ٹڈی دل نے سندھ اور بلوچستان کے بعد اب پنجاب کے مختلف شہروں میں فصلوں پر حملے شروع کر دیئے ہیں‘ جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے تو ایک سال قبل ہی خبردار کر دیا تھا کہ ٹڈی دل پاکستان کی فصلوں‘ باغات اور سبز ے کولالچ بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے انہیں چاٹنے کیلئے حملہ کرنے والے ہیں‘ لیکن ان کی اس وارننگ کو کسی نے سنجیدہ نہ لیا اور آج سب نے دیکھ لیا کہ ان کی ایک سال قبل کی جانے والی یہ پیش گوئی اس قدر درست ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان میںگندم‘ گنے ‘ سبزیات اور دالوں کو ا ن ٹڈی دل کیٹروں کے لشکرنے چاٹ چاٹ کر وطن ِ عزیز میں سر سبز و لہراتی ہوئی فصلوں کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔
آخری اطلاعات تک یہ ٹڈی دل کیٹرے مختلف شکلوں میں سر سبز پاکستان کو چاٹنے میں مگن ہیں۔ ٹڈی دل کی بعض مقامات پر پرواز اتنی اونچی تھی کہ چیلیں اور کوے انہیں کھا کھا کر تھک گئے اورکہیں اتنی نیچی کہ بچے اور خواتین خوفزدہ ہوگئے۔ ٹڈیوں کی بڑی تعدادکہیں مکانات کی چھتوں پر بیٹھی توکہیں دیواروں سے چپکی نظر آئی۔ اس کے علاوہ سکولوں اور ہسپتالوں پر بھی ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ہوئیں ‘ یعنی شہریوںکے نا صرف اس افتاد سے پریشان ہوئے‘ بلکہ ان کے معمولات ِزندگی بری طرح متاثر بھی ہوئے۔1961ء میں کراچی پر ٹڈی دل نے پہلی بار حملہ کیا تھا۔ ٹڈل دل کے خاتمے کیلئے فوری طور سپرے کروانا صوبائی حکومت سمیت متعلقہ محکموں کی ذمہ داری ہے‘ انہیں اپنے اس فرض کا احساس ہونا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے انتہائی دکھ اور افسوس بھرے لہجے میں کہا ہے کہ اگر بر وقت زرداری صاحب کی بات پر غور کر لیا جاتا اوران کی اس اطلاع کو سنجیدہ طریقے سے لیتے ہوئے ٹڈی دل کے حملہ سے پہلے ہی اس کا سد باب کر لیا گیا ہوتا‘ تو آج وطن ِ عزیز میں اناج اور انسانی استعمال میں آنے والے خوردنی اشیاء کی فراہمی اور حصول میں ذرا سی بھی کمی نہ ہوتی‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے سابق صدر آصف علی زرداری کی اس وارننگ اور پیشگی اطلاع پر توجہ نہ دی اور اس وقت وطن ِعزیزآٹے اور چینی کے بحران میں مبتلا ہو چکا ہے۔
نفیسہ شاہ نے ملک بھر اور خاص طور پر سندھ میں پیدا ہونے والی آٹے اور سبزیات سمیت پیاز اور ٹماٹر کی پریشان کن صورت ِحال کا پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایف آئی اے کے سربراہ واجد ضیاء کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنا کر انکوائری کروانی چاہیے کہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کی پیشگی وارننگ پر توجہ کیوں نہیں دی گئی‘ جس کے نتیجے میں پورے سندھ کی زرعی فصلیں گزشتہ تین ماہ سے ٹڈی دل چٹ کر گئے ہیں اور اب یہی ٹڈی دل کیڑے سندھ سے رحیم یار خان سے ہوتا ہوا‘ پنجاب کے دوسرے اضلاع کی جانب بڑھنا شروع ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے کھیتوں پر حملہ آور ٹڈی دل کو تباہ کرنے کیلئے کئی گھنٹے ریسرچ کرنے کے بعد سابق صدر زرداری کی ایک برس قبل دی جانے والی ''ٹڈی دل کی وارننگ‘‘ کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں مل سکا‘ کیونکہ سندھ حکومت کے گاڈ فادر ہونے کی حیثیت سے ان کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ بلاول ہائوس سے وزیر اعلیٰ سندھ کے دفتر اور وہاں سے متعلقہ محکموں تک ضرور پہنچے ہوتے‘ کیونکہ یہ بتانا تو اپنی کم علمی اور لاعلمی پر مہر ثبت کرانے کے مترادف ہو گا کہ پی پی پی کے چیئر پرسن اور بلاول ہائوس سے آنے والے احکامات اور مشورے سندھ حکومت کی کسی سنہری مخمل میں جلد کئے ہوئے رجسٹر میں درج نہ ہوتے ہوں۔ نفیسہ شاہ کے اس ہوش ربا انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے ہمارے استادِ محترم گوگا دانشور فرماتے ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی یہ وارننگ صرف وزیر اعظم عمران خان کی مرکزی حکومت کیلئے ہی مخصوص تھی۔کیا سندھ میں محکمہ زراعت یا خوراک نام کی کوئی وزارت اپنا وجود نہیں رکھتی؟اگر خوراک اور زراعت نام کی کسی وزارت کا سندھ میں وجود نہیں‘ تو پھر دیکھنا ہو گا کہ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کی یہ وارننگ تحریری طور ہر اسلام آباد لازمی بھجوائی گئی ہوگی اور اس کا پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ جو خیر سے سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی دختر نیک اختر بھی ہیں‘ ان کے پاس کوئی ریکارڈ بھی لازمی ہو گا‘ کیونکہ اس طرح الارمنگ اور خطرناک قسم کی اطلاعات خوابوں اور خیالوں میں تو نہیں دی جاتی ہیں۔
ہمارے استادِ محترم گوگا دانشور فرماتے ہیںکہ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ سابق صدر آصف علی زرداری جیسی با خبر شخصیت کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ان سے یہ معلوم کریں کہ ان تک ایک سال قبل یہ اطلاع کس طرح پہنچی کہ بارہ ماہ بعد پاکستان پر ٹڈی دل کا لشکر حملہ کرنے والا ہے۔ یہ کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہو سکتی‘ کوئی بہترین علم والا شخص ہی یہ جان سکتا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کو یہ بھی لازمی علم ہو گا کہ یہ ٹڈی دل کس طرف سے پاکستان کا رخ کرتے ہوئے‘ اس کے غریب عوام کا آٹا‘ چینی‘ دالیں اور سبزیات سمیت زرعی اجناس کا چاٹ کر پھر سے کہیں دُور اڑ جائے گا‘ جبکہ ٹڈی دل نے دوسری بارکراچی پر حملہ کیا ہے۔اس حملے کے دوران شہری اپنے سروں پر منڈلانے والی ہزاریوں ٹڈیوں کی وجہ سے آفت ناگہانی سے دوچار ہوئے۔ پاکستان میں کپاس کی فصل پر ٹڈی دل کا حملہ 25سے30 سال بعد دیکھاگیا ہے۔غالبا ًیہ 1982ء یا 1984ء کی بات ہے‘ جب ٹڈی دل نے نا صرف سندھ کے کئی شہروں میں تیار فصلوں پر حملہ کرکے سے شدید نقصان پہنچایا ‘بلکہ ان کا رخ شہروں کی جانب بھی ہوا خاص کر اہل ِ کراچی نے وہ مناظر دیکھے‘ جب ٹڈی دل شہر سے گزرا تو پورا آسمان ان سے بھر گیا اور ہر طرف ٹڈیاں ہی دکھائی دینے لگی تھیں۔ اس سے قبل 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھی ٹڈی دل کا حملہ ہوا تھا۔اتنے طویل عرصے کے بعد ٹڈیوں کے حملے کی وجہ سے حشرات کش ادویہ ساز کمپنیوں کے پاس اس کے خاتمے کیلئے کوئی موثر حشرات کش دوائیں بھی دستیاب نہیں اور نہ ہی اس سے نمٹنے کا صحیح طریقہ کسی کو معلوم ہے‘ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی سپرے سب سے موثر ثابت ہوسکتا ہے ‘اس کیلئے حکومتی سطح پر ادویات درآمد کر کے بڑے پیمانے پر فضائی سپرے کرائے جائیں ‘تاکہ اس پر فوری طور پر قابو پایا جا سکے۔
گوکہ سندھ کے دیگر علاقوں تھر‘ سانگھڑ‘ نواب شاہ ‘ بدین اوردادو میں بھی ٹڈی دل نے حملہ کر کے کاشتکاروں کی تیار فصلوں اور پودوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس نقصان کے باعث کاشتکاروں کو جو بھاری نقصان ہوا ہے‘ اس کے ازالے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے چاہیے۔ بروقت سپرے کرکے نقصان کو بڑھنے سے روکا جاسکتا تھا ‘لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔سوال یہ ہے کہ کاشتکاروں کو جو مالی نقصان ہوا ‘اس کا مداوا کون کرے گا‘ کیونکہ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ کسانوں کا گزر بسر ان ہی فصلوں پر ہوتا ہے۔دریں اثناء صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہو نے یہ کہہ کر کہ '' شہری گھبرائیں نہیں‘ بلکہ ٹڈی دل کی کڑاہی بنائیں اور بریانی جم کرکھائیں‘‘ غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے۔