ملکی میڈیا کا وہ مخصوص اور مراعات یافتہ طبقہ جو آج سپریم کورٹ کے خلاف بہت ہی ٹیکنیکل اور ہیر اپھیری جیسے طریقے استعمال کرتے ہوئے اس کے دیئے گئے فیصلوں اور از خود نوٹسز کو عوام کی نظروں میں مشکوک بنانے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف دکھائی دیتا ہے ان میں سے کسی ایک کو کبھی فرصت مل سکے تو وہ22 مارچ2009 کے بعد جب ایک چیف جسٹس بحال کئے گئے تھے تو ان کے لئے جانے والے سو موٹو ایکشنز کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی ہوئی اپنی تحریروں اورٹی وی چینلز پر خصوصی تبصروں اور تعریفی خبروں پر ایک نظر ڈال لیں انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کل تک وہ ایک ''چیف جسٹس‘‘ کی شان میںکیا کیا قصیدے کہتے رہے۔ اس مراعات یافتہ گروہ کے چیف جسٹس کے منظور نظر بننے کے طور طر یقے اس قدر معاشی ہو گئے تھے کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بڑے بڑے کاروباری ادارے، جاگیردار اور کارخانوں کے مالکان اپنے مقدمات اور پٹیشنز کیلئے وکلاء نہیں بلکہ اس گروپ کی خدمات حاصل کرنا شروع ہو گئے۔ اس سلسلے میں بہت سی کہانیاں آج بھی مختلف چیمبرز میں گردش کر رہی ہیں ۔ہوتا یہ تھا کہ ادھر اس گروپ میں سے کسی نے اخبار میں اپنے کام کی مطلوبہ خبر لگائی یا ٹی وی پر ٹکر چلایا اور اگلے ہی لمحے ایک فون آ جاتا کہ صاحب کو بتا دیا ہے یہ بھی ہو تا رہا کہ اس وقت کے رجسٹرار کو پہلے ہی بتا دیا جاتا تھا کہ یہ خبر فائل کر رہا ہوں '' صاحب ‘‘کو بتا دیں ۔۔او ر اس کے چند منٹ بعد وہی معاشی گروہ بریکنگ نیوز دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتا کہ ہماری خبر پر نوٹس لیتے ہوئے سو موٹو ایکشن لے لیا گیا ہے اور پھر چل سو چل جب اس پر سماعت شروع ہوتی تو اس کا ذکر اس طرح اچھالا جاتا کہ مقابل '' سائل‘‘ ریت کی طرح ڈھیر ہو تے ہوئے ان کا'' ہاتھ تھام کر‘‘ کھڑا ہوتا ۔
کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب بڑے بڑے سرکاری افسران کو کمرہ عدالت نمبر ایک سے ہتھکڑیوں میں جکڑتے ہوئے باہر نہیں لایا جاتا تھا، آئی جی پولیس اور فیڈرل سیکرٹری صاحبان قطاروں میں کھڑے اپنی عزتیں بچانے کی فکر میں رہتے اور اس وقت تمام سرکاری افسران جان گئے تھے کہ اگر اپنی عزتیں بچانی ہیں تو پھر کسی قیوم کسی عالم جیسے چوہدری قسم کے ڈنڈا پیر کا تعویذ لینا ہو گا اور یہ دکانداری کچھ اس طرح بڑھنے لگی کہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے تمام فیڈرل اور ایڈیشنل سیکرٹری صاحبان کے کمروں سے ایک ایک کرتے ہوئے '' مطلوبہ فائلیں‘‘ نکلنا شروع ہو جاتیں ہر طرف اس قدر دھن برسنے لگا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایشیا سر سبز ہو گیا۔ میڈیا کے اس معاشی گروہ کے وہی لوگ آج اپنے تبصروں، تجزیوں اور تھمائی جانے والی خبروں کے ذریعے موجو دہ چیف جسٹس اور واجد ضیا پراس طرح حملہ آور ہو رہے ہیں، لگتا ہے کہ انہیں اپنے اس دور کی یاد میں راتیں کاٹنامشکل ہو رہی ہیں۔یہ لوگ کبھی اپنے چیف سے آج کے چیف کا موازنہ کرتے ہوئے سوچنا گواراہی نہیں کر رہے کہ اس وقت کسی کو کسی کے بارے میں لب کھولنے کی رتی بھر بھی جرأت نہیں تھی۔پورا پاکستان ان کے رویئے اور یک طرفہ ٹریفک کے سامنے منجمد کھڑا تھا۔کیا یہ مراعات یافتہ طبقہ بھول چکا ہے کہ کس طرح مدتوں سے کسی گڑھے سے پرانی فائلیں نکال کر میاں نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف دیئے گئے دس دس سال پرانے فیصلوں کو ایک پٹیشن کے ذریعے کالعدم قرار دیا جارہا تھا ؟۔کس طرح ان کی تمام سزائیں یک طرفہ طور پر ختم کرائی جا رہی تھیں؟۔
نواز لیگ کے میڈیا سیل اور ان کی اشتہاری ٹیم کی جانب سے یہ بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے کہ جس طرح عام جلسوں میں میاں نواز شریف اور سوشل میڈیا کنونشن کے نام سے ہونے والے جلسوں میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھا یا جا رہا ہے کہ نواز شریف کو اقامہ پر اور بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل کیا گیا ہے اسے مقبولیت مل رہی ہے تو صبر کیجئے کیونکہ۔۔ میاں نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن صفدر سمیت حسن نواز او رحسین نواز کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ اگلے تین سے چار ہفتوں تک متوقع ہے تو اس سے پہلے ہی دو قسم کے تاثرات پر فریب اور دلکش رنگوں سے مزین خبروں اور تبصروں سے ہر طرف اڑا ئے جا رہے ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ واجد ضیا معافیاں مانگنا شروع ہو گیا ہے تو کہیں کہا جا رہا ہے کہ کچھ ثابت ہی نہیں کیا جا سکا؟۔ یہ کھیل اس لئے رچایا جا رہا ہے تاکہ ان کے خلاف فیصلہ آتے ہی لوگ کہنے لگیں کہ '' دیکھو جی واجد ضیا نے تو عدالت میں بیان دیا تھا کہ میاں نواز شریف کی لندن میں کوئی جائداد ہی نہیں پھر بھی انہیں سزا سنا دی گئی ہے‘‘ یہی تاثر کوئی تین چار ہفتے قبل بڑے پر اسرار طریقے سے کیلبری فونٹ کے بارے میں بار بار سنایا اور لکھا گیا۔۔۔۔گوئبلز اگر آج زندہ ہوتا اور مراعات یافتہ اس صحافتی گروہ کی خبروں اور تبصروں کو ایک بار پڑھ اور سن لیتا تو اسی وقت جاتی امراء اور وزیر اعظم ہائوس اسلام باد میں بیٹھے ہوئے مشیروں کو اپنا استاد مان لیتا۔۔۔ہٹلر اگر زندہ ہوتا تو وہ فوری طور پر گوئبلز کی جگہ ان کو تعینات کر دیتا۔کوئی دن کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب یہ مراعات یافتہ گروہ عدالت کے دیئے جانے والے کسی بھی ریمارکس کو اپنے ڈھب کے مطا بق توڑ مروڑ کر پیش نہ کر رہا ہو؟۔ جھوٹ اور پراپیگنڈا کا پاکستان میں معیار یہ ہے کہ80 فیصد لوگ بعد میں کی جانے والی کسی تردید کو نہیں دیکھتے بلکہ اسی پہلی ضرب کی شدت کو یاد رکھتے ہیں جو ان پر لگ چکی ہوتی ہے اور میاں نواز شریف کی سیا ست میں اب تک کامیابی میں اس قسم کی ضربوں کا ہمیشہ دخل رہا ہے ۔
احتساب عدالت کے اندر اور باہر میاں نواز شریف کے گرد آپ کو صحافیوں کا خاص گروہ پہلے سے تھمائے گئے مفہوم پر مبنی سوالات کے طے شدہ جوابات کو بریکنگ نیوز کی صورت میں اگلے چوبیس گھنٹوں تک دکھاتا رہتا ہے۔ میڈیا کا وہ کون سا فرد ہے جو اس بات کو نہیں جانتا کہ میاں نواز شریف کی عادت ہی نہیں کہ وہ میڈیا کے سوالات کا اکیلے سامنا کر سکیں۔ وہ ایک بھی تیز اور چبھتے ہوئے سوال کا جواب دینا تو دور کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔۔۔کیا لاہور اور اسلام آباد کے میڈیا ورکر نہیں جانتے کہ کسی بھی پریس کانفرنس میں ان کی طبع نازک پر نا گوار گزرنے والا صرف ایک سوال ہی پوری پریس کانفرنس کا ماحول تبدیل کر کے رکھ دیتا ہے؟۔ جس طرح وہ اپنا انٹرویو کرنے والے سے دو دن پہلے ہی اس کے سوالات کی کاپی منگوا لیتے ہیں اسی طرح ان کی پریس کانفرنس یا کسی بھی موقع پر دیئے جانے والے سوالات کی ریہرسل پہلے سے ہی کی جا چکی ہوتی ہے۔23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر مدعو کئے گئے کچھ غیر ملکی معزز مہمانوں نے درخواست کی کہ اپنا بڑا ملزم خاندان سمیت ہمیں دے دیا جائے ہم آپ کو گارنٹی دیتے ہیں کہ وہ '' سیا ست‘‘ نہیں کرے گا لیکن اب تک کی اطلاعات کے مطا بق اس معزز مہمان سے انتہائی احترام کے ساتھ معذرت کر لی گئی ہے
نوٹ:۔قصور میں سولہ اپریل کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے نواز لیگی اراکین نے نکالے گئے مظاہرے کے دوران عدلیہ کے خلاف جو توہین آمیز زبان استعمال کی ہے اس کے ملزمان تو خواجہ آصف پر سیا سی پھینکنے والے سے اچھے نکلے۔ سیاہی والے کی ضمانت بیس دن بعد اور ساتھ وقفے وقفے سے تیس لتر اور اعلیٰ عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کو قصور پولیس کی جانب سے مٹن کڑاہیاں اور اگلی صبح ضمانتیں؟۔ کیا اس فرق پر لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نوٹس لیں گے؟