دھاندلی کے خلاف تحریک انصاف کے دھرنے اور احتجاجی تحریک کے بعد کیس کی سماعت ہو رہی تھی تو کاش اس وقت کوئی کھڑے ہو کر درخواست کرتا حضور والا۔۔۔۔سب سے پہلے ان انتخابات کے وقت نگران حکومتوں کے گاڈ فادر سابق صدر کو بھی بلایا جائے کیونکہ وہ عمران خان کی جانب سے دھاندلی کے الزامات سے پہلے ہی ان انتخابات کے تیسرے روز لاہور بلاول ہائوس میں میڈیا کے سینئر لوگوں سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ یہ'' ریٹرننگ افسران کا الیکشن تھا‘‘ ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت تشکیل پانے والے الیکشن کمیشن سے پی پی پی نے توبہ تو کر لی ہے لیکن مئی 2013 کے انتخابات میں اس کے ہاتھوں لگنے والے زخم ملک اور قوم کو نہ جانے کب تک ٹیسیں دیتے رہیں گے؟ ذرا سوچئے کہ جب عمران خان دھاندلی کے خلاف دھرنا دیئے ہوئے تھا تو اس وقت آصف زرداری جو بر ملا کہہ چکے تھے کہ یہ'' ریٹرننگ افسران کا الیکشن تھا‘‘ جمہوریت کے نا م پر نواز لیگ کا ساتھ دیتے ہوئے اس کی ڈھال بنے ROs کے الیکشن کی تائید کر رہے تھے ۔۔۔ یہ کیسی سیا ست ہے یہ کیسی جمہوریت ہے یہ کیسی آئین کی پاسداری ہے جس کے رضا ربانی دن رات قصیدے پڑھ رہے ہیں؟۔ 
18 فروری 2008 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے فیصلہ کیا کہ الیکشن کمیشن کیلئے چاروں صوبوں سے ایک ایک رکن لیا جائے گا جو ہر متعلقہ صوبے کی ہائیکورٹ کا جج رہ چکا ہو اور ان ارکان کے تقرر کیلئے وزیر اعظم اورلیڈر آف اپوزیشن سے مشاورت کے بعدہر صوبے سے تین تین نام منتخب کر کے پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جائیں گے جو ان میں سے ایک نام کا انتخاب کرے گی۔ اگر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کسی ایک فہرست پر متفق نہیں ہوتے تو دونوں جماعتوںکی طرف سے ہر رکن کیلئے علیحدہ علیحدہ فہرست پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی جائے گی جو ہر صوبے کیلئے ایک ایک نام کی منظوری دے گی۔۔۔۔اور قومی اسمبلی کے اراکین پر مشتمل یہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی جس کے چار چار ممبران حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے ہوں گے لیکن بعد میں انتہائی چالاکی سے آئین میں انیسویں ترمیم کرتے ہوئے اس کمیٹی میں سینیٹ سے بھی چار رکن شامل کرتے ہوئے اس کی تعداد بارہ کر دی گئی۔
اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے سے قبل چیف الیکشن کمشنر کو اختیار تھا کہ وہ جو چاہے فیصلہ کرے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر کو حاصل تمام اختیارات الیکشن کمیشن کو سونپ دیئے گئے۔۔۔۔دوسرے لفظوں میں اب چیف الیکشن کمشنرکے اختیارات بھی وہی ہیں جو باقی ہر چار اراکین کو حاصل ہیں اب اگر اس وقت کے فخرالدین جی ابراہیم بحیثیت چیف الیکشن کمشنر کوئی حکم یا فیصلہ دینا بھی چاہتے تو نہیں دے سکتے تھے کیونکہ ان کا بھی باقی چار اراکین کی طرح اپنا صرف ایک ہی ووٹ تھااورباقی چار ارکان نے آپس میں ایکا کر کے ان کے خلاف جو چاہا فیصلہ دیا،اس آئینی ترمیم کا ایک نکتہ بہت ہی دلچسپ ہے کہ اگر چیف الیکشن کمیشن کسی بھی اجلاس کے وقت وہاں موجود نہیں ہیں تو کسی بھی طریقے سے کسی بھی فیصلے کیلئے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے حتی ٰکہ ویڈیو فون کے ذریعے بھی نہیں۔ 
آج آپ جو چاہے فرض کر لیں لیکن سچائی یہی ہے کہ موجودہ طریقہ کار کے تحت ملک میں ہونے والے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی ذمہ داری صرف اور صرف چیف الیکشن کمشنر سمیت ان پانچ اراکین پر عائد ہوتی ہے اور جب ان اراکین کی تعیناتی مشکوک اور قابل بھروسہ نہ ہو تو پھر ان کے تحت ہونے والے انتخابات منصفانہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہی وہ نکتہ تھا جسے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب بار بار دھراتے چلے آ رہے ہیں۔ چند مزید نکات آپ کے سامنے رکھتا ہوںکہ آج بھی اگر انتخابات ہوتے ہیں توشفاف انتخابات کی امید رکھنے والوں کو 2013 کے انتخابات میں پی پی اور نون لیگ کے مک مکا کے ذریعے الیکشن کمیشن کی تشکیل اور پھر اپنے مخصوص ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کے عمل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہوئے ماضی کی جانب لازمی دیکھنا ہو گا جب ٭آٹھ اپریل2010 کو اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کی مو جود گی میں 18 ویں ترمیم کے بل پر دستخط کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہم نے فوجی آمریت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے ٭ بائیس فروری2011 کو اس ترمیم کی منظوری کے ایک سال بعد قومی اسمبلی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی قائم کی جاتی ہے تاکہ وہ الیکشن کمیشن کی تشکیل کر سکے جس میں8 اراکین قومی اسمبلی سے اور باقی چار سینیٹ سے لئے گئے۔۔۔۔ان بارہ ممبران میں پی پی پی کے تین، مسلم لیگ نواز کے تین، مسلم لیگ ق کے دو اور متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی اور فاٹا سے ایک ایک رکن لیا گیا٭ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے ایک سال بعد 26 اپریل2011 کو سپریم کورٹ نے ایک پٹیشن پر حکم جاری کیا کہ بہت ہو چکا اب حکومت فوری طور پر آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کی تشکیل کرے٭19 مئی کو سپریم کورٹ نے حکومت کو تین ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے کہا اس مدت میں ہر صورت نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل کر دی جائے٭اس دوران26 ارکان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوچکے تھے جس پر سپریم کورٹ نے کہا یہ ضمنی انتخابات آئینی نہیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم منظور ہونے کے بعد یہ انتخابات چیف الیکشن کمشنر نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے تحت ہوئے ہیں٭30 مئی کو پیپلز پارٹی نے کہا کہ وہ بیسویں ترمیم پیش کرنے جا رہی ہے تاکہ ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے چھبیس ارکان کو قانونی حیثیت دی جا سکے سپریم کورٹ میں پی پی پی حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کی پانچ میں سے چار نشستیں ابھی مکمل نہیں ہوئیں ٭یکم جون کو الیکشن کمیشن کی تشکیل کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی نے بلوچستان سے افتخار چوہدری کے تجویز کردہ جسٹس فضل الرحمن، خیبر پختونخوا سے ANP اورJUIF کی جانب سے جسٹس شہزاد اکبر خان پنجاب سے مسلم لیگ نواز کی جانب سے امریکہ میں بیٹھے ہوئے شیخ سعید کے کہنے پر جسٹس ریاض کیانی اور سندھ سے پیپلز پارٹی کے تجویز کردہ جسٹس روشن عیسانی کے ناموں کی سفارش کر دی٭ اور پھر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والوں نے دس جون 2011 کو الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی منظوری دیتے ہوئے اپنا الیکشن کمیشن تشکیل دے دیا۔
اب ایک نہایت ہی اہم نکتہ ملاحظہ کریں کہ الیکشن کمیشن کیلئے جو کچھ ہوا وہ تیس مئی سے یکم جون کے اس مختصر عرصے میں کیا گیا اور انہی دو دنوں کی پیش رفت میں مک مکا ہوا ؟ ۔ کیا مجوزہ آئینی اورقانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر صوبے سے کمیشن کی تشکیل کیلئے نامزد کئے گئے 13ممبران کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے انٹر ویو کیلئے بلایا تھا ؟کیا آئین اور قانون کی رو سے پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے ان کی Hearing کی گئی تھی ؟۔۔میری مصدقہ اطلاعات کے مطابق نہیں کی گئی اور جو میں آج لکھ رہا ہوں اس کی تصدیق کیلئے عدلیہ ان اراکین کو آج بھی بلا کر اس کی تصدیق کر سکتی ہے۔ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے ان چار ارکان کو مک مکا کے تحت نامزد کیا گیا اور انہیں تشکیل دی گئی بارہ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی کی بجائے آٹھ ارکان کی پارلیمانی کمیٹی نے نامزد کیا تھا۔۔۔۔!!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں