ممبئی حملوں کے متعلق جنرل درانی اپنی اور اے ایس دلت کی مشترکہ کتا ب‘ جبکہ میاں نواز شریف اپنے ارشادات میں جب نریندر مودی کے بیانیے کی تائید کرتے ہوئے ‘ آئی ایس آئی کو ممبئی حملوں کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ تو 28 دسمبر2010 ء کے ایک قومی روزنامے میں لکھا‘ مجھے اپنا وہ کالم یاد آ گیا ‘جو اگلے ماہ آنے والی میری کتاب'' ممبئی حملے اور اجمل قصاب ‘‘ کا باقاعدہ حصہ ہے۔اور جس میں IN THE LINE OF DUTY پرقتل کیے گئے ہیمنت کرکرے کو خراج ِ عقیدت پیش کیا گیا ہے ۔
بھارت کی تاریخ میں ایسے منا ظر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں‘ جیسے بھارت کی دہشت گردی فورس کے انسپکٹر جنرل ہیمنت کرکرے کی بیوہ کویتا کر کرے نے کر دکھایا ۔کویتا کو کہا گیا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی‘ ان کے شوہر ہیمنت کرکرے کی بہادری اور دشمن سے لڑتے ہوئے جان دینے کا اعتراف کرتے ہوئے ‘انہیں گجرات حکومت کی جانب سے بعد از مرگ ایک کروڑ روپیہ اور بہادری کے ایوارڈ سے نواز رہے ہیں‘ جس کیلئے آپ کو اس ایوارڈ کی وصولی کیلئے مدعو کیا جا رہا ہے۔مسز کویتا کر کرے کو سٹیج پر ایوارڈ وصول کرنے کیلئے جب بار بار بلایا جا رہا تھا ‘تو کویتا کر کرے جو سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی‘ اپنی جگہ سے اٹھی‘ لیکن جب اس نے نریندر مودی کے ہاتھ میں تھاما ہوا‘ وہ ایوارڈ اور ایک کروڑ روپیہ وصول کرنے سے انکار کر دیا‘ تو کسی کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ‘لیکن جب دوسری بار مسز کر کرے کو ایوارڈ دینے کیلئے مودی نے ہاتھ آگے کیا ‘تو وہ یہ کہتے ہوئے ہال سے نکل گئی کہ اس کے شوہر کو جب گولی ماری گئی‘ تو وہ چالیس منٹ تک زخمی حالت میں تڑپتے رہے‘ کسی نے انہیں اس وقت تک ہسپتال لے جانے کی کوشش نہیں کی‘ جب تک انہوں نے جان نہیں دے دی۔ میرے شوہر کے قاتل باہر سے نہیں‘ بلکہ اندر کے وہ طاقتور لوگ ہیں‘ جو پورے بھارت میں دہشت گردی کروا رہے ہیں اور میں کسی بھی ایسے شخص سے ایوارڈ لینا پاپ سمجھتی ہوں ‘جو دہشت گردوں کا سرپرست ہے ۔ جب مسز کویتا کر کرے بآواز بلند یہ الفاظ بول رہی تھی‘ تو ہال میں ایک سناٹا سا چھا یا ہوا تھا۔ میڈیا دھڑا دھڑ وہ منا ظر عکس بند کررہا تھا اور دیکھنے والوں نے بتایا کہ ایسے لگ رہا تھا کہ '' سیتا نے راون کو بیچ بازار میںننگا کر دیا ہے‘‘۔
مہاراشٹر پولیس کی دہشت گردی سکواڈ کے تین اہم ترین کرداروں ہیمنت کرکرے‘ اشوک کامتے اور وجے سالسکر کے پرُ اسرار قتل کے اصل کردار آج تک بھارت سامنے لے کر نہیں آیا‘ یعنی ان کی اجمل قصاب پر بنائی گئی‘ کہانی ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔26/11 ممبئی حملوں کے صرف پانچ دن بعد میرا لکھا گیا‘ مضمون '' ہیمنت کر کرے اور کرنل پروہت ‘‘ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ مہاراشٹر دہشت گردی فورس کے سربراہ ہیمنت کرکرے اور ان کے دو ساتھی افسروں کو اجمل قصاب نے نہیں‘ بلکہRAW نے قتل کراتے ہوئے‘ سمجھوتہ ایکسپریس‘ مالیگائوں‘ پونا میں جرمن بیکری‘ حیدر آباد مکہ مسجد‘ جھالنا اور احمد آباد بم دھماکوں کی تفتیش سرد خانوںمیں ڈال دی ‘ کیونکہ کرکرے نے ان تمام بم دھماکوں میں ملوث ملزمان کرنل پروہت‘ سادھوی پرگیا‘ سدھاکر‘ میجر رمیش اور ڈاکٹر آر پی سنگھ کی فائلیں بھارت ماتا کی رکھشا کے نام پر نریندر مودی سمیت کچھ طاقتور لوگوں کے حکم پر بند کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔
ہیمنت کر کرے کی بیوہ کویتا کا نریندر مودی کا ایوارڈ ٹھکرانا کوئی معمولی بات نہیں تھی‘ کیونکہ مودی اس وقت وزیر اعلیٰ ہونے کے علاوہ گودھرا گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروانے پر بھارت بھر کے انتہا پسند ہندئوں کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے تھے ‘ لیکن بے خوف کویتا بار بار ایک ہی مطالبہ کئے جا رہی تھی کہ ان کے شوہر کی پہنی ہوئی بلٹ پروف جیکٹ خون آلود کیوں تھی؟ اور وہ بلٹ پروف جیکٹ کدھر ہے ؟ مسز کویتا کے بار بار مطالبہ کرنے پر انہیں یہ کہتے ہوئے جیکٹ دینے سے انکار کیا جاتا رہا کہ '' جیکٹ کہیں گم ہو گئی ہے‘‘۔کرنا خدا کا یہ ہوا کہ سنجے ونکر نامی ایک شہری نے ممبئی ہائیکورٹ میں ایکPIL ( مفاد عامہ کا مقدمہ) داخل کر دیا کہ مہاراشٹر حکومت نے پولیس کیلئے جو بلٹ پروف جیکٹس در آمد کی ہیں‘ انہیں عدالت میں معائنے کیلئے پیش کیا جائے ‘کیو نکہ ہیمنت کر کرے سمیت ان کے ساتھی افسران نے جو جیکٹس پہنی ہوئی تھیں‘ ان کے بارے میں پولیس کے لوگ شکایات کر رہے ہیں کہ یہ ناقص تھیں‘ جس پر ممبئی ہائیکورٹ نے خریداری کے ذمہ دار8 پولیس افسران کو نوٹس بھی جاری کیے تھے۔
مقررہ تاریخ پر مہاراشٹر حکومت نے جواب داخل کراتے ہوئے کہا '' افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہیمنت کر کرے کی خون آلود بلٹ پروف جیکٹ کہیں گم ہو گئی ہے۔ سنجے وندگر کے وکیل یوگندر پرتاپ سنگھ نے عدالت سے درخواست کی جناب غور کیجئے '' بلٹ پروف جیکٹ اور وہ بھی خون آلود‘‘ بس یہی میرا مقدمہ ہے۔یوگندر پرتاپ سنگھ ایڈووکیٹ ‘جو ایک ریٹائر پولیس افسر تھے‘ انہوں نے عدالت سے کہا کہ یہ جیکٹ کیسے چوری ہو گئی؟ اس کی چوری کی اگر کوئی ایف آئی آر ہے یا اس کی کوئی رپورٹ ہے‘ تو عدالت کے سامنے لائی جانی چاہئے۔ ادھر میڈیا پر جیکٹ کا چرچا تھا کہ دوسری جانب نومبر2010ء کے پہلے ہفتے میں اجمل قصاب نے بھی جیل سے ممبئی ہائیکورٹ کو ایک درخواست دی کہ اس کا ہیمنت کرکرے اور ان کے دو ساتھی پولیس افسران کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آج سے 8 برس قبل اپنے مضمون میں لکھ چکا ہوں اور جنرل درانی سمیت میاں نواز شریف کے سامنے دوبارہ رکھ رہا ہوں کہ مہاراشٹر انسداد دہشت گردی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ہیمنت کر کرے 26/11/2008 کی رات سوانو بجے تک مہاراشٹر کے ڈپٹی چیف منسٹر آر آر پاٹل کے گھر میں ایک میٹنگ میں موجود تھے ‘جہاں ان پر شدت سے دبائو ڈالا جاتا رہا کہ وہ فوج سے کرنل پروہت سمیت دوسرے فوجی افسران کی چھٹیوں کا ریکارڈ نہ مانگیں‘ کیونکہ یہ خبریں میڈیا پر آنے سے سات نومبر کو وزیر دفاع اے کے انتھونی کو وضاحت کرنی پڑ گئی ہے کہ سینئر فوجی افسران کا بم دھماکوں میں ملوث ہونا‘ تشویش کا باعث ہے ‘جس کی ہم تہہ تک جانے کی کوشش کریں گے۔ جس پر 12 نومبر کو آرمی چیف جنرل دیپک کپور کے اخبارات میں شائع یہ الفاظ بھی سامنے رکھئے:
This has been an aberration.
اپنے فرض سے مخلص فوجی افسران سے متعلق ان تمام کیسوں کی فائلیں بند کر نے سے کرکرے نے سختی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے فرض سے غداری نہیں کر سکتا۔ذہن میں رکھئے کہ اس وقت مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ دو مختلف متحارب سیا سی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے اور اس میٹنگ میں ان کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل ممبئی پولیسA.N.RAO بھی شریک تھے۔ یہاں سے جب کرکرے9;15 پر روانہ ہوئے ‘تو اس وقت Leopold cafe پر حملہ ہو چکا تھا ۔ان تینوں پولیس افسران کی لاشیں کاما ہسپتال کے باہر پڑی ہوئی تھیں‘ کیونکہ یہ تینوں آر آر پاٹل کے گھر سے اکٹھے ہی نکلے تھے۔اس وقت کے وزیر داخلہ چدم برم کا کرکرے اور ان کے ساتھیوں کے پر اسرار قتل پر یہ بیان آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے:
Question about Karkaray's investigations and circumstances of his death are deeply miserable.