فاٹا سمیت خیبر پختونخوا میں زرداری ‘ مولانا فضل الرحمان ‘ (ن) لیگ ‘ محمود خان اچکزئی اور ولی خان گروپ منظور پشتین کے ہراول دستے کے فرائض انجام دیتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اندرونِ سندھ چند ہفتے قبل قوم پرست ریلی کے شرکا کی تصویریں دیکھیں تو پیپلز پارٹی کے جانے پہچانے چہرے دکھائی دیں گے ۔عید کے بعد اپوزیشن کی چلائی جانے والی تحریک کے گرد لپٹے ہوئے چند عوامل کو ذرا غور سے دیکھئے گا ‘ ایک جانب بلوچستان میں دہشت گردی‘ گوادر پورٹ اور سی پیک کے خلاف ہمسایہ ملک سمیت امریکہ اور بھارت کی گوریلا جنگ میں یک لخت تیزی نظر آئے گی اور دوسری جانب خیبر پختونخوا میں منظور پشتین اوردیگر کی فوج مخالف سرگرمیوں اور ملکی معیشت کی بد حالی میں اضافہ ہو جائے گا ۔
تحریک انصاف کے اقتدارکے پہلے آٹھ ماہ میں ڈالر کی نا قابل برداشت اور غیر متوقع اڑان سے ہونے والی مہنگائی ‘ یوٹیلٹی بلز میں اضافے کو اپوزیشن اپنے حق میں استعمال کررہی ہے۔ عوام کو لگنے والے یہ زخم آصف زرداری اور شریف برادران نے جان بوجھ کر اس ملک اور عوام کے لیے چھوڑے تھے ۔ انہی کی وجہ سے آج آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے قرضوں نے ہمارا گلا گھونٹ رکھا ہے ۔ آج جب یہ تحریرکر رہا ہوں تو اپوزیشن حکومت کے خلاف تیار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان‘ شریف فیملی‘ زرداری خاندان‘ ولی خان فیملی اور اچکزئی بلاول بھٹو کی جانب سے دی جانے والی افطار پارٹی میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے۔ ان کا ایجنڈا سیا سی نہیں بلکہ1977 ء طرزکی تحریک چلاتے ہوئے پاکستان کی رہی سہی معیشت اور کرنسی کو نیست و نابود کرنا تھا۔ مولانا کے پاکستان بھر میں اس دھرنے کی تیاریوں میں ''بلا ول ہائوس اور جاتی امرا‘‘ کے ہمراہ سی پیک کے دشمنوں کی مہربانیوں سے مصروف ہو چکے ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ ابCelebrity کے اس سحر سے نکل آئیں جو انہوں نے کرکٹ گرائونڈ کے مداحین سے بچنے کے لیے بھاگ کر ڈریسنگ روم جانے کی صورت میں اپنا رکھا ہے۔اب کرکٹ ٹیم نہیں وہ ایک ایسے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں جس کی چاروں جانب دشمن لپکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے میں انہیں خوشامدی ٹولے کی بجائے اپنے حقیقی کارکنوں اور ہمدردوں سے رابطے بڑھانا ہوں گے۔ اپنے اراکین اسمبلی کو عزت و احترام سے ساتھ رکھتے ہوئے ان حضرات کو جو تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈرز کے مقابلے میں پارٹی پالیسیوں کو پائوں تلے روندتے ہوئے انتخابات میں پارٹی امیدواروں کے خلاف کود پڑے تھے‘ انہیں وزیر اعظم ہائوس میں پارٹی سکارف پہنانے سے پہلے اپنے اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ جوہر آباد سے پی ٹی آئی کے منتخب رکن قومی اسمبلی احسان ٹوانہ کی مثال لیجئے کہ ان سے شکست خوردہ شخص وزیر اعظم ہائوس میں پارٹی سکارف گلے میں ڈلوا رہا ہے جبکہ رکن قومی اسمبلی سے کسی نے پوچھنا تو درکنار انہیں بتانا بھی گوارا نہ کیا ۔
میاںنواز شریف اور شہباز شریف جانتے تھے کہ 2013ء کا اقتدر انہیں کیسے ملا؟ انہیں کن کن قوتوں نے سلیکٹ کیا اورجس کا اشارہ ان انتخابات کے تیسرے ہی روزر بلاول ہائوس لاہو رمیں آصف علی زرداری نے سینئر صحافیوں سے خصوصی گفتگو میں یہ کہتے ہوئے کیا تھا '' ارے بھائی یہ تو آر اوز کے انتخابات ہیں‘‘۔ شریف برادران اپنے اقتدار کے پوشیدہ گوشوں اور خفیہ ہاتھوں کی مہربانیوں سے بخوبی واقف ہونے کی وجہ سے جانتے تھے کہ 2018ء میں ان کی کامیابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘اس لئے 2013 ء کا اقتدار ملتے ہی دونوں بھائیوں نے کہیں میٹرو اور اس کی سبسڈی‘ کہیں اور نج لائن ‘56 کمپنیاں‘ سستی روٹی کے تندور ‘ قائد اعظم سولر پارک ‘ بجلی گھر لگانے کے منصوبے اور گردشی قرضوں کے پہاڑ اس لئے لاد دیے کہ کون سے ان کی حکومت نے ادا کرنے ہیں۔ ان قرضوں کی ادائیگیوںسے نئے آنے والوں کو لینے کے دینے پڑ گئے‘ لیکن پہاڑ اس وقت ٹوٹا جب عمران حکومت کو پتہ چلا کہ ان تمام قرضوں کے علا وہ27 ارب ڈالر کے وہ قرضے بھی ہیں جو نواز لیگ نے پرائیویٹ کمپنیوں کی آڑ میں آئی ایم ایف سے وصول کر رکھے ہیںاور جن کا انہوں نے بجٹ میں ذکر تک نہیں کیا تھا ۔ آج جب افطار پارٹی میں مریم صفدر اور بلاول بھٹو زرداری ایک ایجنڈے پر متفق ہو رہے ہیں تو پوچھا جا سکتا ہے کیا آپ اس'' گریٹر پنجاب ‘‘کے ایجنڈے کا حصہ بن چکے ہیں جس کی جانب آصف زرداری نے میاں نواز شریف کا نام لیتے ہوئے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں اشارہ کیا تھا ؟
آج کی دنیا میں ملک فوجی طاقت سے فتح یا سر نگوں نہیں ہوتے بلکہ معاشی طور پر انہیں بر باد کرتے ہوئے اپاہج بنا دیا جاتا ہے ‘ یہی صورتحال آج پاکستان کو درپیش ہے جو کہ پچھلے آٹھ ‘ نو ماہ میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ نواز شریف اور اسحاق ڈار نے جان بوجھ کر سنگین جرم کیا ہے جس کی قیمت پاکستان اور اس کے عوام کو نہ جانے کس صورت میں ادا کرنی پڑے؟ میثاق جمہوریت کے ان دونوں بھائیوں کی مہربانیوں سے معاشی صورتحال اور غیر ملکی قرضوں کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے لیکن چالاکی دیکھئے کہ ان کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی سے پیدا ہونے والے عوامی غصے کا رخ ' 'کٹھ پتلی وزیر اعظم‘‘ کا لقب دیتے ہوئے موجودہ حکمرانوں کی جانب موڑ ا جا رہا ہے ۔اپنی ہر تقریر میں'' کٹھ پتلی‘‘ اور ''سلیکٹڈ ‘‘کے الفاظ کا ستعمال ایسے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ تمہاری مشکلات کا سبب عمران خان نہیں بلکہ ان کو لے کر آنے والے ہیں۔
بظاہر امکان یہ ہے کہ جون میں اپوزیشن جماعتیں اسلام آباد میں دھرنا دینے جا رہی ہیں جس کے ساتھ ہی ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہڑتالوں اور ایجی ٹیشن کا آغاز ہو سکتا ہے ۔ شنید ہے کہ اس کے لیے تین ملکی ٹرائینگل مالی‘ تخریبی اور سیا سی عدم استحکام فراہم کرے گا تاکہ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ‘ تجارتی خسارے اور دہشت گردی میں اضافہ اور اس صورتحال سے ملکی معیشت کا پہیہ جام کر تے ہوئے ملک کو اس حالت پر پہنچا دیا جائے کہ '' مداخلت لازمی ہو جائے‘‘ ۔کیا یہ پاکستان کے لیے منا سب رہے گا؟ اگر منا سب نہیںتو پھر کیا کرنا چاہئے ؟ یہ ہے وہ سوال جو سب سے پہلے پاکستان کی سوچ رکھنے والوں کو پریشان کر رہا ہے۔ عمران خان کی اس بات سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ ملک لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسے معاملات اور سوچ کو معتدل طریقے سے اس طرح حل کر لیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔ بالکل اسی طرح جیسے اسلام آباد کا دھرنا آرمی پبلک سکول کے معصوم بچوں کے قتل عام کی وجہ سے اٹھانا پڑگیا تھا لیکن جدوجہد جاری رہی۔ اپوزیشن کے جلائو گھیرائو سے اگر سیا سی سیٹ اپ کو ڈینٹ پڑا تو اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے گی؟ اپوزیشن یا حکمران جماعت یا مقتدرہ پر ؟