"MABC" (space) message & send to 7575

سنگھ پریوار کا فیصلہ

بابری مسجد کے مستقبل کا فیصلہ بظاہر تو بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کے دستخطوں اور مہر سے جاری ہوا ہے‘ لیکن ہر ایک کی زبان پر یہی بات ہے کہ ا س فیصلے کی تحریر کسی جج کی نہیں‘ بلکہ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیم سنگھ پریوار کی ڈرافٹ کی ہوئی ہے۔سنگھ پریوار سے مراد ہندو قوم پرست تنظیموں کے خاندان ہیں‘ جن کے اراکین نے راشٹریہ سیوک سنگھ بنائی یا ان نظریات کی حوصلہ افزائی کی‘ یعنی سنگھ پریوار ‘ہندو قوم پرست تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔سنگھ پریوار کے بینر تلے ہندوتوا تنظیمیں اور ان کے نیٹ ورک اس ہولناک نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں اور اسی لئے سنگھ پریوار میں لگ بھگ باون (52) شدت پسند تنظیمیں شامل ہیں‘ جن میں آر ایس ایس‘ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ ویشوا ہندو پریشد‘ شیو سینا اور بجرنگ دل نمایاں ہیں اور ان سب کی مشترکہ حکمت عملی ‘ بھارت سمیت دنیا بھرمیں نفرت کا ماحول تیار کرنا ہے۔
سنگھ پریوار کا کام ہے؛ ہندوؤں کو جذبات میں لا کر دوسرے مذاہب کیخلاف اشتعال دلانا‘ تاکہ ان سے سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔1969ء میں احمدآباد فسادات‘ 1979ء میں جمشید پور فسادات‘ بابری مسجد کے انہدام کے علاوہ حیدرآباد مکہ مسجد‘ اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکے انہی تنظیموں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کی کڑیاں ہیں۔بلاشبہ مودی سرکار میں انتہا پسند ہندوؤں کی آج اکثریت ہے اور بھارت میں ان انتہا پسند ہندوؤں نے مسلمانوں کی زندگی یقینی طور پرمحال کر رکھی ہے۔ ماضی میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں‘ جب مسلمانوں کو بے رحمی سے کچلا گیا اور اقوامِ عالم خاموش تماشائی بنی رہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں 2002ء میںہونے والے فسادات میں مسلمانوں کی کھلم کھلا نسل کشی کے اقدامات تھے‘ جن میں تقریباً 2500 سے زائد بے گناہ مسلمان قتل کیے گئے ‘ مگر مجال ہے کہ سنگھ پریوار کیخلاف کوئی عدالتی کارروائی کی گئی ہو؛ حتیٰ کہ یورپی یونین سمیت تمام عالمی تنظیموں نے بھی مسلمانوں کی اس بے رحمانہ نسل کشی پر کوئی احتجاج ریکارڈ نہ کروایا اور نہ ہی بھارت سے کسی قسم کی کوئی بازپرس کی گئی۔
گزشتہ دنوں بابری مسجد کے مستقبل کے فیصلہ کے وقت بھی سنگھ پریوار کے لوگوں کو سبھی دیکھ رہے تھے کہ وہ جو فیصلہ سننے سے پہلے بھارتی سپریم کورٹ میں کھڑے مسکرا رہے تھے‘بابری مسجد کا فیصلہ آتے ہی بے ساختہ قہقہے لگانا شروع ہو گئے۔یہ کیسا فیصلہ ہے‘ جس کاا علان اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ گزشتہ ماہ 5 اکتوبر کو ایک جلسے میں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کر چکا تھا کہ آپ کو جلد ایک عدالتی کیس میں بہت بڑی خوش خبری ملنے والی ہے۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں نے جب یوگی ادتیہ ناتھ کی تقریر سنی تو حیران رہ گئے کہ بابری مسجد کیس کے علا وہ اور کون سا کیس ہے‘ جس کی بابت سنگھ پریوار کے ان کارکنوں کو خوشخبری دی جا رہی ہے۔ اس قسم کے متوقع فیصلے بھارتی سپریم کورٹ کی تاریخ میں کوئی اچنبھا نہیں‘ بلکہ اگر کسی کو یادرہ گیا ہو تو اندرا گاندھی کی ایمر جنسی کو اسی بھارتی سپریم کورٹ نے قانونی جواز فراہم کیا اور بھارت میں ہندوئوں کو انتہا پسندی کی راہ پر ڈالنے والی یہی بھارتی عدالتِ عظمیٰ ہے‘ جس نے 1991 ء میں بھارت کے سیکو لر چہرے کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرتے ہوئے ہندوتوا کو ایک طرزِ زندگی کا نام دے کر اسے الیکشن کمیشن کے قانونی شکنجے سے آزاد کراکے انتخابات میں حصہ لینے کی اجا زت دے دی تھی۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے اس اشارے کے اگلے روز بھارتیہ جنتا پارٹی کے طاقتور ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج‘ گرجتی ہوئی آواز میں کہہ رہے تھے کہ تیار ہو جائو ‘6 دسمبر سے بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر شروع کی جا رہی ہے‘‘ ۔کیا یہ عجب اتفاق نہیں کہ دنیا ایک طرف تو یہودیوں کے ہولو کاسٹ کا صرف نام لینے والے کو سزا دینے میں لمحہ نہیں لگاتی ‘جبکہ کشمیر میں103 دن کا کرفیو‘ کشمیریوں کا قتل عام اور بھارت میں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دلتوں کے اجتماعی قتل عام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
مشہور محقق اور قلم کار ڈاکٹر ظفر السلام خان‘ جو بھارت سمیت بہت سے ممالک کے اخبارات میں اپنے انگریزی مضامین کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں‘ انہوں نے بابری مسجد پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے عدالت کی قابلیت اور اہلیت کو ایک سوالیہ نشان بنا کر دنیا کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک پیراگراف کا حوالہ دیتے ہوئے ظفر السلام‘ بھارتی عدالت عظمیٰ کے ججوں کی دو رخی دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کی ایک سطر میں لکھا ہے '' بابری مسجد ‘رام مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی‘ لیکن دوسری جگہ بھارتی سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں تسلیم کرتی ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی کھدائی کی رپورٹ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہاں پر کسی قسم کا کوئی مندر تھا یاا س کے کوئی آثار تھے‘‘۔ڈاکٹر ظفر السلام نے بابری مسجدپر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا‘ جس طرح پوسٹ مارٹم کیا ہے‘ اس سے بھارت کا نظامِ انصاف اور نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ ریت کی دیوار کی طرح گر کر اس طرح پاش پاش ہو چکا کہ اس کے ٹکڑے کہیں کسی گندی نالی میں پڑے ہوئے نظر آتے ہیں‘ تو کہیں گزرتی ہوئی ہر قسم کی ٹریفک کے نیچے کرچی کرچی ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر ظفر السلام اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے صرف مسلمان ہی نہیں ‘بلکہ رام جنم بھومی کے اصلی ہندو مدعی نر موبی اکھاڑے سے باہر پھینکتے ہوئے وشوا ہمدو پریشد اور راشٹریہ سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیم رام جنم بھومی کا مدعی بنا کر مسلمانوں کے سامنے کھڑا کیا تھا ‘اس کے سر پر کامیابی کا تاج سجا تے ہوئے ایک مرتبہ پھر1991ء میں ہندوتوا کی تمام مذاہب سے نفرت کو ایک طرزِ زندگی کا نام دینے کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے متعلق فیصلے کو پڑھیں تو اس میں لکھا ہے کہ کسی مذہبی عقیدے کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میںرائے دیناعدالت کے اختیارات سے باہر ہے‘ لیکن اسی فیصلے میں لکھا ہوا ہے کہ جہاں رام لیلا براجمان ہیں‘ وہ جگہ ان کی ملکیت ہے اور عدالت حقائق کو جانتے ہوئے بھی راشٹریہ سیوک سنگھ کی ذیلی تنظیم رام جنم بھومی نیاس کے مفروضوں پر مبنی دعوے کو اپنے فیصلے میں قبول کر لیتی ہے اور شرمناک طور پر ان الفاظ کا اضافہ کرتی ہے کہ بابری مسجد میں مسلم فریق متنازع زمین پر اپنے قبضے کی کوئی بھی دلیل ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے اور حیران کن طور پر اسی فیصلے میں لکھا ہے کہ شہنشاہ ظہیر الدین بابر کی حکومت میں میر باقی نے اس مسجد کو تعمیر کروایا تھا۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے دیئے جانے والے اس فیصلے کا سب سے مزاحیہ پیراگراف دیکھئے‘ جس میں جج حضرات نے سنی وقف بورڈ کو کمال فیاضی سے مسجد کی تعمیر کیلئے پانچ ایکڑ زمین مہیا کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور یہ وہ زمین ہے‘ جو پہلے ہی مسلمانوںکی ملکیت ہے‘ جسے وی پی سنگھ حکومت نے اکتوبر1990ء میں ایکوائر کیا تھا۔المختصر اگر یہ کہا جائے کہ بابری مسجد کی بابت فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے نہیں ‘ بلکہ سنگھ پریوار کا فیصلہ ہے‘ تو یہ ہر گز غلط نہ ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں