"MABC" (space) message & send to 7575

اداروں پر سٹریٹیجک سٹرائیکس

مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادیوں نے سپریم اداروں پر تین اطراف سے سٹریٹیجک سٹرائیکس کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے اور اس کیلئے سب کردار ایک ایک کرتے ہوئے سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک جانب محمود خان اچکزئی کی جانب سے افغانیہ کے نام سے میانوالی اور اٹک کو شامل کرتے ہوئے ایک نئی آزاد ریا ست کی مہم شروع ہو چکی ہے تو دوسری جانب اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کھل کر میاں محمد نواز شریف کی حمایت میں جوڈیشری کے خلاف کھڑے ہو ئے ہیں اور آپ جلد ہی پی پی پی کو بھی اس دوڑ میں ان کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے دیکھ سکیں گے جس کا آغاز سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سینیٹ کا فلور استعمال کرتے ہوئے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے کر دیا ہے ۔۔ تیسری جانب مسلم لیگ نواز عدلیہ اور فوج پر براہ راست حملے کرتے ہوئے ملکی اداروں اور سالمیت کو کچلنے کیلئے پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامی اور مالی طاقت کا کھلم کھلا استعمال کرتی صاف دکھائی دے رہی ہے ۔
چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مشترکہ طور پر اداروں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے۔۔۔۔ان سب نے بیک ڈور چینلز کے ذریعے اس امر پر اتفاق کر لیا ہے کہ کمزور جو ڈیشری ان سب کیلئے فائدہ مند رہے گی اور اگر جوڈیشری جو اپنے پائوں پر کھڑا ہو نے کی کوشش کر رہی ہے اسے اگر ابتدا میں ہی نہ روکا گیا تو ان سب کی سیا ست اور تجارت زمین بوس ہو جائے گی۔ آنے والے وقتوں میں من مانی تو ایک طرف انہیں گزشتہ تیس سال سے کی گئی من مانیوں کا حساب بھی دینا پڑ جائے گا ۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے مالی مفادات سے وابستہ پنجاب میں سب سے اہم اور طاقت ور ترین کردار احد خان چیمہ کی احتساب بیورو کے ہاتھوں گرفتاری نے ان سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے ہیں۔ اٹک سے صادق آباد تک جاتی امرا اور ماڈل ٹائون سے وابستہ پنجاب کی طاقتور بیوروکریسی کی سنگلاخ دیواروں کو احد چیمہ کی گرفتاری نے زبردست جھٹکا لگاتے ہوئے اس نشہ سے بیدار کر دیا ہے جو بقول وزیر اطلاعات مریم نواز مسلم لیگ کے کارکنوں کی شکل اختیار کر جانے والی بیورو کریسی میں سرایت کر چکا ہے۔ 
جیسے ہی میاں نواز شریف اسلام آباد کی احتساب کورٹ سے باہر نکلے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں انہوں نے اٹھائیس جولائی سے اب تک کی کارروائی کا تمسخر اڑاتے ہوئے '' بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گو کہ ان کی زبان سے یہ لفظ کچھ عجیب سا لگا لیکن رش میں چونکہ سب کچھ چل جاتا ہے اس لئے کسی نے دھیان ہی نہ دیا کہ ان کی زبان میں یہ نیا لفظ کس نے ڈالا ہو گا ۔ بلیک لاء ڈکشنری کے الفاظ کو انہوں نے اپنی میڈیا ٹاک میں تین سے زائد مرتبہ دہرایا اس لئے یہ سنتے ہی سب نے اس ڈکشنری کو ڈھونڈنے کی کوششیں کیں توکسی نے بتایا کہ بلیک لا ڈکشنری کو فیصل آباد کے اس ریسٹ ہائوس میں تلاش کیا جائے جہاں شہنشاہ وقت کی کھلی کچہری میں ایک اعلیٰ صوبائی افسر سے ناراض ہونے کے بعد بغیر کسی ایف آئی آر کے سینکڑوں لوگوں کے سامنے اسے ہتھکڑیاں لگا کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ اپنے واحد سرکاری چینل پر اس کو ہتھکڑیاں لگیں‘ فلمیں پاکستان بھر کو دکھائی گئیں‘ جب ساٹھ سالہ اس افسر کو دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اسے فیصل آباد کی سڑکوں پر گھمایا جا رہا تھا تو اس کی بوڑھی ماں نے آسمان کی جانب نظریں اٹھاتے ہوئے اپنے رب سے آنسو بھری خاموش التجا کی جو فوری طور پر تو نہیں لیکن ایک سال بعداکتوبر1999 میں قبول ہوئی۔ شائد خدا اس سفید بالوں والے سرکاری افسر کی بوڑھی اور نیک ماں کو باور کرانا چاہتا تھا کہ اس کے ہاں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آج 28 برس بعد اگر اپنی کھوئی ہوئی متاع'' بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کی یاد ستائی ہے تو اس کیلئے انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ فیصل آباد میں اپنے وزیر قانون رانا ثنا اﷲ کی لائبریری یا اس سے ملحقہ اس ریسٹ ہائوس میں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں ۔
پارلیمنٹ کا کوئی انتہائی با ثر رکن کسی ایسی زمین یا عمارت پر قبضہ کر لے جس پر سکول یا ہسپتال تعمیر کیا جا نا تھا اور ملک کی عدلیہ اس قبضے کو نا جائز قرار دیتے ہوئے اسے واگزار کرانے کا حکم دیتی ہے تو کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بلیک لاء ڈکشنری کہا جا سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کے معزز جج گلزار احمد نے کراچی رجسٹری میں سرکاری املاک اور اراضی پر بنائے گئے درجنوں شادی ہال، بڑے بڑے سکول اور عمارتیں گرانے کا حکم دے رکھا ہے تو ایسے میں حکومت یا پارلیمنٹ کا کوئی رکن عدلیہ کے ان احکامات کو بلیک لاء ڈکشنری کا نام دینا شروع کر دے تو اس پرکیا کہا جا سکتا ہے۔ 
میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے طاقتور لوگ قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد سخت زبان استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں تو دوسری جانب اگر قاضی ٔوقت فیصلہ کرتے ہوئے یہ سوچنا شروع کر دے کہ وہ ایک انتہائی طاقتور شخص کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے جس کا جرم تو ثابت ہو چکا ہے لیکن اگر اس نے قانون کے مطا بق فیصلہ کیا تو یہ طاقتور ترین شخص جس کے ساتھ اقتدار کی طاقت اور اس کا بڑا قبیلہ بھی ہے اسے اوراس کے خاندان کو نقصان پہنچا ئے گا تو وہ کسی بھی مجرم ، دہشت گرد اور ملک دشمن کو سزا نہیں دے سکے گا۔ قاضی اگر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جائے کہ چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری کی کرپشن اور لوٹ مار پرآنکھیں بند کر لی جائیں کیونکہ اگر اس پر ہاتھ ڈالا گیا اس کی گرفتاری کا حکم دیا گیا‘ اسے کسی قسم کی سزا دی گئی تو اس خائن سرکاری افسر کے طاقتور ساتھی اسے نقصان پہنچا ئیں گے‘ اس کے خاندان کے کسی برسر روزگار شخص کو نوکری سے فارغ کر دیں گے‘ اگر اس قسم کا خوف، مصلحت اور مفاد قاضی میں سرایت کرجائے تو پھر افسران سے لوٹا ہوا قومی سرمایہ کیسے واپس لیا جا سکے گا؟
وقت کا قاضی اگر کسی مصلحت کا شکار ہو جائے‘ وہ سوچنے لگے اگر اس نے طاقتور سیا سی شخصیت کے خلاف فیصلہ دیا تو ملک میں خون خرابا ہو سکتا ہے ملک میں ہنگامے شروع ہو سکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ہمسائے میں بیٹھا ہوا ہمارا دشمن اور اس سیاسی شخصیت کا دوست اور ہمدرد ناراض ہو کر اس کے ملک کو نقصان پہنچا سکتا ہے تو ان خدشات کو سوچتے ہوئے کیا کسی مصلحت کا شکار ہو جا نا چاہئے جس سے طاقتور سیا سی یا حکومتی شخصیت من مانیاں کرتی رہیں؟۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کا وہ مشہور اور تاریخی فقرہ سب مصلحتوں کو زمین بوس کر دیتا ہے ۔ جرمن فضائیہ کے ہاتھوں برطانیہ میں ہولناک تباہی پر چرچل نے پوچھا تھا کیا برطانوی عوام کوانصاف کی سہولت مل رہی ہے جس پر وزارت انصاف نے کہا کہ سب کو مکمل انصاف مل رہا ہے تو چرچل نے منہ میں دبائے ہوئے سگار کو چباتے ہوئے کہا'' پھر بے فکر ہو جائو برطانیہ محفوظ اور مضبوط رہے گا‘‘!!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں