اگر کوئی آپ کے گھر کے بیڈ روم پر جبری قبضہ کر کے رہنا شروع کر دے‘ تو اسے نکالنے کیلئے آپ کے ہر قسم کے ترلے منتیں‘ بار بار کی پنچایتیں ‘وہ اپنے جوتے کی ٹھوکر پر رکھے تو پھر اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بے شرموں کی طرح اپنے گھر کے اندر اس کی جبری موجو دگی کو قبول کر لیا جائے یا اسے بزورِ طاقت نکال باہر پھینکیں ۔ اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ جو موجیں وہ اس بیڈ روم کو استعمال کرتے ہوئے حاصل کر رہا ہے‘ جب تک اسے اس سے زیا دہ تکلیفیں نہیں پہنچائو گے‘ وہ اس کمرے کو خالی کرنے کا سوچے گا بھی نہیں‘ بلکہ وہ اس سے ملحقہ باورچی خانے اور لان کو بھی اپنے استعمال میں لانا شروع کر دے گا ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جب بتا دیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘تو پھر کمزور سی بھنبھناہٹ سے کیوں کہاجاتا ہے کہ ''کشمیر جو ہماری شہ رگ ہے‘ اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے‘‘ ۔
یہ کانپتی اور مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہوئی کمزور سی آوازیں نکالنے والے بدر‘ احد‘خیبر‘ خندق‘ قادسیہ‘سندھ ‘ قیصرو کسریٰ کی جانب دیکھتے ہوئے؛ اگر لرزتے ہیں تو پھر زیا دہ دُور نہیں‘ صرف چند میل کے فاصلے پر افغان طالبان کو دیکھ لیں‘ جنہوں نے دنیا بھر کی طوفان بلا خیز فوجوں کو جدید ترین خوفناک ہتھیاروں اور مضبوط طاقتوں کو اپنے مضبوط ایمان اور بے سر وسامان فوجی قوت کے با وجود مجبور کر دیا کہ وہ سپر پاور امریکہ کی شرائط پر نہیں ‘بلکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کیلئے آئیں گے۔ نہ انہوں نے مذاکرات کی کوئی پیشکش کی تھی اور نہ ہی انہوں نے اس کیلئے کوئی جلدی دکھائی اور ان مذاکرات کے دوران بھی وہ کابل جیسے فوجی اور سکیورٹی گڑھ میں اپنے آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کا ''کوئی فوجی حل نہیں‘‘ کے بیان داغنے والو‘ اگر یاد رہ گیا ہو تو غور سے سننا‘ یہ وہی طاقتیں ہیں‘ جو کل تک طالبان کے متعلق یہ کہتے نہیں تھکتی تھیں کہ وہ دہشت گردوں سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کریں گے ۔
افواج پاکستان کے حاضر اور ریٹائرڈ افسران میں کئی ایسے درخشندہ ستارے ہیں؛ جن میں پاک فضائیہ کے چیف ائیرمارشل مرحوم اصغر خان اور مرحوم نور محمد خان ‘ شہید مصحف علی میرکے بعد موجودہ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان قابل ذکر ہیں۔ستائیس فروری کو ان کی زیر نگرانی پروان چڑھنے والی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول پر اپنی طاقت کے نشے میں بد مست ہو کر گھسنے والی بھارتی فضائیہ کو چند منٹوں میں جو ناکوں چنے چبوائے ‘اس نے خود کو ایشیاء کی سرخیل اور ماتھے پر بہت بڑی فوج کا سہرا سجائی لڑیوں کو تار تار کر کے رکھ دیا۔ ائیر مارشل اصغر خان مرحوم کا لگایا ہوا پاک فضائیہ کے اس پودے‘ جو آج اﷲ کے فضل و کرم سے ایک تن آور درخت بن چکا ہے‘ خدا کی مدد سے معرکہ ستائیس فروری کے بعد پاکستان کو دنیا بھر کے دفاعی اور سیا سی اداروں سمیت بین الاقوامی میڈیا میںجگمگا کر رکھ دیا ہے۔وہ لوگ جو دنیا کے مشہور دفاعی جریدوں اور تجزیوں کو پڑھتے رہتے ہیں صرف وہی بہتر اندازہ کر سکتے ہیں کہ ستائیس فروری کے بعد بھارت اور پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا کس طرح موازنہ کیا گیا۔ ستائیس فروری کی فتح کا سہرا اﷲ اکبر کی پرُ شکوہ عظمت پر بھر پور ایمان اور جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان کی زیر قیادت دشمن سے لڑنے والی پاک فضائیہ کی مہارت اور شہا دت کی طلب کے نام جاتا ہے۔
طارق خان کا نام ان فوجی افسران میںشمار ہوتا ہے‘ جن کی پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت کا آج ڈنکا بجتا ہے۔ وہ ان چند فوجیوں میں شامل ہیں‘ جنہیں نام و نمود کا شوق نہیں‘ ورنہ یہ چائیں تو ہر ٹی وی چینل کی ضرورت بن جائیں ۔ پاکستان کے ارد گرد ہونے والی سیا سی اور عسکری تبدیلیوں پر ان کے پرُ مغز مشوروں اور تجاویز سے ہماری وزارت ِدفاع اور وزیر اعظم ہائوس کو بھر پور استفادہ کرنا ہو گا‘ کیونکہ دنیا کی ہر قابل ِذکر سلطنت اب تھنک ٹینک کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ادھر انڈین آئین کے آرٹیکل370 اور35 اے کی منسوخی اور کشمیر کی دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال پر بھارت نظریں جمائے ہوئے ہے؛ اگر پاکستان اور دنیا بھر میں اس کے خلاف شدید ردعمل جاری رہا اور کشمیرمیں آزادی کی تحریک دبنے کی بجائے پھیلتی چلی گئی تو پھر نریندر مودی سرکار جوا کھیلنے کی کوشش کرے گی اور یہ جوا‘بھارتی سپریم کورٹ سے ایک معاہدے کی صورت میں متوقع ہے۔ جنرل طارق خان کہتے ہیں:
In my limited understanding, the Indian supreme court, remains a valve that can release the pressure.
طارق خان صاحب کے مطا بق ‘اب وقت آ گیا کہ پاکستان ہر طرح کی مصلحت خوف ڈر اور خاموشی توڑ کر مسئلہ کشمیر پر ہر قسم کی کنفیوژن کو ختم کرے۔ اپنے گھر کے بیڈ روم پر جبری قبضہ ختم کرنے کیلئے ڈر خوف اور خاموشی توڑنا ہو گئی‘ جس سے مودی حکومت اجیت ڈوول کے ذریعے '' انڈر ہینڈ‘‘ ڈیل کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ سے اس بل کی منسوخی کی درخواست کر دے گی۔ اس طرح بی جے پی اپنے کروڑوں انتہا پسند ہندؤ ووٹروں کو یہ کہتے ہوئے مطمئن کر سکے گی ؛ کیا کریں جی کہ سپریم کورٹ ہمارے راستے میں رکا وٹ بن چکی ہے‘ لیکن یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب تک بھارت پر نمائشی نہیں آرائشی نہیں ‘بلکہ صدق دل سے عملی اقدامات کرتے ہوئے ہر طریقے سے ہر رستے سے دبائو بڑھایا جائے۔اس وقت تک پاکستانیوں کی نوے فیصد سے زائد اکثریت کشمیریوں کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کیلئے مکمل طور پر تیار بیٹھی ہے۔
لیکن بلاول بھٹو کے کشمیر پر سیا ست چمکاتے بیانات سنتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے ۔شاید وہ بھول چکے ہیں کہ راجیو گاندھی کی آمد پر اسلام آباد میں شاہراہ کشمیر کے بورڈز سفید کپڑے سے کس کے حکم سے ڈھانپے گئے تھے؟ بلا ول بھٹو ‘جب وزیر اعظم عمران خان پر کشمیر کا سودا کرنے کے الزامات لگاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ‘اگر بلاول یا پی پی پی کا کوئی بڑا لیڈر چاہے تو میں کسی بھی ٹی وی چینل پر سکھوں کی فہرستیں دینے کا وہ راز فاش کروں گا‘ جو آج تک کسی کی زبان پر نہیں آ سکا۔ میں جانتا ہوں وہ فہرستیں کس رجسٹر پر درج تھیں اور 1988 ء میں بینظیر کے اقتدار میں آنے پر کیسے راجیو گاندھی تک پہنچائی گئیں۔اگر کسی کو رتی بھر شک ہے تو وہ 27 دسمبر 2007ء کا وہ انگریزی اخبار دیکھ سکتا ہے‘ جس میں محترمہ کا اپنا لکھا ہوا مضمون شائع ہوا تھا ‘جس میں راجیو گاندھی کی مدد کا اقرار کیا گیا ہے۔جس ٹی وی چینل پر چاہیں‘ یہ تمام ثبوت قوم کے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ پاکستان میں ہمیشہ کی طرح کشمیریوں سے ہمدردی کے نعرے اور خالی دعوے کرتے ہوئے اس اہم مسئلہ پر پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے ‘جو انتہائی شرم کی بات ہے‘ کیونکہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اور کشمیری بچے بوڑھے‘ مردو خواتین جس بہادری اور دلیری سے سات لاکھ سے زائد بے رحم بھارتی سکیورٹی فورسز کی گولیوں کی بارش میں آزادی کیلئے جدو جہد کر رہے ہیں۔ ان میں خالی خولی نعرے لگانے والی پاکستان کی کسی سیا سی جماعت کا رتی بھرکا عملی حصہ نہیں۔ یہ سب شعبدے بازیاں کرتے ہوئے اپنی سیا سی دکانیں چمکارہے ہیں۔اس لئے ان سب کو ڈرامے بازیاں بند کرنا ہوں گی۔
الغرض ‘اگر واقعی کشمیر یوں کو بھارتی جبر اور ظلم سے نجات دلانی ہے تو پھر جو درد بھارت ہمیں بلوچستان‘ کراچی‘ کے پی کے‘ فاٹا اور وزیرستان میں دے رہا ہے‘ اسی قسم کا درد بھارت کو پہنچانا ہوگاو‘رنہ یاد رکھیئے کہ مودی کسی صورت کشمیر اور سیاچن پر فیصلہ کن بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گا۔