ایک طرف پاکستان کو امن کی آشا کی تاروں سے بنے ہوئے مکڑی کے پُرفریب جال میں پھانسنے کیلئے دلفریب راگ الاپے جا رہے ہیں‘ تو دوسری طرف کند چھری سے ذبح کرنے کیلئے بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے دریا تو ایک طرف‘ ہر ندی نالے کا پانی روک کر اس کو معاشی طور پر اپاہج کر رہا ہے۔ اور اس کیلئے ہر طرح کی اخلاقی‘ قانونی اور بین الاقوامی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھ رہا ہے۔ نہ کوئی اسے پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا جو آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روکنے کی ہمت کرے۔ محسوس ہوتا ہے کہ تمام عالمی ادارے بھی اس کے سامنے بے بس ہو چکے ہیں۔
چند دن پہلے میڈیا پر پاکستان کے حصے میں آنے والے پانیوں پر بھارت کے بنائے گئے صرف چار پانچ ڈیموں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا‘ لیکن اگربھارت کے فقط چناب پر بنائے جانے والے تمام مجوزہ ڈیمز کی تفصیلات دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان مستقبل قریب میں پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے گا۔ تفصیل یوں ہے: (1) بگلیہار پاور پراجیکٹ فیز1 مرالہ ہیڈ ورکس سے 147 کلومیٹر اوپر بنایا گیا پاور پراجیکٹ 430 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ (2) سلال پراجیکٹ ہیڈ مرالہ سے 45 کلومیٹر اوپر 690 میگاواٹ کا پاور پراجیکٹ ہے جو 14550 کیوسک پانی خرچ کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (3) دُل ہستی پراجیکٹ دریائے چناب کے اوپر کشتوار کے نزدیک 780 میگاواٹ کا پاور پراجیکٹ ہے جو 7522 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ (4) راجوڑ پراجیکٹ دربالی نالہ: یہاں 3 میگاواٹ کا پاور پراجیکٹ بنایا گیا ہے‘ جو 87 کیوسک پانی استعمال میں لا رہا ہے۔ (5) کلر پراجیکٹ دریائے چناب سے نکلنے والے موہل نالے پر 0.3MW کا پاور پراجیکٹ‘ جو43 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ (6) تھروٹ پاور پراجیکٹ دریائے چناب سے نکلنے والے تھروٹ نالے پر 4.5MW کا پراجیکٹ ہے۔ (7) شنشا پاور پراجیکٹ دریائے چناب سے نکلنے والے شنشا نالے پر 0.2MW کا پاور پراجیکٹ ہے۔ (8) ہلنگ پاور پراجیکٹ دریائے چناب پر بلنگ نالے پر 0.1MW کا پاور پراجیکٹ‘ جو 25 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ (9) سیسو پراجیکٹ دریائے چناب کی ٹریبیوٹری پر 0.10MW کا پراجیکٹ ہے اور 25 کیوسک پانی استعمال کر رہا ہے۔ (10) چنائی دوم پراجیکٹ جموں توی پر2MW کا پاور پراجیکٹ‘ جو 251 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ (11) بھدر واہ پراجیکٹ دریائے چناب سے نکلنے والے نیرو نالے کے نزدیک ہالوں نالہ پر 1MW کا پاور پراجیکٹ ہے‘ جو 300 کیوسک پانی خرچ کر رہا ہے۔ یہ وہ 11 پاور پراجیکٹس ہیں‘ جو بھارت نے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے چناب اور اس کے ڈسٹری بیوٹری نالوں پر بنائے ہیں۔
اب دریائے چناب پر بھارت کے 24 ڈیمز کی تفصیل ملاحظہ کریں:
٭ سوالکوٹ پراجیکٹ:۔1200MW کا ہائیڈرو پراجیکٹ ٭کیرو30MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ پکال دل کے مقام پر1020MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ رتلی کے مقام پر560MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭کرتھائیPhase1-2:۔600MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ٭ برسارکے مقام پر1020MW ہائیڈروکا پاور پراجیکٹ٭ شامنوٹ کے مقام پر370MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭نونت کے مقام پر400MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ کروار کے مقام پر520MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭بیری نم کے مقام پر240MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ پٹم کے مقام پر دریائے چناب سے نکلنے والے میار نالہ پر60MW کا پاور پراجیکٹ ٭ تیلنگ کے مقام پر دریائے چناب سے نکلنے والے دریا چندر پر81MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭میار پر90MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭تاندی کے مقام پر150MW کا پاور پراجیکٹ ٭راشل کے مقام پر150MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ڈگر کے مقام پر360MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭چھاترو کے مقام چناب سے نکلنے والے چندر پر108MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭کھوکسر کے مقام پر90MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭سیلے کے مقام پر150MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ بردانگ کے مقام پر114MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭سچ کھاس کے مقام پر210MW کا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ٭ گوندھالہ پر دریائے چناب سے نکلنے والے بھگا نالے پر144MW کا ہائیڈل پاور پراجیکٹ ٭ روٹلی کے مقام پر715MW کا ہائیڈل پاور پراجیکٹ۔ یہ پانی سے بجلی پیدا کرنے والے وہ پاور پراجیکٹس ہیں‘ جو بھارت‘ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریائے چناب پر بنا رہا ہے۔
اب ایک نظر اُن ہائیڈل پاور پراجیکٹ پر ڈالتے ہیں‘ جو بھارت دریائے جہلم کا پانی روک کر اور اس کا رخ موڑ کر تعمیر کر رہا ہے: ٭ اُری ہائیڈل پاور پارجیکٹ جو بارہ مولا سے16 میل نیچے بنایا جا رہا ہے ٭ سمبل گائوں کے نزدیک ہائیڈر پاور پراجیکٹ ٭لوئر جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جو بارہ مولا سے8 میل نیچے کی طرف بنایا جا رہا ہے ٭پہلگام ہائیڈرو پراجیکٹ جو اننت ناگ کے مقام پر تعمیر کیا جا رہا ہے ٭استھان ہائیڈل پراجیکٹ جو دریائے جہلم ہی کے ایک حصے کشن گنگا کے استھان نالے پر بنایا جا رہا ہے ٭ بانڈی پورہ پر دریائے جہلم سے نکلنے والے مدومتی نالے پر بنایا جانے والا پاور پراجیکٹ ٭ گوان نالے پر بنایا جانے والا چھم ہائیڈل پاور پراجیکٹ ٭ کران ہائیڈل پراجیکٹ جو کشن گنگا کے قاضی نالے پر بنایا جا رہا ہے ٭کشن گنگا کے قاضی ناگ نالے پر بنایا جانے والا کماپ ہائیڈل پراجیکٹ ٭ مچھل ہائیڈرو پاور پراجیکٹ جو ودھی نالے پر بنایا جا رہا ہے ٭ برنال ہائیڈل پراجیکٹ جو دریائے پونچھ پر سورن دریا پر بنایا جا رہا ہے‘ جو دراصل دریائے جہلم کا ہی ایک حصہ ہے ٭ بتر نالے پر بنایا جانے والا پونچھ ہائیڈرو پراجیکٹ٭ اپر سندھ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ‘جو 'دان کٹ‘ نالے پر بنایا جا رہا ہے۔
دریائے راوی‘ بیاس اور ستلج کی حالت ہم سب کے سامنے ہے ۔اور باقی رہ گئے‘ چناب اور جہلم ان کے پاس سے گزرنے والے سب جانتے ہیں کہ ان میں کتنا پانی ہے۔ ان دونوں دریائوں پر جب بھارت55 ڈیمز اور ہائیڈل پاور ہائوس بنائے گا ۔اور بگلیہار‘ کشن گنگا اور وولر براج نے مکمل کام شروع کر دیا‘ تو ایک لمحے کیلئے سوچئے پاکستان کے حصے میں پانی نام کی کون سی شے رہ جائے گی؟ بگلیہار کی مکمل تکمیل کے بعد مرالہ ہیڈ ورکس کے اوپر بننے والے دوسرے پاور ہائوسز کی صورت میں اگر مرالہ ہیڈورکس بند ہو جاتا ہے‘ تو مرالہ لنک راوی کینال سے پاکستان کا چاول پیدا کرنے والا ایک کروڑ ایکڑ رقبہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائے گا۔اگر مرالہ کی خشکی کو ختم کرنے کیلئے منگلا ڈیم سے مرالہ ہیڈ ورکس کے پانی کی کمی دور کرنے کی کوشش کی گئی‘ تو پھر پانی کم ہونے سے منگلا پاور ہائوس بند ہو جائے گااور منگلا میں پانی کم ہو جانے سے پاکستان کی ربیع کی فصلوں کیلئے پانی نہیں مل سکے گا۔یعنی بھارت ‘پاکستان کو بنجر ویران اور معاشی طور پر مکمل اپاہج کرنے کیلئے دریائے چناب پر24 دریائے جہلم پر52 اور اب آگے بڑھ کر پاکستان کی شہ رگ دبانے کیلئے دریائے سندھ پر بھی 18 ڈیم بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ دریائے نیلم جسے بھارت میں کشن گنگا کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ جو مقبوضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے سرے پر ہے‘ دریائے نیلم کے پانی پر جسے پاکستان میں دریائے جہلم کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ اس پر پاکستان1989ء سے ہائیڈل پاور پراجیکٹ بنانے کی کوشش کر رہا ہے‘ لیکن اگر بھارت کا کشن گنگا ڈیم مکمل ہو جاتا ہے‘ تو اس سے پاکستان کا نیلم جہلم پاور پراجیکٹ صرف نام کا ہو کر رہ جائے گا۔
بھارت نے جب تک پاکستان کے مشرقی دریائوں کا پانی نہیں روکا تھا۔ اس وقت تک دریائے سندھ میں اتنی زیادہ مقدار میںپانی آتا تھا کہ کوٹری بیراج بننے سے پہلے اس کا ایک قدرتی کینال پھلیلی صرف دریا کے پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے چار ماہ تک پورے بدین اور ضلع حیدر آباد کی دھان کی فصل کیلئے اکتوبر تک پانی فراہم کرتا رہتا تھا۔ اب وہ صورت حال نہیں رہی۔ اگر جامشورو کے پاس دریا کے پانی کو روکا نہ جائے‘ تو اگست کے بعد کوٹری بیراج کا کوئی کینال فصلوں کو پانی مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔سیاچن پر بھارتی قبضے کا اہم ترین پہلو بھی پانی سے متعلق ہے‘ کیونکہ دریائے سندھ کاBED اسی کا ہے ‘جس کا سیا چن ہے۔ اس کے بغیر دریائے سندھ لولا لنگڑا بن جاتا ہے۔