"MABC" (space) message & send to 7575

کوئی ہے ؟

لاہور میں سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی مجاہد کامران سمیت چند دوسرے پروفیسرز کو نیب ہیڈ کوارٹر لاہور سے احتساب عدالت میں پیش کرنے کیلئے جو ہتھکڑیاں لگیں اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس غلط حرکت پر چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال نے ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب لاہور محمد رفیق کو معطل بھی کر دیا ہے۔ جیسے ہی پنجاب یونیورسٹی کے ان ریٹائرڈ پروفیسرز کو ہتھکڑیاں لگانے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو نیب کے خلاف ملک بھر میں ایک طوفان کھڑا کر تے ہوئے پی پی پی سمیت مسلم لیگ نواز کے اراکین اسمبلی نے وہ احتجاج کیا کہ خدا کی پناہ‘ لیکن لگتا تھا کہ غصہ اور دکھ تو نیب کے خلاف کوئی اور ہے‘ ورنہ ان کے نزدیک کسی استاد کی عزت تکریم کہاں؟جب پی پی پی اور نو از لیگ اپنی طلبا تنظیموں کے ذریعے کینال روڈ بلاک کئے بیٹھے تھے تو وہ یقیناً بھول چکے ہوں گے کہ میاں محمد شہباز شریف اور محمد نوازشریف کے حکم پر بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ علقمہ کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ گرفتار کئے جانے والے دوسرے اساتذہ کو بھی اسی طرح ہتھکڑیاںلگائی گئی تھیں۔ ان پر بھی مجاہد کامران کی طرح اختیارات کے نا جائز استعمال کے الزامات تھے اور یہ استاد ابھی تک جیلوںمیں ہیں۔ 29 اکتوبر2015ء کا اس لئے حوالہ دے رہا ہوں کہ اس دن جمعرات تھی اور یہ تاریخ اور سال سامنے آنے سے یہ شک تو نہیں رہے گا کہ اس وقت میاں نواز شریف اور میاں شہباز کی حکومت نہیں تھی۔ ایک بھائی پاکستان کا طاقت ور وزیر اعظم تھا تو دوسرا پنجاب کا ایسا خود مختار وزیر اعلیٰ کہ راجہ رنجیت سنگھ بھی ا گر ان کے انداز حکمرانی کو دیکھ لیتا تو مان جاتا کہ سکھا شاہی تو یہ ہے‘ میرا تو بس نام ہی ہے۔ اور راجہ بھی ایسا کہ جس کے سامنے نہ تو کوئی چیف سیکرٹری ‘ آئی جی ‘ کمشنر اور سیکرٹری پر مار سکتا تھا اور نہ ہی کوئی گورنر آنکھ اونچی کر کے دیکھ سکتا تھا ۔ 
تمام بڑے بڑے گریڈاپنی نگاہیں نیچی رکھتے تھے۔ کوتوال 
شہر ہاتھ باندھ کر‘ سر جھکا کر کھڑا رہتا تھا ‘مجال ہے کہ کسی کی ان کی جانب پیٹھ بھی ہو جائے۔
۔کمال کا لاجواب دور تھا کہ اس وقت نواز لیگ کا ایم این اے اور ایم پی اے تو بہت دور کی بات‘ کئی طاقتور قسم کے کارکنوں کی ایک فون کال پر ضلعی اور تحصیل عہدیدار ہو جاتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہ کارکن بڑے صاحب کے بہت قریب ہیں‘ ٹی وی پر ان کے ساتھ ہی ہر وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ انہی کارکنوں کی مرضی سے ایس ایچ او اور پٹواری تحصیلدار تبدیل ہواکرتے تھے اور کسی ڈپٹی کمشنر اور ڈی آئی جی کی جرأت نہ ہوتی تھی کہ چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ان کی شکایت کرے کہ یہ کارِ سرکار میں مداخلت کرتے ہیں ‘بلکہ اس وقت کے یہ تمام افسران جو آج بہت ہی اصول پسند بنے پھرتے ہیں‘صاحب کی نظروں سے اپنی نوکریاں اور منافع بخش پوسٹنگز بچانے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔
میاں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں جب بہائو الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر علقمہ اور رجسٹرار یونیورسٹی ملک منیر حسین کو گرفتار کیا گیا تو کیا لاہور کی کسی یونیورسٹی یا کالج کے اساتذہ اور طلبا نے اس پر احتجاج کیا تھا؟ کیا کسی طلبا تنظیم نے لاہور کی کینال روڈ کو پانچ گھنٹے تک بلاک کرنے کی ہمت کی؟ کیا کسی بھی اساتذہ کی تنظیم نے چیئرنگ کراس پر دھرنا دیا؟کیا ڈاکٹر خواجہ علقمہ وائس چانسلر نہیں تھے؟یا وہ استاد نہ تھے؟ ان پر بھی مجاہد کامران جیسے ہی کرپشن اور اختیارات کے نا جائز استعمال کے الزامات تھے‘ جس پر نیب نے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سمیت تین دیگر ریٹائرڈ اساتذہ کو پولیس کی لگائی جانے والی ہتھکڑی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تین روز تک طلبا کی جانب سے کینال روڈ پر دیئے جانے والے دھرنے نے ہزاروں لوگوں کا کہیں بھی آنا جانا دشوار کئے رکھا۔ نہ جانے کتنے انسان تھے جو اذیت سے دوچار ہوئے‘ میری بہو بھی‘ جو ایک کالج میں لیکچرار ہے‘ اپنی گاڑی میں تین گھنٹے تک وہاں بلاک رہی‘ جس سے ان کے طلبا کے پیریڈ ضائع ہو گئے۔ کئی مریض بھی ان میں شامل تھے‘ جنہیں ایمبو لینس اور گاڑیوں میں ان کے بہن بھائی اور اولادیں جوہر ٹائون اور ٹھوکر نیاز بیگ سے لے جارہے تھیں‘ ان میں سے دو راستے میںہی ا نتقال کر گئے اور کچھ بے چارے جو کئی گھنٹے ٹریفک میں بلاک رہے‘ بر وقت طبی سہولت نہ ملنے سے ان کی بیماریاں شدید صورت اختیار کر گئیں۔
استاد کا احترام سب پرواجب ہے لیکن اس پر جو سیا ست کی گئی وہ کسی طرح بھی قابل فخر نہیں‘ کیونکہ کیسے مان لیا جائے کہ بات صرف ہتھکڑیوں کی تھی؟ مقصد یہ تھا کہ اس ایشو کو لے کر دو دن بعد ہونے والے لاہور کے ضمنی انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں نفرت پیدا کی جائے۔ اگر واقعی استاد کا اس قدر احترام ان کے دلوں میں ہوتا تو بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علقمہ کیلئے بھی احتجاج کرتے؟
آج مقبوضہ کشمیر کے ہر گھر سے جوان لاشے اٹھ رہے ہیں‘ صرف تین دنوں میں گیارہ جوان کشمیری بیٹوں کی لاشیں بھارتی فوج نے ان کے گائوں کے باہر لا کر پھینک دی ہیں‘ حالت یہ ہو چکی ہے کہ رات گئے بھارتی فوج ہر کشمیری مسلمان کے گھر میں زبردستی داخل ہو کرخواتین کو یہ کہہ کراٹھا لیتے ہیں کہ ان سے تفتیش کرنی ہے کہ ان کے گھر 
میں کون کون آتا ہے اور ان کے گھر کے مرد کہاں جاتے ہیں اور کس سے ملتے ہیں۔ اگلی شام ان خواتین کی روندی ہوئی عزتیں چیخ و پکار کرتی ہوئی یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ '' کوئی ہے‘‘۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے انتہائی بے دردی سے ایک پی ایچ ڈی سکالرمنان وانی کو جب قتل کیا تو پنجاب یونیورسٹی کے طلبا کے کسی گروپ نے ایک استاد کے قتل پر کوئی احتجاج کیا؟ لاہور سمیت پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی اور کالج کا ایک بھی طالب علم نے بھارتی فوج کے ہاتھوںپی ایچ ڈی پروفیسر منان وانی کے بے رحمانہ قتل پر آواز بلند نہ کی۔شاید اس کیلئے جاتی امراسے کوئی حکم نہیں آیا تھا؟شاید اس لئے کہ یہ پروفیسر ان کے لیڈروں کے محبوب دوست نریندر مودی کا دشمن تھا؟ پاکستان کے سب طلبا تو خاموش رہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں‘ لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں طلبا تو ایک طرف‘ علی گڑ ھ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات بھی سراپا احتجاج بن کر بھارت کی فوج اور پولیس کے ظالمانہ رویے کی پروا کئے بغیر سڑکوں پر آگئے۔ لیکن پاکستان کے کسی طالب علم یا سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کے کسی ایک ڈپارٹمنٹ کے طلبا کی جانب سے بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک لفظ بھی سننے میں نہیں آ یا۔ضروری نہیں تھا کہ آپ کینال روڈ یا کسی دوسری سڑک کو بلاک کر تے‘ آپ نہر کے کنارے بغیر ٹریفک کو بند کئے‘ انتہائی مہذب انداز سے اپنے ہاتھوں میں منان وانی کی تصویر اور بھارت کی مذمت میں لکھے گئے پوسٹر لئے کھڑے ہو سکتے تھے‘ تاکہ بھارتی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف پاکستانیوں کے اس احتجاج کو ہمارا میڈیا بھر پور کوریج دیتا اور 70 برسوں سے بھارتی زندان میں قید لاکھوں‘ کشمیری بیٹیوں تک یہ آواز پہنچ جاتی کہ تمہاری مدد کیلئے '' کوئی ہے ‘‘۔
استاد کا احترام سب پرواجب ہے لیکن اس پر جو سیاست کی گئی وہ کسی طرح بھی قابل فخر نہیں۔مقصد یہ تھا کہ اس ایشو کو لے کر دو دن بعد ہونے والے ضمنی انتخابات سے پہلے حکومت کیخلاف لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں نفرت پیدا کی جائے۔ اگر واقعی استاد کا اس قدر احترام ان کے دلوں میں ہوتا تو بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر علقمہ کیلئے بھی احتجاج کرتے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں