"MABC" (space) message & send to 7575

کانٹے نکال دیجئے

خیبر پختونخوا میں مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے سینکڑوں کارکن ہاتھوں میں پکڑنے والے ڈنڈوں پر خار دار تاریں لگائے ‘ حکومت ختم کرنے کیلئے اپنی جانیں دینے کا حلف اٹھا رہے تھے‘ تو میڈیا نے مولانا فضل الرحمن کے مارچ کو ایک عفریت کے روپ میں دکھانا شروع کر دیا۔ اسی دوران ایک وزیر باتدبیر نے میڈیا پر آ کر تقریر جھاڑنا شروع کر دی کہ '' بھول جائو ایک کروڑ نوکریوں کو‘ ہم تو پہلے سے موجود 400 محکمے ختم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں‘ ‘۔ یہ بیان جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف تھا ۔یوںوزیر موصوف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف پہلے سے ابھرنے والی مخالفت میں مزید اضافہ کر دیا۔ اب آگے کا منظر دیکھئے؛ ایک صاحب نے جو کبھی کبھی اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ شاید ان سے زیا دہ وزیر اعظم عمران خان کا کوئی سپورٹر ہی نہیں‘ انہوں نے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے وزیر صاحب کی 400 محکمے ختم کرنے والی اس تقریر کے بعد اگلی شام اپنے پروگرام میں انہیں سوٹڈ بوٹڈ وفاقی وزیر کی موجو دگی میں بتانا شروع کر دیا کہ جناب آپ 400 محکموں کی باتیںکر رہے ہیں‘ جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تو 480 محکموں اورا داروں کو ختم کرنے کا پروگرام بنا رہی ہے اور پھر اس نے اپنے پاس موجود ایسے محکموں کی فہرست پڑھ پڑھ کر سنانی شروع کر دی ‘جس سے وزیر صاحب کے کہے گئے بیان کے خلاف ابھرنے والا تاثر اور پختہ ہو گیا کہ حکومت بچت کے نام پر ملک بھر میں بے روزگاروں کا ایک سیلاب لانے جا رہی ہے۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ تمام محکمے؛ چونکہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں واقع ہیں‘ اس لئے جب وزیر اعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگنے کیلئے دھرنا یا مارچ ان شہروں کا رخ کرے ‘تو مذکورہ بالا400یا480 محکموں کے ملازمین اور ان کے احباب اپنی ملازمتیں بچانے کیلئے مولانا فضل الرحمن سمیت نواز لیگ اور پی پی پی کا ہراول دستہ بن کر ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ انتہائی شریفانہ قسم کا وہ ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ یہ محکمے شاید کل ہی ختم کر دیئے جائیں گے۔ ان صاحب سے صرف اتنا کہنے کی اجا زت مانگ رہا ہوں کہ جب مسلم لیگ نواز اور پی پی پی نے متفقہ طور پر آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم کرتے ہوئے درجنوں محکمے وفاق سے صوبوں کو منتقل کرتے ہوئے‘ اس ملک کی وحدت ا ور سالمیت کو دھچکا لگایا تھا ‘تو کیا اس وقت اس ترمیم کی زد میں آنے والے محکموں کے ملازمین اس ٹوٹ پھوٹ اوربے روزگاری کا شکار ہوئے تھے؟ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اس وزیر باتدبیر نے غلطی سے یا بھو ل پن سے ان کی دن بدن کم ہوتی ہوئی مقبولیت میں جب مزید اضافہ کر ہی دیا ہے‘تو ایسے میں اس کے اثرات ہر گھر اور ہر سرکاری ملازم محسوس کرنے لگا ہے۔ وزیروں اور مشیروں کی جانب سے عوامی سطح پر اس قسم کے مشورے ‘تقریریں اور باتیں ہو سکتا ہے کہ کسی اچھے مقاصد کیلئے کی گئی ہوں ‘لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں موجودہ میڈیا کی اس دوڑ میں حکمرانوں کو کہاں تک لے جاتی ہیں؟ اس کی ایک مثال پیش یہاں پیش ِخدمت ہے:۔
کبھی کبھی نہ جانے کچھ اتفاقات یا مماثلتیں کیوں جانی پہچانی سی لگنے لگتی ہیں۔ 1973ء کے آئین کے مطا بق‘ پاکستان کے اگلے عام انتخابات کیلئے پانچ سال کی مدت مقرر کی گئی تھی‘ لیکن نہ جانے ایک دن اچانک کیا ہوا کہ ذوالفقار علی بھٹو( وزیر اعظم پاکستان) نے 7 جنوری 1977ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے مقررہ وقت سے پہلے قومی ا ور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے صدر پاکستان فضل الہٰی چوہدری کو10 جنوری1977ء کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر دی اور پھر7 مارچ 1977ء کا دن پاکستان کے اگلے عام انتخابات کیلئے مقرر کر دیا گیا۔وہ لوگ ‘جو اس وقت ملک کے سیا سی حالات سے واقف ہیں‘ان کے علم میں ہو گا کہ جب بھٹو صاحب نے وقت سے پہلے عام انتخابات کاا علان کیا تو ملک میں کسی ایک بھی سیا سی جماعت سوائے مرحوم ائیر مارشل (ر)اصغر خان کی ''تحریک ِاستقلال‘‘ اور مولانا مودودی مرحوم کی زیر امارت ''جماعت اسلامی‘‘ کے اور کسی کا کوئی خاص وجود نہیں تھا۔اس وقت کونسل مسلم لیگ‘ پیر صاحب پگاڑا مرحوم کی مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں کے باقی چھوٹی چھوٹی جماعتیں بس برائے نام تھیں۔
لیکن جیسے ہی بھٹو صاحب کی طرف سے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے سیا سی حالات اور گٹھ جوڑ نے عجب منظر دکھایا کہ ایک شام شاد باغ لاہور کے ایک گھر میں عشائیہ کے نام پر پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران جمع ہوئے اور پھر مرحوم رفیق باجوہ ایڈووکیٹ کے گھر کے ڈرائنگ روم میں جمع ان ننھی منی اور آپس میں بر سر پیکار رہنے والی تمام سیا سی جماعتوں کے قائدین ایک ساتھ بیٹھ کر بھٹو صاحب کے خلاف انتخاب لڑنے کی ترکیبیں بنانے لگے۔ اس وقت لاہور بھر کے پرنٹ میڈیا کے نمائندگان ‘وہ بڑی خبر لئے‘ اپنے اپنے اخبارات کے دفاتر کی جانب بھاگ رہے تھے‘ جسے ابتدا میں تو کوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی‘ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ایسے لگا کہ جیسے دریا کے آگے باندھے ہوئے تمام بند کھل گئے ہوں اور وہ لوگ جو چار برس سے مسلسل خوف و دہشت کے حصار میں بندھے ہوئے تھے اور جو سڑکوں پر آنے سے گھبرایا کرتے تھے‘ یک دم بے قابو ہو کر سراپا احتجاج بن گئے۔
الغرض'' پاکستان قومی اتحاد‘‘ کے نام سے 9 جماعتوں کا اتحاد وجود میں آ گیا اور پھر 9 ستاروں پر مشتمل ان کا سبز جھنڈا بھی ملک بھر میں ہر طرف لہرانا شروع ہو گیا۔ پی پی پی اور بھٹو صاحب کیخلاف ملک بھر میں جلسوں اور ریلیوں میں9 ستاروں کے جھنڈے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اتحاد کو الاٹ کیا جانے والے انتخابی نشان ''ہل ‘‘شہروں ‘ دیہاتوں اور گوٹھوں کے در و دیوار کی زینت بن گیا۔ قومی اتحاد کے جلسوں میں عوام کا جوش و ولولہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب بے قابو ہونے لگا تو ذوالفقار علی بھٹو نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ شخص جسے بھٹو صاحب نے اپنا سپیشل ایڈوائزر مقرر کر رکھا تھا اور جو بھٹو صاحب کے ساتھ اس طرح چپکا دیا گیا تھا کہ اس کی باتوں اور مشوروں کو وہ حرف ِآخر سمجھنے لگے تھے اور جس نے انہیں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ملک کی تمام خفیہ ایجنسیوں کی بھیجی جانے والی رپورٹس کے مطا بق‘ اپوزیشن بکھری ہوئی تو ہے ہی ساتھ ہی ان میں سر پٹھول بھی جاری ہے ‘جسے آپ خود بھی دیکھ ہی رہے ہیں ‘اس لئے ہمارے لیے سب سے بہتر موقع ہے کہ ان کے انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وقت سے پہلے عام انتخابات کرادیں۔ بھٹو صاحب سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ قومی اتحاد وجود میں آ جائے گا اور ان پر مشتمل یہ جماعتیں ان کیلئے کوئی مشکل پیدا کر سکیں گی ‘لیکن وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھاا ور اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی ان کے ہاتھ میں نہیں‘بلکہ کسی اور کے ہاتھوں میں آ چکا تھا۔وہ تمام رپورٹس‘ سمریاں اور مشورے جو انہیں قومی اسمبلی توڑنے سے پہلے رات گئے وزیر اعظم ہائوس کے انتہائی محفوظ کمرے میں سنائی ا ور دکھائی جاتی تھیں‘ ایک ایک کرتے ہوئے ان کے سامنے آنا شروع ہو گئیں‘ لیکن وقت ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اوروہ صاحب‘ جس نے انہیں اسمبلیاں توڑنے کا ڈرافٹ تیار کر کے پڑھنے کیلئے دیا‘ اس کا نام رفیع رضا تھا اور وہ جو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریب اور اور با اعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے ‘بھٹو صاحب کو چاروں اطراف سے گھرا ہوا دیکھ کر ان پر ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے اپنا بوریا بستر اٹھائے چپکے سے امریکہ سدھار چکے تھے۔
قارئین !تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے‘ جس میں قوموں کے رہنماؤں کو کبھی کبھی جھانک لینا چاہیے‘ تاکہ ان کو مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرنے میں آسانی ہو‘ لیکن افسوس کہ اکثر معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور ماضی کی غلطیاں بار بار دھرائی جاتی ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں