"MABC" (space) message & send to 7575

لندن سے واپسی کیوں؟

وزیر اعظم عمران خان کی پریس بریفنگ میں میڈیا کے کچھ دوستوں کی جانب سے اکثرپوچھا جاتا ہے کہ ملک میں کن کی پالیسیوں اور احکامات پر عمل ہو رہا ہے؟ دوسری جانب اپوزیشن اس کوشش میں ہے کہ موجودہ حکومت کی سول اور ملٹری کی بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کو ختم کر کے ایک دوسرے کے آمنے سامنے لا کھڑا کیا جائے ‘ تاکہ یہ دونوں گروپ جن کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے‘ کسی صورت بھی اس ملک اور قوم کے خیر خواہ نہ بن سکیں۔ہو سکتا ہے کہ وہ ہم سے زیا دہ محب وطن ہوں‘ لیکن ان کے الفاظ کا نا مناسب چنائو ایسی بحث چھیڑ دیتاہے ‘جو کسی بھی محب وطن کی سوچ کو رنجیدہ کر کے رکھ دیتے ہیں ۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جب بھی سول اور عسکری تعلقات ایک دوسرے کیلئے تعاون اور احترام کے جذبات سے لبریز نہیں ہوئے‘ تو قومی معاملات میں کھینچا تانی اپنے عروج پر رہی‘ جس کے نتائج یہ نکلے کہ ملکی ترقی کا پہیہ رکتا رہا‘ اندرون ا ور بیرون ِملک سے سرمایہ کار اپنے ہاتھ اور قدم روکتے رہے‘ بیوروکریسی دو دھڑوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی متحارب رہنے لگی‘ ایک گروپ جانے والوں کے ساتھ ہوتا تو دوسراآنے والوں کیلئے اندرونی اطلاعات فراہم کرنے کے فرائض انجام دینے لگتا‘ جس کا نتیجہ ہم سب نے اس طرح بھگتا کہ نہ تو ہماری معیشت کی کوئی کل سیدھی ہوئی اور نہ ہی ملکی تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں نے ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہونے کا سوچا۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے بعض حلقوں نے اپنی اپنی سیا ست کے گروپ بنا کر ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنے کیلئے سیا سی جماعتوں کا حصہ بننا قبول کر لیا‘ تاکہ اپنے مہربا نوں کے دو رمیں مزے اڑائیں اور مخالفین کے آنے پر ہڑتالوں اور افواہوں کا بازار گرم کر کے غیر یقینی صورتِ حال پیدا کر دیں۔
الغرض آج تک ہمارے ملک کا سیا سی نظام کسی راہ پر نہیں چل سکا۔ کوئی سمت تعین نہیں کی جا سکی ۔ہمارے پاس سب کچھ موجود ہونے کے با وجود ابھی تک ہمیں دنیا بھر میں نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کیلئے مشہور زمانہ بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو ہی سدھارنے کا طریقہ نہیں مل سکا‘ جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ان انتخابات کیلئے بر سر اقتدار سیا سی جماعتوں نے انتظامیہ کو اپنا آلہ کار بنا کر اس طرح انتخابات کرائے کہ پولیس کے ڈنڈوں اور انتظامیہ کے ہتھکنڈوں نے حکومتی مہروں کو منتخب کرانے کی مہریں انتخابی نتائج پر ثبت کرا ئیں۔ یہ گھپلے بنیادی جمہوریت کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتے ‘ یہی وجہ ہے کہ ہر دوسری آنے والی حکومت نے اس کی اصلیت جاننے کی وجہ سے ان مہروں کو اقتدار میں آتے ہی ردی کی ٹوکریوں میں پھینکنا اپنا شعار بنائے رکھا۔مولانا فضل الرحمان کا وہ دعویٰ ابھی ہوا میں ہی تھا کہ ان کا دھرنا ختم ہی اس شرط پر کرایا گیا کہ انہیں ملک کی اہم شخصیات نے یقین دہانی کرا دی تھی کہ مارچ میں وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دے دیں گے کہ اب شہباز شریف کی جانب سے دعویٰ کر دیا گیا ہے‘ بلکہ اگر اسے سیا سی بم شیل پھینکناکہیں تو زیا دہ منا سب ہو گا کہ انہیں لندن سے بلایا ہی اس گارنٹی پر گیا تھا کہ وزارت ِعظمیٰ آپ کی راہ دیکھ رہی ہے‘ کیونکہ پاکستان میں اس وقت دوسری کوئی سیا سی شخصیت ہی نہیں رہ گئی ‘جو ملک کے نظام کو آپ کی طرح قابلیت اور بہترین سٹرٹیجی سے چلا سکے۔یہ کوئی چھوٹی سی خبر نہیں تھی‘ کیونکہ جب شہباز شریف لندن سے روانہ ہو رہے تھے تو کوئی بھی یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے وقت میں جب کورونا وائرس ہر طرف اپنے پنجے گاڑ رہا ہے اور ان حالات میں جب جہاز میں سفر کرنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا تو ملک کے چند بڑے صنعت کاروں میں سے ایک بھاگم بھاگ پاکستان پہنچ جائے ۔ظاہر ہے کہ شہباز شریف نے سیاست کے وہ کھیل دیکھے اور کھیلے ہیں کہ ایک دنیا ان کی معترف ہے اور وہ کچی گولیاں کھیلنے والے سیا ستدان نہیں ہیں‘ اس لئے ان کا لندن سے آنا اپنے اندر کوئی بڑا راز یا منصوبہ لئے ہوئے ہو سکتا ہے۔ مولانافضل الرحمان سے شہباز شریف تک وزیر اعظم عمران خان جیسے منتخب ایگزیکٹو عہدے سے استعفیٰ دلوانے کے دعوے کوئی معمولی بات نہیں اورا س کیلئے دونوں صاحبان ‘جو ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں‘ کا اپنے اپنے ضامنوں کا حوالہ دینا معمولی بات نہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دھرنے میں صرف امپائر کی انگلی کا حوالہ دیا تھا‘ جو آج تک ان کی ذات سے اس طرح چمٹا ہوا ہے کہ جاوید ہاشمی سے لے پوری پی پی پی اور نواز لیگ کا ہر چھوٹا بڑا مسلسل انہیں ہدف بنائے رکھتا ہے اورانگلی کے اس اشارے کے حوالے کو ملکی قوتوں کوابھی تک نشانہ بنائے چلا آ رہا ہے۔ وہ تو انگلی کا اشارہ تھا‘ لیکن جب آپ کھل کر کہیں کہ ہمیں گارنٹی دی گئی ہے کہ استعفیٰ آپ کی جیب میں ڈال دیا جائے گا‘ بس تین ماہ تک صبر کر کے گھر بیٹھ جائیں اور دوسرا یہ دعویٰ کرے کہ ان کے پاس دو سینئر صحافی بھیجے گئے تھے کہ گھبرائیں مت آئندہ آپ کو ہی وزیر اعظم بنایا جائے گا تو بتایئے ان کاا نگلی کے اشارے سے کیا مقابلہ؟
عمران خان صاحب سے بحیثیت ایک سیا ستدان جہاں بہت سی غلطیاں ہو رہی ہیں‘ وہاں بطورِ وزیر اعظم بھی ان سے کچھ ایسے فیصلے ہوئے جن سے اختلاف کیا جا سکتا ہے‘ وزراء کی تبدیلیوں جیسے کئی فیصلے ان کا مدت تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اس قسم کے اور بھی کچھ لوگ ان کے ارد گرداہم جگہوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ حکمرانوں کو ایسی چکنی چپڑی باتوں سے سرشار کئے رکھتے ہیں اور انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ بیس برس ان کے سیا سی سفر میں ان کا ساتھ دینے والے آج کہاں کھڑے ہیں؟ اس سلسلے میں پارٹی کے سینئر عہدیداروں کی زبوں حالی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ سب کو یاد ہو گا کہ کورونا وائرس پھیلنے سے چند ماہ قبل22 نومبر کو تحریک انصاف سینٹرل پنجاب نے دو ماہ کے مختصر وقت میں دن رات ایک کرتے ہوئے انتہائی چھان پھٹک کر کے سوائے چند ایک غلطیوں کے ایک منظم جماعت کی شکل میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مینار پاکستان پر تیس ہزار سے زائد صرف پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں کو اکٹھا کر دیا اور میڈیا پر دکھائے جانے والے یہ منا ظر سب کیلئے اس لئے حیران کن تھے کہ مہنگائی آٹا اور چینی کے بحران کی وجہ سے اس وقت تحریک انصاف کی مقبولیت کا گراف انتہائی نیچے کی جانب گرتا جا رہا تھا‘ لیکن پی ٹی آئی کارکنوں کا اس بھاری تعداد میں جوش و خروش سے لبریز مجمع اپوزیشن جماعتوں اور کچھ اینکرز کے ان دعووں کی نفی کر رہا تھا کہ تحریک انصاف کا گراف گر چکا ہے ۔ آج صورت ِحال یہ ہے کہ سینٹرل پنجاب کا صدر پارٹی چیئر مین‘ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے کئی ماہ سے کوششیں کر رہا ہے‘ لیکن اس کی کہیں بھی شنوائی نہیں ہو رہی۔ اور توا ور حیران کن خبر یہ سننے میں آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان تو کجا‘ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی سینٹرل پنجاب کے صدر کو ملاقات کا وقت دینے سے نہ جانے کیوں کترارہے ہیں ؟اگر سینٹرل پنجاب جیسے اہم حصے کے پارٹی صدر کی یہ وقعت ہے‘ تو باقی لوگ کس با غ کی مولی ہیں؟ کیا سمجھ لیا جائے کہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب سے حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں